ولادت

 شیعوں کے باروہے امام ؑ ہیں .امام زمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ ۔15 شبعان سال 255 ہجری کوشہر سامراء میں ظہور کیا .آپ کے والد بزگوار کا نام مبارک امام حسن عسکری ؑہے ٬اور آپ کی والدہ محترمہ کا نام مبارک (نرجس ) تھا اور ان کو ریحانہ ٬سوسن ٬اورصقیل کے نا م سے بھی یاد کیا گیا ہے.امام زمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ ۔کا نام اور کنیت رسول خدا کی طرح ہے ٬زمان غیبت میں امام زمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ۔کا نام لینا جاہز نہیں ہے .[1]

بشیر بن سلمیان بردہ بیچنے والا جو ابو ایوب انصاری کا بیٹا اورامام علی نقی ؑ اور امام حسن عسکری ؑکا خاص شیعہ تھا ٬اور وہ شہر سرمن رأ یٰ میں امامؑ کے پڑوس میں رہتا تھا .وہ کہتا ہے ٬کہ ایک دن امام علی النقی ؑ کا خادم بہ نام کافور میرے پاس آیا اور مجھے کہا کہ تم کو امام ؑ نے یاد کیا ہے .میں امام ؑ کی خدمت میں آیا ٬امام ؑ نے فرمایا:تو ابوایوب کی اولاد میں سے ہے تمہارے دلوں میں ہماری محبت رسول خدا کے زمانے سے لے کر آج تک موجود ہے ،تم ہمارے قابل اعتماد انسانوں میں سے ہوں ٬ میں تمہارے زمہ ایک کام سپردکرنے والا ہوں جس کی وجہ سے تمہارا مقام ہمارے باقی شیعوں سے بلند ہو جائے گا ٬

 

پس امامؑ نے فرہنگی زبان میں ایک خط لکھا،اورا س خط پر اپنی مہر لگادی .............

 

امام ؑ کا اصلی نام اور اس کے احکام

 

حضرت بقیۃاللہ ۔عجل اللہ فرجہ الشریف۔کے اصلی نام (م ح م د ) ہے اور اس پر عامہ اور خاصہ کی متواتر روایات ہیں .اس نام کو اپنی مجالس اور محافل میں امام زمان ؑ کے ظہور موفور تک لینا حرام ہے ٬اس پر دلیلیں ذیل ہیں .

 

1.جندل بن جنادہ کہتا ہے :کہ رسول خدا نے فرمایا:میرے آخری بیٹےکا نام اس وقت تک نا لیا جائے جب تک خدا اس کو ظاہر نہ کر دے .[2]

 

2۔حضرت عبداعظیم فرماتے ہیں :کہ میں امام علی النقی ؑ کی خدمت میں تھا٬امام ؑ نے اپنے بعد کے اماموں کے نام لینا شروع کیے اور امام ؑ نے فرمایا :میرے بعد میرا بیٹا حسن ؑامام ہو گا ٬اور ان کے بعد ان کا بیٹا امام ؑ ہو گا اورجب تک اس آخری امام کو کوئی دیکھے نہ اس وقت تک ان کانام زبان پر لانا جاہز نہیں ہے .[3]

 

3۔طبرسی کتاب احتجاج میں امام محمد تقی   ؑ سے روایت نقل کرتا ہے :کہ ایک دن امیرالمومنین علی ؑ مسجد حرام میں بیٹھے ہوئےتھے ٬کہ اچانک ایک شخص جس کی خوبصورت شکل ٬خوبصورت لباس تھا امام علی ؑ کے سامنے آیا اور چند سوال کیے ٬حضرت علی ؑ نے امام حسن ؑ سے فرمایا :کہ اس کے سوالات کے جوابات دو ٬پس امام حسنؑ نے اس کے تمام سوالوں کے جواب دیے .اس وقت اس عربی نے کہا :أشھد ان لا الہ الا اللہ و لم ازل اشھد بھا واشھد ان محمد ا رسول اللہ ولم ازل اشھد بذلک )اور پھر اسکے بعد ایک ایک امام کا نام لیااور ان کی شھادت دی اور پھر کہا کہ امام حسن عسکری ؑ کا ایک بیٹا یو گا ٬اس کا نام اور کنیت کو زبان پر لانا جاہز نہیں ہو گا یہاں تک کہ وہ ظآہر نہ ہو جائے .وہ زمین کو عدل سےبھر دے گا٬اس کے بعد اس عربی نے کہا (اسلام علیک یا امیرالمومنین ورحمۃاللہ و برکاتہ)اس کے بعد وہ شخص وہاں سے چلا گیا٬اور امام علی ؑ نےامام حسن ؑ سے فرمایا:جائو اس کو دیکھو وہ کہاں جاتا ہے ٬امام حسنؑ اس کے پیچھے گئے مگر وہ شخص نظر نہ آیا ٬واپس آکر بتا یا بابا جا ن نہیں معلوم وہ شخص مسجد کے بعد کہاں چلاگیا ٬امیرالمومنین علی ؑ نےفرمایا :وہ خضر نبی تھا .[4]

 

روایت صحیح جس میں امام صادق ؑ فرماتے ہیں :صاحب الامر وہ ہے جس کا نام کافر کے علاوہ کوئی نہیں لیے گا .[5]

 

روایت میں دیان بن صلت کہتا ہے کہ امام رضا ؑ سے قائمؑ کے بارے میں سوال ہوا ٬تو امام ؑ نے فرمایا:جب تک اس کے جسم کو دیکھو نہیں اس قت تک اس کانام نہ لو .[6]

 

اس بحث پرمزید بہت سی رویا ت ہیں جو اسی مطلب پر دلالت کرتی ہیں لہذا مزید رجوع کیلیے بڑی کتابوں کی طرف رجوع کریں .

 

زمین اور آسمان پر امام ؑ کا نام

 

رسول خدا فرماتے ہیں میرے مھدی کے دو نام ہیں ایک نام آسمان پر مشہورہے وہ یہ نام (اح م د )اور دوسرا نام زمین پر مشہور ہے وہ نام (م ح م د )ہے اس بیان پر بہت سی روایات دلالت کرتی ہیں .

 

القاب :

 

اس فصل میں ہم امام زمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے القابات کو حروف تہجی کی ترتیب سے نقل کریں گئے.

 

1۔اصل :

 

امام زمانہ ؑ کے القاب میں سے ایک لقب اصل ہے .اصل کا لغت میں معنی:الاصل٬ما یقابل الوصف و الفرع :اصل وہ ہے جو وصف کے مقابلے یا اصل کی فرع ہو .حضرت بقیۃ اللہ کو اصل اس لیے کہتے ہیں کیونکہ ہر علم ٬ہرخیر٬ ہربرکت ٬اور ہر فیض یہی ہیں .اور خدا کی کوئی نعمت بھی کسی تک نہیں پہنچ سکتی مگر انہی کے وسیلہ کے ساتھ ٬اور دنیا اور آخرت میں انسانوں کی مدد کےلیے یہی اصل ہیں ٬پس خدا کی کائنات میں یہ خدا کی طرف سے اصل ہیں اور اس کی باقی مخلوق فرع ہے .[7]

 

2۔باسط: امام زمانہ ؑ کے القاب میں سے ایک لقب اصل ہے

 

3۔جمعہ:

 

امام زمانہ ؑ کے القاب میں سے ایک لقب جمعہ ہے ، شیخ صدوق فرماتے ہیں :یہ جو دونوں کے ناموں کی نسبت ائمہ ؑ کی طرف دی جاتی ہے ،یہ کنایہ کی وجہ سے ہے،تاکہ یہ ان کا معنی خاص لوگوں کے علاوہ کوئی نہ سمجھ سکے .جس طرح خدا وند متعال نے قرآن میں تین ،زیتون، طور، سینین،اور بلدامین سےمراد پیغمر اکرم ،حضرت علی ؑ ،امام حسنؑ اور امام حسین ؑ مراد ہے .

 

امام علی نقی ؑرسول خدا سے حدیث نقل کرتے ہیں :کہ انہوں نے فرمایا،کہ دونوں کے ساتھ دشمنی نہ کرو،کیونکہ یہ تمارے دشمن بن جائیں گئے ،یہ دن ہم اھل بیت ؑ ہیں اور دن (جمعہ) میرے بیٹے کا بیٹے ہو گا ، جس کی طرف اھل حق اوراھل صدق لوگ جمع ہو گئے .

 

یہ لقب کیوں امام زمانؑ کو دیا گیا .

 

کیوں امام زمان ؑ کی ولادت با سعادت اس دن کو ہوئی تھی .

 

امام زمان ؑ کا ظہور موفور اسی دن کو ہوگا .اور اس دن لوگ امام زمان ؑ کے ظہور کیلیے زیادہ دعائیں مانگتےہیں ،جس طرح روز جمعہ کی زیارت میں ہے (یا مولای !یاصاحب الزمان !صلوات اللہ علیک وعلی ال بیتک،ھذا یوم الجمعۃ وھو یومک المتوقع فیہ ظھورک و الفرج فیہ للمومنین علی یدک )[8]

 

4۔خلف اورخلف صالح :

 

امام زمانہ ؑ کے القاب میں سے ایک لقب خلف اور خلف صالح ہے ،       امام رضا ؑ فرماتے ہیں خلف صالح ،ابی محمد اور حسن بن علی ؑ کے بیٹوں میں سے ہے وہ صاحب الزمان اور مھدی ہے [9]

 

خلف کے لغت میں معنی عوض یا بدل ہیں.یہ لقب امام زمان ؑ کو اس لیے دیا گیا ،کیونکہ آپ تمام انبیا گذشہ اور اوصیای گذشہ کی جگہ ہیں اور تمام انبیا کے معجزات ،علوم ،صفات، خصایص اور مواریث الھیہ،آپ میں جمع ہو گئی ،جس طرح حدیث لوح جس کو جابر نے حضرت صدیقہ کے پاس دیکھا جس میں امام عسکریؑ زندگی کے زکر کےبعد لکھا ہوا تھا ،کہ میرا آخری بیٹا جو خلف ہو گاوہ تمام عالمین کے لیے رحمت ہو گا ،جس میں آدم کے صفات کمال ہوں گئے ،جس میں رفعت ادریس ہو گئی ،سکینہ نوح ہو گا،حلم ابراھیم ہو گا ، شدت موسی،بہای عیسی،اور صبر ایوب ہو اگا .[10]

 

اسی طرح حدیث مفضل میں بھی ہےکہ جب امام زمان ؑ ظہور فرماہیں گئے تو اس وقت خانہ کعبہ کے ساتھ تیک لگ کر فرماہیں گئے ،اے خدا کی مخلوق ،تم میں سے جو جوچاہتاہےکہ آدم وشیث کو دیکھے ،میں ہی آدم ہوں اور میں ہی شیث ہوں ،میں ہی نوح ہوں ،میں ہی سام ، میں ہی ابراھیم، میں ہی اسماعیل ہوں ، میں ہی موسی ہوں، میں ہی یوشع ہوں ، میں ہی شمعون ہوں اور اسی رسول خدا اوع باقی ائمہ ؑ کانام لیا ۔[11]   5۔خلیفۃ اللہ :

 

امام زمانؑ کے القاب میں سے ایک لقب خلیفۃاللہ ہے ،خلیفہ کے لغت میں معنی جانیشین اور قائم مقام کے ہیں .رسول خدا فرماتے ہیں "کہ جب مہدی ؑ خروج کرے گا ،بادل اس کے سرپر چلیں گئے ایک منادی ندا دے گا ،یہ مہدی خلیفۃ اللہ ہے اس کی پیروی کرو ،[12]

 

امام زمان ؑ کو اس لیے خلیفۃاللہ کہتے ہیں ،کیوں کہ جس وقت آپ ظہور فرمایں گئے ،آپ خدا وند متعال کی طرف سے تمام مخلوق پر خلیفہ ہوں گئے اور تمام انبیا،اوصیا،شہدا اور تمام ائمہ ؑ کی طرف سے جانشین ہو گئے امام صادقؑ فرماتے ہیں :جس وقت ہماراقائم خروج کرے گا تو اس وقت وہ داود اور سلیمان کو حکم دے گا تو اس وقت لوگ اس سے شاہد نہیں مانگئے گئے .[13]دوسری روایت میں بھی اسی طرح ہے ،کہ لوگ اس وقت دلیل نہیں مانگے گئے ،کیوں کہ خدا وند متعال ان کو الہام کرے گا پس وہ اپنے علم کے ساتھ حکم کرے گااور جو کچھ لوگوں کے دلوں میں پوشیدہ ہےاس کی خبر دے گا .

 

امام زمان ؑ صورتا اور معنا خلیفۃ اللہ ہیں .

 

صورتا:

 

 

 

 

 

معنا:

 

6۔سید :

 

امام زمانؑ کے القاب میں سے ایک لقب سید ہے .سید کا معنا(السید ،الرئیس الکبیر فی قومہ )سید وہ جو اپنی قوم کا بڑا سردار ہو،اب امام زمان ؑ کو اس لیے سید کہتے ہیں کیوں کہ وقت ظہور اامام زمان ؑ نہ صرف اپنی قوم کے سردار ہوں گئے بلکہ تمام اہل عالم کے سردارہوں گئے .[14]    

 

سید کا ایک معنا (السید الذی یفوق فی خیر)عبقری ص 113 ...........

 

روایت میں ہے کہ زمین اپنے پھل امام زمان ؑ کے سپرد کرے گئی ،اور امام ؑ سے کوئی چیز بھی پہنان نہیں کرے گئی[15]

 

روایت میں ہے کہ آسمان سے بارش نہیں ہو گئی مگر جب تک امام زمانؑ حکم نہیں کریں گئے ،اور زمین اس وقت تک پھل نہیں دے گئی جب تک امام ؑ حکم نہیں کریں گئے ،اس وقت مردہ لوگ آرزو کریں گئے،اےکاش ہم زندہ ہوتے اور یہ کرامات دیکھتے .[16]

 

7۔صاحب الامر:

 

امام زمانؑ کے القاب میں سے ایک لقب صاحب الامر ہے .یہ لقب امام زمان ؑ کے علاوہ کسی بھی انبیا اور اولیا کو نہیں ملا ،یہ صرف آپ ؑ کے ساتھ خاص ہے .آپ کو یہ لقب اس لے ملا کیوں کہ آپ ؑ خون اباعبداللہ الحسین ؑکے ولی اور صاحب ہیں ان کے خون کا بدلہ آپؑ لیں گئے ،اسی وجہ سے لسان خدا ،رسول اللہ اور ائمہ ؑ کی زبان سے آپ ؑ کیلیے یہ لقب خاص ہوا ................

 

8۔غوث :

 

امام زمانؑ کے القاب میں سے ایک لقب غوث ہے .غوث کا معنی فریاد رسی کرنے والاہے ؛امام زمان ؑ کو یہ لقب اس لیے دیا کہ خدا نے آپ کو اتنی طاقت عطا کی ہے کہ خدا کوئی مخلوق بھی جس جگہ اور جس زبان میں آپ ؑ سے استغاثہ کرے اور فورا آپؑ اس کی مدد کریں .اب یہاں پر انسان کا اپنا ظرف ہے جتنی وہ عقدیت کے ساتھ مدد مانگے گا وہ اتنی جلدی مدد کریں گئے .[17]

 

9۔فجر:

 

امام زمانؑ کے القاب میں سے ایک لقب فجر ہے .امام صادق ؑفرماتے ہیں ٬قرآن میں فجر (والفجر؛ولیال عشر) [18]سے مراد امام زمان ؑ ہیں .[19]کیوںامام زمان ؑ کو فجر کا لقب دیا گیا ہے ٬اس کی چند وجوحات ہیں .

 

جس طرح طلوع فجر کے وقت موذن الھی لوگوں کو واجب نماز کیلیے ندا دیتے ہیں اسی طرح ہنگام طلوع فجرحقیقی جبرائیل ؑ ندا دےگا٬کہ لوگوں خدا کی آخری حجت امام زمان ؑکا ظہور ہو گیاہے .

 

جس طرح طلوع فجر اور طلوع آفتاب کے درمیان سونا مکروہ اور یہ سونا ٬لعنت اور رزق کے حرام ہونے کا سبب بنتا ہے اسی طرح ہنگام طلوع فجر حقیقی جب امام زمان ؑ ظہور فرمائیں گیے٬تو اگر اس وقت کوئی غفلت کی نید سویا تو اس پر خدا کی نعمت حرام ہو گئی .[20]

 

10 قطب:

 

امام زمانؑ کے القاب میں سے ایک لقب قطب ہے .قطب وہ ستارہ جو جدی اور فرقدین کے درمیان میں واقع ہے اس ستارہ قطب پر آسمان کا دار مدار ہے .امام زمان ؑ کو اسی لیے قطب کا لقب دیا گیا ہے کیوں کہ وجود زمین اور آسمان ٬وجود کون و مکان ٬حیات انسان و حیوان٬حیات جن و ملک کا دار مدار امام زمان ؑ کی حیات پر ہے (بیمنہ رزق الوری و بوجود ثبت الارض و سماء )[21]باقی ہے ............

 

11۔قائم :

 

امام زمانؑ کے القاب میں سے ایک لقب قائم ہے . امام زمان ؑ کو اس لیےقائم کا لقب عطاکیا گیا ہے کیونکہ تاریخ بشریت میں انسانوں کی اصلح کیلئے اس سے بڑا قیام نہیں ہوا ،کیونکہ اس قیام میں حق کو باطل سے جدا کیا جائے گااس قیا م میں عدالت قائم ہو گئ اور اسی وجہ سے یہ قیام دوسرے قیاموں سے ممتاز ہے .

 

روایت میں ہے کہ ابو حمزہ ثمالی کہتاہے:سالت الباقر ؑ یابن رسول اللہ !إلستم کلکم قائمین بالحق؟

 

قال بلیٰ !قلت :فلم سمی القائم قائما؟

 

امام باقر ؑ سے سوال کیا ،اے فرزند رسول کیا آپ سب نے حق پر قیام نہیں کیا ؟امام ؑ نے جواب دیا:کیوں نہیں !پس کیو ں امام زمان ؑ کو قائم کہتے ہیں ؟امام ؑ نے جواب دیا :جس وقت امام حسین ؑ شہید ہوئے تو اس وقت فرشتوں نے خدا کی بارگاہ میں نالہ اور گریہ کیا ،تو اس وقت خدا نے باقی امامان جو امام حسین ؑ کی نسل سے ہیں ان فرشتوں کو دیکھایا،ان کو دیکھ کر فرشتے بہت خوش ہوئے اور ان اماموں میں سے ایک نماز پڑھ رہا تھا ،تو خدا نے اس کی طرف اشارہ کر کے فرمایا:میں اس (قائم) کےذریعےحسینؑ کے قاتلوں سے انتقام لو گا ،پس اسی وجہ امام زمان ؑ کو قائم کہتے ہیں .[22]

 

امام صادق ؑ فرماتے ہیں (سمی القائم لقیامہ بالحق )امام زمان ؑ کو قائم کہتے ہیں کیونکہ ان کا قیام حق اور عدالت والا ہو گا اور اس قیام کا ہدف باطل کو ختم کرنا اور عدالت کو قائم کرنا ہو اگا . [23]

 

امام رضا ؑ فرماتے ہیں :کیوں کہ حضرت قائم ؑ لوگوں کو اسلام کی دعوت دیں گیں ٬اور ان کو اس لیے قائم کا لقب عطاکیا جائے کیوں کہ ان کا قیام حق پر ہو گا .[24]

 

امام زمانؑ کو قائم کا لقب ا س لیے عطا کیا گیا ٬کیوں کہ وہ اپنی امامت کو قائم کریں گئے ٬صقر بن ابی دلف کہتا ہے :کہ میں نے امام محمد تقی ؑسے سنا٬ کہ انہوں نے فرمایا :کہ میرے بعد میرا بیٹا علی امام ہے ٬ اس کا حکم میراحکم ہے ٬ اس کی اطاعت میری اطاعت ہے ٬اس کے بعد اس کا بیٹا حسن امام ہو اگا٬اس کا امر اس کے باپ کی طرح ہو گا ٬اس کا بات اس کے باپ کی طرح ہو گئی ٬ اس کی اطاعت اس کے باپ کی طرح ہو گئ ٬ اسکے بعدامام ؑ خاموش ہو گئے . میں نے عرض کی :یابن رسول اللہ امام حسن ؑ کے بعد امام کون ہو گا؟تو امام ؑ نے گریہ کرنا شروع کر دیا اور بہت زیادہ گریہ کیا ٬اور پھر اس کے بعد فرمایا:حسن کے بعد امام اس کا بیٹا ٬قائم ٬ جو حق پر قیام کرے گا .میں نے عرض کی یابن رسول اللہ کیوں ان کو قائم کہتے ہیں ؟کیوں کہ وہ خدا کے ذکر کے ختم ہو جانے کے بعد ٬اوراکژ لوگوں کے مرتد ہو جانے کےبعد لوگوں کو اپنی امامت کی طرف قایل کریں گئے .[25]

 

امام مان ؤ کو قائم اس لیے کہتے ہیں .نکتہ ششم ص 137.............

 

12:کار

 

امام زمان کے القابات میں سے ایک لقب کار بھی ہے .کار کا معنی رجوع کنندہ اور واپس لینا ہے (برگردانندہ )

 

امام زمان کو یہ لقب اس لیے دیا گیا کیوں کہ عالم غیبت سے عالم استتار اور اطہر کی واپس آجائیں گئے .

 

امام زمان ؑ کو کار کا لقب اس لیے دیا گیا .کیوں کہ آپ ؑ تمام انبیا اور مرسلین کے وارث بن کر آئیں گئے٬جس خطبہ غدیریہ میں رسول خد اامام زمان ؑ کو یاد کر کے فرماتے ہیں :الاانہ وارث کل علم و المحیط بہ )

 

اور یہ بات واضحات میں سے ہے کہ آپ ؑ وارث علوم ٬ کمالات اور مقامات تمام انبیا ٬اوصیا اور آبای طاہرین ہیں ؛اور آپ ؑ صرف ان ہی کے وارث نہیں بلکہ خدا کی تمام مخلوق کے وارث ہے .جس طرح روایت میں ہے کہ امام صادق ؑ فرماتے ہیں :جب لشکر حسنی کوفہ میں داخل ہو گا اور حسنی اپنے لشکر سے جدا ہو گا اور امام ؑ کے سامنے آکر کھڑا ہو گا اور امام ؑ سے کہے گا :اگر تو مہدی آل محمد ہے ٬تو پھرکہاں ہیں آپ کے جد رسول خدا کا عصا اور ان کی انگشتر ٬اور ان کی زرہ جس کا نام فاضل تھا ٬اور کہاں ہیں ان کا عمامہ جس کو سحاب کہتے تھے ٬ کہاں ہے ان کا کھوڑاجس کو مربوع کہتے تھے ٬کہاں ہے ان کی ناقہ جس کو غضبای کہتے تھے ٬ ان کی دلد ل جس کو استر کہتے تھے ٬اور کہاں ہے ان کا اونٹ جس کو براق کہتے تھے ٬ اور کہاں ہے وہ قرآن جس کو امیر المومنین حضرت علی ؑ نے بدون تغیر اور تبدیلی کے جمع کیا تھا ؟

 

امام ؑ نے جواب دیا :ہاں یہ سب چیزیں امام زمان ؑ کے پاس ہیں .مفضل نے کہا:اے میرے مولا !یہ سب چیزیں امام زمان ؑ کے پاس ہیں ؟امام صادقؑ نے فرما یا :ہاں !مجھے خدا کی قسم تمام انبیا کا ترکہ ٬یہاں تک عصای آدم ٬نوح نبی کے کام کرنے والے آلات٬ترکہ ھوداور صالح٬ صاع یوسف ٬مکیال شعیب٬عصای موسی ٰاور وہ تابوت جس میں موسیٰ تھے٬اوراہل موسیٰ اور اہل ھارون کی سب نشانیں ملائکہ ان کے پاس لے کر آیں گئے ٬تاج سلیمان اور اس کی انگشتر ٬رحل عیسی ٬اور عصای رسول خدا ٬انگشتر رسول خدا ٬عمامہ رسول خدا ٬اور تلوار ذولفقار٬ان کے پاس ہو گئی .[26]

 

امام زمان ؑ کو یہ لقب اس لیے عطا کیا گیا ہے .کیوں کہ آپ ؑ عزت اسلام و مسلمین اور شوکت ایمان ومومنین کو واپس لاہیں گئے .

 

13۔مھدی ؑ:

 

امام زمان ؑ کے القابات میں سے ایک مشہور لقب مھدی ؑ بھی ہے .ابی سعید خدری رسول خدا سے روایت نقل کرتا ہے .کہ رسول خدا نے فرمایا:اسم المھدی اسمی ..مہدی کا نام میرا نام ہے .

 

حضرت علی ؑ فرماتے ہیں (اسم المھدی محمد )مہدی محمدکانام ہے .[27]

 

امام زمان ؑ کا نام مہدی اس لیے ہے کیونکہ خدا متعال آپ کو اپنے تمام پوچیدہ امور آپ کیلیے ظاہے کردے گاجو اس سے پہلے کسی کیلیے بھی ظاہر نہیں کئیے جس طرح امام باقر ؑ فرماتے ہیں :اذاقام مھدینا اھل البیت ،قسم بالسویۃو عدل فی الرعیۃ،من اطاعہ فقداطاع اللہ و من عصاہ فقد عصیٰ اللہ و انما سمیٰ المھدی لانہ یھدی الی امر خفی..[28]

 

جب ہمارا مہدی اھل بیت کے خاندان سے ظہور کرے گا، تو وہ دولت کو برابر تقسیم کرے گا ،جہان میں عدالت قائم کرے گا ،اور جس نے بھی اس کی اطاعت کی اسنے خدا کی اطاعت کی اور جس نے بھی اس کی نافرمانی کی اس نے خدا کی نافرمانی کی ،اس کا نام مہدی اس لیے رکھا گیاہے کیونکہ وہ لوگوں کی پوشیدہ امور کی طرف ہدایت کرے گا 14۔منتظر :

 

امام زمان ؑکو اس وجہ سے منتظر کہتے ہیں کیونکہ لوگ ہمیشہ ان کے ظہور کیلیے منتظر ہیں ،تاکہ وہ ظہور کریں اور ظلم و ستم کو اس دنیا سے ختم کریں .

 

امام جواد ؑ سے سوال کیاگیا (لم سمی :المنتظر ؟)قال :لان لہ غیبۃ تکثر ایامھا ویطول امدھا ،فینتظر خروجہ المخلصون و ینکرہ المرتابون ..[29]

 

کیوں امام زمان ؑ کو منتظر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ؟امام ؑ نے جواب دیا :کیونکہ ان کی غیبت بہت طولانی ہو گئی اور ان کی غیبت میں بہت تکلیفیں آئی گئی ،امام زمان ؑ کے مخلص بندے ان کے ظہور کے لیے ہمیشہ منتظر ہو گئے .

 

غیبت امام زمان ؑ

 

امام مھدی ؑ کی غبیت کو دو حصوں میں بیان کیا جاتاہے (غبیت صغری )اور (غبیت کبری ).

 

غبیت صغری سن 260 ہجری (جب امام حسن عسکری ؑ شہید ہوئے )شروع ہوئی ٬اور سن 329 ہجری کو ختم ہوئی ٬یعنی غیبت صغری کا دوران 69 سال کا تھا .اور غبیت صغری میں امام ؑ کا شیعوں کے ساتھ کلی طور پر ارتباط ختم نہیں ہوا تھا ٬بلکہ شیعیان خاص کا امام زمانؑ کے ساتھ ارتباط تھا.یعنی اس زمانے میں افراد خاص جو (نایب خاص )امام تھے وہ امام ؑ کے ساتھ ارتباط میں رہتے تھے ٬اور شیعیان انہی کے وسیلہ سے مسائل اور مشکلات دینی کو امام ؑ کی خدمت میں پہچاتے تھے ٬اور انہی کے ذریعے جواب لیتےتھے.

 

تفضیل

 

امام زمانہ ؑ اپنے والد کے پاس

 

امام زمانہ ؑ پانچ سال تک سامراء میں اپنے والد بزرگوار کے ساتھ رہے جب آپ ؑ کی عمر پانچ سال کی ہوئی تو ظالم حکمران عباسی کے ذریعے امام حسن عسکری ؑ کو زہر دی گئی .جب امام ؑ کی یہ حالت تھی اس وقت امام زمانہ ؑ اپنے والد محترم کی بستر بیماری پر تھے .لہذاامام حسن عسکری ؑ ...؟...کو شہید ہوئے .

 

جعفر اور اس کا انحراف ہونا

 

جعفر یہ اما م ھادی ؑ کا بیٹا ٬اور امام حسن عسکری ؑ کا بھائی تھا .مگر بدبختانہ یہ اپنے جد کے راستہ سے ہت گیا اور ہو اپرستی اور دنیا پرستی میں پڑھ گیا .اب کوئی سوال کرے کیوں امام کا بیٹا اور امام کا بھائی غلط راستہ پر چل پڑا ؟

 

جس طرح نوح نبی کا بیٹا انحراف راستہ پر تھا جس کی طرف خدا نے قرآن میں ارشاد فرمایا (یا نوح !انہ لیس من اھلک إنہ لیس عمل غیر صالح ).[30] اے نوح !یہ تمھارے خاندان مین سے نہیں ہے اس کا عمل ناشایستہ ہے .

 

ایسی طرح حضرت یعقوب ؑ کے بیٹے جنھوں نے یوسف نبی ؑکو قتل کرنے کی کوشش کی .

 

ایسی طرح حضرت ھادی ؑ نے اپنے بیٹے کی پرورش میں کوئی کوتاہی نہیں کی ٬ان کے گمراہ راستے کا اختیار کرنا ان کے دوستوں کی وجہ سے تھا.

 

امام حسن عسکری ؑنے اپنی شہادت سے پندرہ دن پہلے اپنے تمام دوستوں اور حبداروں کو خط لکھے اور ایک دن امام عسکری ؑ نے اپنے گھر کے خادم کو بلایا جس کا نام (ابو الادیان )تھا ااس سے امام ؑ نے فرمایا:

 

(امض بھا الی المدائن ٬فانک ستغیب خمسۃ عشر یو ما و تد خل الی سر من رأی یوم الخامس وعشر و تسع الوعیۃ فی داریو تجدنی علی المغتسل )

 

امام عسکری ؑ نے اپنے خادم سے کہا :کہ اس خط کو مدائن میں لے جاؤ ٬تیرے اس سفر میں پندرہ دن لگ جائیں گئیں ٬اور جب تو سامراء واپس آئے گا تو تجھے میرے گھر سے رونے کی صدا آئی گئی اور تو میرے جنازہ کو دیکھے گا .ابوالادیان نے روتے ہوئے عرض کی :اے مولا اگر ایسا ہے تو پھر آپ کے بعد امام کون ہو گا ؟اس امام کی معرفی کروا دیں .امام ؑ نے فرمایا :تو اپنے کام کو انجام دے٬ میرے بعد جس نے بھی تجھ سے اس خط کے بارے میں جواب مانگا وہ تیرا امام ہو گا.

 

میں نے امام ؑسے عرض کی میرے مولا لئے مزید نشانی بیان فرمائیں .امام عسکری ؑ نے فرما یا :جو میر اجنازہ پڑھائیں گا وہ تمھارا باروہ امام ؑ ہو گا .میں نے مولا سے عرض کی میرے مولا:مزید نشانی بیان فرمائیں .امام ؑنے فرمایا :یاد رکھنا جو بھی تم سے (ھمیان ) یا بستہ خاص مانگے وہ میرا جانشین اور تمھارا امام ہو گا .

 

پس میں نے امام عسکری ؑ کا خط لیا اور مدائن کی طرف چلا گیا پس میں نے امام ؑ کے خط کو معتبر شیعوں کو دیا اور ان خطوں کا جواب لیا اور جلدی واپس سامراء آیا پس میں پندروی دن سامراء پہنچا تو جس طرح اما م ؑ نے فرمایا تھا :امام ؑ کے گھر سے رونے کی صدا ئیں آرہیں تھیں .پس جب میں امام ؑ کے گھر پہنچا تو دیکھا کہ امام ؑ کے پیکر پاک اور ملکوتی کو غسل کے لئے امادہ کر رہیں تھے .

 

اور امام عسکری ؑ کا بھائی جعفر دروازہ پر کھڑا تھا ٬اور بہت سے لوگ اس کے ارد گرد جمع تھے ٬ان میں کچھ لوگ جعفر کو امام کی تسلیت کر رہے تھے ٬اور کچھ لوگ ان کو امامت اور خلافت کے لئے مبارک باد دے رہے تھے .

 

ابوالادیان کہتا ہے کہ میں دل میں کہا کہ اگر یہ نائب امام ہے تو پھر امامت اور خلافت کا کوئی مقام لوگوں میں نہیں رہے گا .کیوکہ میں اس جعفر کو اچھی طرح جانتا ہوں کہ اس کے کام اچھے نہیں ہیں اور اس کا رابطہ عباسی خلیفہ کے ساتھ بہت اچھا ہے .پس میں بھی جعفر کے پا س گیا اور اس کو امام ؑ کی تسلیت عرض کی٬ابوالادیان کہتا ہے کہ مجھے امام ؑ کی باتیں یاد تھی .میں کچھ دیر جعفر کے پاس کھڑا رہا مگر اس نے نہ کوئی چیز مانگی اور نہ ہی کچھ سفر کے بارے میں پوچھا .

 

پس اس وقت ایک غلام بنام (عقید)اس نے آواز دی :اے جعفر امامؑ کا جنازہ تیار ہے نماز جنازہ پڑھائیں .پس اس وقت جعفر اور دوسرے بہت سے شیعہ امام عسکری ؑ کے صحن میں داخل ہوئے کہ جعفر نماز جنازہ پڑھئے٬پس جعفر تابوت امام ؑ کے پاس آیا اور نماز جنازہ کو شروع ہی کرنے والا تھا.

 

پہلی نشانی

 

کہ اچانک ایک بچہ جو انتہائی خوبصورت تھا جس کے چہرہ پر نقاب تھا ٬وہ بچہ گھر کے اندر سے بڑی شجاعت اور بہادری کے ساتھ نکلا اور جعفرکی چادر میں ہاتھ ڈال کر کہا :تأخر یا عم!فانا أحق بالصلاۃ علی ابی :اے چچا پیچھو ہٹھ جائو !میں اپنے والد محترم کے پیکر پاک پر جنازہ پڑھائو گا .کیوں کہ امام ؑ کے جنازہ کو امام ہی پڑھا سکتا ہے .

 

ابوالادیان کہتا ہے اس وقت جعفر کے چہرے کا رنگ اڑ گیا اور وہ پیچھے آگیا !پس اس بچہ نے امام حسن عسکری ؑ کے جنازہ پر نماز پڑھائی اور اپنے والد محترم کے تابوت کو اپنے جد بزرگ امام ھادی ؑ کے ساتھ خاک میں سپرد کیا .ابوالادیان کہتا ہے پس مجھے اپنے اما م عسکری ؑ کے بتائے ہوئے فرمان سے پہلی نشانی مل گئی اور مین بہت خوش ہوا.

 

دوسری نشانی

 

اور اس کے بعد اس بچہ نے میری طرف دیکھا اور فرمایا:اے ابوالادیان میرے بابا کے شیعوں کے جواب مجھے دو .پس اس وقت میں خدا کا شکر ادا کیا کہ میرے امام کے بتائی نشانیوں میں سے دونشانیاں مجھے مل چکی ہیں .

 

نوٹ:

 

اس کے بعد امام زمانہ ؑ غیبت صغریٰ میں چلے گئے ٬اور اس کے بعدامام زمانہ ؑ اپنے خاص شیعوں کو ملتے تھے .

 

تیسری نشانی

 

نماز جنازہ کے بعدکچھ لوگ جعفر کے پاس آئے٬اور اس سے کہا کہ یہ بچہ کون ہے تو اس وقت جعفر نے کہا :خدا کی قسم میں اس بچہ کو نہیں جانتا ٬اور نہ ہی اس سے پہلے میں نے اس کو دیکھا ہے .ابوالادیان کہتا ہے :کہ ایسی دوران ایک کافلہ قم سے آیا ٬اور انہوں نےامام حسن عسکری ؑ کا پوچھا :تو لوگوں نے بتایا کہ امام ؑ کو شہید کیا گیا ہے .تو انہوں نے پوچھا کہ ان کے بعد امام کون ہے ؟بعض لوگوں نے کہا کہ جعفر امام ہے .کافلے کا سالاربہت ہوشمند انسان تھا .اس نے جعفر کو امام ؑ کی شہدات کی وجہ سے تسلیت عرض کی اور امامت و ولایت کی مبارک باد دی ٬اور اس نے کہا عالی جناب ہم لوگ ایران سے آہیں .ہمارے پاس کچھ مال اور خط ہیں.لہذا ہماری گذارش ہے کہ پیسوں کی مقدا راور خط بھیجنے والوں کا نام بیان فرمائیں .اس وقت جعفر نے کہا کیا تم لوگ چاہتے ہو کہ میں تم کو غیب کی خبر دوں ؟

 

بس ایسی وقت امام مھدی ؑ کا ایک خدمت گزار گھر سے باہر آیا اور اس نے کاروان والوں کو خطاب کر کے کہا :اور کہا کہ میں تمہارے آخری امام کی طرف سے آیا ہو .تمہارے پاس فلاں فلاں شخص کا خط ہے اور اس نے تمام خط لکھنے والوں کے نام بتائے .اور قم والوں کے تمام سوالات کے جوابات بھی دیے ٬اور کہا (ھمیان )میں ایک ہزار دینار ہے .اور مزید کہا کہ اس میں دس دینار سکہ تقلبی کے ہیں .پس اس وقت سارا کافلے والے بہت خوش ہوئے ٬اور سارا مال اور خط اس شخص کو دے دیے اور کہ اجس نے بھی تمھیں بھیجا ہے ہو ہی ہمارا آخری امام ؑ ہے .ابوالادیان کہتا ہے اس طرح میں امام عسکری ؑ کی بتاہی ہوہی تینوں نشانیاں بھی دیکھ لیں .[31]

 

1۔امیرالمومنین حضرت علی ؑفرماتے ہیں :کہ خد انے امامت کو قیامت تک کے لئےنسل حسین ؑ میں قرار دیاہے اور ہم میں سے قائم کے لئے دو غیبتیں ہیں ایک دوسری سے طویل ہے اور اس کی امامت پر وہی ثابت رہے گا جس کا یقین قوی اور معرفت صحیح ہو گی .[32]

 

2۔اسحق بن عمار الصیرفی سے روایت ہے ٬انہوں نے کہا کہ میں نے ابو عبداللہ جعفر بن محمد ؑ سے سنا کہ وہ فرماتے ہیں :قائم کی دو غیبتیں ہیں ایک کبریٰ دوسری صغری ٰ ایک میں آپ کی قیام گاہ کا علم آپ کے مخصوص شیعوں کو ہو گا اور دوسری میں آپ کی قیام گاہ کا علم آپ کے مخصوص موالی کو ہو گا.[33]

 

3۔زرارہ کہتا ہے کہ میں ابو عبداللہ ؑ سے سنا وہ فرمارہے تھے :کہ قائم کےلئے دو غیبتیں ہیں ٬ ایک میں ان سر رابطہ رہےگا اور دوسرہ میں میں ان سے رابطہ نہیں رہے گا مگر وہ موسم حج میں آہیں گے لوگون کو دیکھیں گے مگر لوگ ان کو نہیں دیکھ سکیں گے .[34]

 

نواب خاص

 

1۔ابو عمر و عثمان بن سعید عمری

 

2۔ابو جعفر محمد بن عثمان بن سعید عمری

 

3۔ابوقاسم حسین بن روح نوبختی

 

4۔ابوالحسن علی بن محمد سمری

 

البتہ امام زمانہ ؑ کے دوسرے اصحاب بھی دوسرے علاقوں میں مثلا:بغداد ٬کوفہ ٬ اھواز٬ ھمدان ٬قم ٬ری ٬میں موجود تھے مگر یہ باقی اصحاب بھی انہی چہار نواب خاص کے ذریعے پیغام پہچاتے تھے.

 

1۔ ابو عمر و عثمان بن سعید عمری

 

عثمان بن سعید یہ قبیلہ بنی اسد میں سےتھا.ان کا کاربار گھی کا تھا٬یہ کاروبا ر سیاست کی وجہ سے تھا ٬کیونکہ یہ گھی کے برتن میں شیعوں کے خط لا کر امام مھدی ؑکو دیتے تھے .اور ان کا تمام شیعوں میں احترام تھا اور لوگ ان پر اعتماد کرتے تھے .عثمان بن سعید امام ھادی ؑ اور امام حسن عسکری ؑ کا بھی خاص اصحاب میں سے تھا .احمد بن اسحاق جو بزرگ شیعیوں میں سے تھا وہ کہتا ہے کہ ایک دن میں امام ھادی ؑ کے پاس آیا اور عرض کی میرے مولا بعض اوقات میں کسی مجبوری کی وجہ سے آپ کی خدمت میں نہیں آسکتا اور بعض اوقات جب یہاں آتا ہوں تو آپ تشریف نہیں فرماتے ٬ تو آپ ؑ کی ٖغیرموجودگی میں کس کے فرمان کی اطاعت کروں؟اس وقت امام ھادی ؑ نے عثمان بن سعید کی طرف اشارہ کر کے فرمایا :یہ امین اور میر اقابل اعتماد اصحاب ہے ٬یہ تم سے جو کچھ کہیے گاوہ میری طرف سے کہے گا اور جو کچھ تم تک پہنچائے گا میری طرف سے ہو گا .

 

احمد بن اسحاق کہتا ہے کہ امام ھادی ؑکی شہادت کے بعدایک دن میں امام حسن عسکری ؑ کے پاس آیااوریہی سوال امام ؑ سے کیا ٬تو امام ؑ نے بھی مجھے بلکل وہی جواب دیا جو ان کے والدمحترم نے دیا تھا.[35]

 

ایک مرتبہ چالیس آدمی امام حسن عسکری ؑکے پاس آئے اور پوچھا کہ آپ کے بعد امام کون ہے ؟اتنے میں ایک کوبصورت بچہ جو چاند کے ٹکرے کی مانند اورامام حسن عسکری ؑ سے بہت مشابہ تھا امام ؑ نے فرمایا:یہی میرے بعد تمہارا امام اور میرا جانشین ہوگا ٬اس ک اطاعت کرنا میرے بعد پراکندہ مت ہونا ورنہ تمہارا دین برباد ہو جائے گاسنو تم لوگ آج کے بعد اس کو نہ دیکھ سکو گئے جب تک ان کی غیبت کا زمانہ پورا نہ ہو جائے گالذا تم لوگ عثمان بن سعید کی بات کو قبول کرنا کیونکہ یہی تمہارے اور تمہارے امام ؑ کے درمیان رابطہ ہو گا.[36]

 

ایک دن امام حسن عسکری ؑ کے پاس یمن کے شیعہ موجود تھے اور باقی لوگ بھی جمع تھے ٬تو امام ؑ نے تمام لوگوں کو گواہ بنا کر فرمایا :اے میرے شیعوں گواہ رہنا یہ عثمان بن سعید میراوکیل ہے اور اس کا بیٹا میرے بیٹے مھدی کا وکیل بنے گا.اس دن کے بعد شیعہ کے نزدیک عثمان بن سعید کا احرام بڑھ گیا تھا .[37]

 

بعض روایات میں ہے کہ عثمان بن سعید نےامام حسن عسکری ؑ کی مراسم غسل و کفن اور دفن میں بھی شریک تھا ٬لیکن یہ سب کا م مستقیما امام مھدی ؑ نے خود انجام دیئے ٬کیوں کہ امام ؑ کو صرف امام ہئ غسل و کفن دے سکتا ہے .امام حسن عسکری ؑ کی شہادت کے بعد عثمان بن سعید امام مھدی ؑکا وکیل بن گیا پس اس لہاظ سے امام یہ مھدیؑ کے پہلے سفیر ہیں جو امام مھدی ؑ کےشیعوں کے خط اور پیغام ا مام تک پہنچاتے تھے .پس عثمان بن سعید کتنی بڑی شخصیت تھی جھنیں تین اماموں کی خدمت کا موقع ملا اور پھر خدمت بھی ایسی کی کہ تینوں اماموں نے فرمایا کہ یہ ہمارے قابل اعتماد اصحاب ہے اور عثمان بن سعید کی زندگی کے آخری دنوں میں امام مھدی ؑ نے فرمایا:کہ اے عثمان اپنے بیٹے "محمد"کو اپنی جگہ پر منتخب کرو تاکہ وہ تمھارے کا م کو انجام دے ٬اور میرا نائب خاص بن جائے .

 

عثمان بن سعید کی تاریخ وفات روشن نہیں بعض مورخین کہتےن ہیں کہ ان کی وفات سن 260 سے لے کر 270 کے درمیان ہوئی .ان کی قبر بغداد کے مغربی حصےشارع المیدان میں ہےاور آج بھی ان کی قبر زیارت گاہ ہے .

 

2۔محمد بن عثمان بن سعید عمری

 

یہ امام مھدی ؑ کےدوسرے نائب خاص تھے .ان کا نام محمد تھا ٬کنیت ابو جعفر ٬لقب عمری ٬اور زیات تھا .ان کے افتخار کےلئے بس یہی کافی ہے امام زمان ؑ نے ان کو اپنا وکیل خود انتخاب کیا تھا.

 

اور امام حسن عسکری ؑ نے بھی فرمایا:کہ عثمان اور اس کا بیٹا محمد یہ دونوں ہمارے قابل اعتماد اصحاب میں سے ہیں .

 

اور دوسری روایت میں ہے ؛امام ؑ نے فرمایا :اے عثمان تیرابیٹا محمد میرے مھدی ؑ کا وکیل ہو گا .

 

جناب محمد بن عثمان اپنے والد کی طرح وکالت امام مھدی ؑکو صحیح طریقہ سے انجام دیتے تھے چاہے امام کے ماننے والے عراق سے آہیں ہو ٬یا قم سے آہیں ہو یا دوسروں علاقوں سے تشریف لاہیں ان کے پیغامات کوامام ؑ تک پہنچاتے تھے اور ان کو ان کے جوابات دیتے تھے ٬اور مال امام کو جس طرح امام ؑ حکم فرماتے تھے اسی جگہ تک پہنچاتے تھے چاہے جتنی ہی تکلیفیں کیوں نہ آہیں.[38]

 

بعض افراد محمد بن عثمان کے پاس آئے تو دیکھا ان کے سامنے تختہ پڑا ہو اہےاور ایک نقاش جس کے کنارے پر قرآن کی آیات اورائمہ کے اسماء تحریر ہیں .راوی نے پوچھا کہ یہ کیا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ میری قبر ہے اور میں روزانہ اس میںایک جز قرآن پڑھتا ہوں جب فلاں سال ٬فلاں مہینہ ٬فلاں دن ہو گا تو میرا انتقال ہو گا آپ نے جیسا کہاتھا ویسا ہی ہوا تھا آپ سن 30 ھ آخرجمادی الاول میں اس دنیا سے رخصت ہوئے ٬اوربغداد میں اپنے باپ کے ساتھ دفن ہوئے .[39]

 

3۔ ابوقاسم حسین بن روح نوبختی

 

ان کا نام حسین بن روح ٬کنیت ابو القاسم ٬اور لقب نوبختی تھا.ان کی شیعوں کے نزدیک بہت عزت ٬اور بلند مقام تھا ٬ امام عصر ؑ نے جب محمد بن عثمان کی زندگی کے آخری دن تھے ٬ تو امام ؑ نے محمد سے فرمایا:کہ اپنی زندگی میں ہی حسین بن روح کی لوگوں کے درمیان معرفی کروا دو ٬پس اسی وجہ سے محمد بن عثمان نے شیعوں کو جمع کیا اور علان کیا کہ اگر میں دنیا سے چلاگیا تو یہ حسین بن روح میراجانشین ہوگا کیوں کہ مجھےحکم ملا ہے کہ تمھیں اس کے معرفی کرواوں٬ اور تم اپنی زندگی میں اس کی طرف رجوع کرنا اور اس پر اعتماد کرنا .[40] ان کا بھی پہلے نائبوںکی طرح شیعوں میں بہت مقام تھا اوریہ بھی پہلے نائبوں کی طرح امام ؑ اور خاص شیعوں کے درمیان رابطہ تھے ٬لذا مختلف علاقوں میں شیعہ زندگی گزارتے تھےاور یہ تمام علاقوں میں امام ؑ کی دستورات اور ان کی تعلیمات شیعوں تک پہچاتے تھے .اور یہ پہلے نائب تھے جن کااھل سنت بھی احترام اور ن پر اعتماد کرتے تھے انہوں نے 21 سال امام مھدی ؑ کی خدمت کی اور سن 326 ہجری میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے .

 

4۔علی بن محمد

 

ان کا نام علی بن محمد٬کنیت ابوالحسن ٬اور لقب سمری تھا . امام عصر ؑ نے جب حسین بن روح کی زندگی کے آخری دن تھے ٬ تو امام ؑ نےحسین بن روح سے فرمایا:کہ اپنی زندگی میں ہی علی بن محمدکی لوگوں کے درمیان معرفی کروا دو ٬پس اسی وجہ سے حسین بن روح نے شیعوں کو جمع کیا اور علان کیا کہ اگر میں دنیا سے چلاگیا تو یہ علی بن محمد میراجانشین ہوگا کیوں کہ مجھےحکم ملا ہے کہ تمھیں اس کے معرفی کرواوں٬ اور تم اپنی زندگی میں اس کی طرف رجوع کرنا اور اس پر اعتماد کرنا. اوریہ بھی پہلے نائبوں کی طرح امام ؑ اور خاص شیعوں کے درمیان رابطہ تھے ٬لذا مختلف علاقوں میں شیعہ زندگی گزارتے تھےاور یہ تمام علاقوں میں امام ؑ کی دستورات اور ان کی تعلیمات شیعوں تک پہچاتے تھے .اور یہ آخری نائب سن 329 ہجری میں اس دنیا سے رخصت کر گئے پس ان کی وفات کے ساتھ ہی امام زمانہؑ کی غیبت صغریٰ ختم ہو گئی اور اسی دن سے غیبت طولانی کا خورشید اس جہان میں طلوع ہو گیا اور آج تک غیبت طولانی جاری ہے .

 

علی بن محمد کی رحلت سے چھ دن پہلے لوگ ان کے گھر میں گئے جہاں سے ان کو امام زمانہ ؑ کے ہاتھ سے لکھا ہوا ایک خط ملا جس میں یہ تحریر تھا!

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

                 اےعلی بن محمد سمری !تیری جدائی میں خداوند تیرے دینی بھائیوں ک وصبر عطا کرے ٬تم چھ دونوں کے بعد اس دنیا سے رخصت ہو جائو گئے .تم اپنے کام کو تمام کرو اور اپنے بعد کسی کی جانشینی کا علان مت کرنا کیوں کہ زمانہ غیبت تمام ہوچکا ہے اب اس کے بعد میں خداوند متعال کی اجازت کے بغیر ظہور نہیں کرون گا٬میرا ظہور ایک طولانی مدت کے بعدجب لوگوں کے دل قساوت سے پر ہوجائے گئے دنیا ظلم سے پر ہو جائے گئی اس وقت میرا ظہور ہو گا .[41]

 

علت غیبت صغری

 

مہم ترین سبب غیبت صغری کا یہ تھا کہ شیعیان غیبت کبریٰ کے لئے تیار ہو جائے .کیوں کہ اس غیبت میں امام زمانؑ کا رابطہ بطور کلی ختم نہیں ہوا تھا ٬مگر اس غیبت میں ہر انسان بھی امام سے نہیں مل سکتا تھا یعنی کافی حد تک شیعوں کے ساتھ رابطہ ختم تھا اور اس زمانے میں شیعوں کا وظیفہ بن گیا تھا کہ امام ؑ کے نائب خاص کے ساتھ رابطہ رکھیں ٬ اگر غیبت کبری اچانک ہو جاتی ٬تو مکمن تھا کہ شیعیان اس غیبت کو قبول نہ کرتے ٬لیکن غیبت صغری ٰ میں شیعیوں کے لئے زمینہ سازی ہو چکی تھی .جس کی وجہ سے غیبت کبریٰ بعد میں انجام ہوئی .

 

عبداللہ بن الفضل ہاشمی سےروایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے امام جعفر صادق ؑ سے سنا کہ وہ فرمارہے تھے : کہ صاحب الامر کے لئے غیبت ناگزیر ہے اس میں ہر باطل پرست شک کریں گا . میں عرض کی:ایسا کیوں ہو گا ؟فرمایا:اس کا سبب بیان کرنے کی ہمیں اجازت نہیں ہے .میں نے عرض کی ان کی غیبت کا فلسفہ کیا ہے ؟فرمایا :ان سے پہلے جو خدا کی حجتیں گذری ہیں ان کی غیبت کافلسفہ بیان ہوا ہے . لیکن اس غیبت میں کیا حکمت ہے ان کے ظہور کے بعد ہی منکشف ہو گا .جیسا کہ جناب خضر کے کشتی میں سوراخ ٬لڑکے کو قتل اور دیوار کو سیدھا کر                                                                                           نے کی حکمت کا علم موسیٰ کو اس وقت ہوا جب وہ ایک دوسرے سےجدا ہوئے .فضل کے فرزند ٬ یہ امر خدا ہے اور خدا کے رازوں میں سے ایک راز ہے ٬اورخداوند متعال بڑی حکمت اور قدرت والا ہے پس اس کت تمام افعال واقوال مین حکمت ہے[42]

 

غیبت صغریٰ میں آپ ؑ کے معجزات

 

1:اسحاق بن یعقوب روایت کرتے ہیں کہ میں نے محمد بن عثمان سے سنا کہ جو کہتے ہیں میں ایک عراقی آدمی کے ساتھ تھا اس کے پاس غریم ؑ کامال تھا (حدیثوں میں غریم کا اطلاق امام زمانہؑ کے لئے ہوتا ہے یہ امام ؑ کا ایک لقب ہے )جب اس نے وہ مال آپ ؑ کو عطا کیاتو امام ؑ نے اس مال واپس کر دیا گیا اور کہا گیا کہ اس سے اپنے چچا زاد ابھائی کا مال نکال دو ٬اور وہ چارسو درہم ہیں .راوی کہتا ہے کہ وہ ہکا بکا ہو گیا اور حیرت زدہ رہ گیا کیوں کہ اس کے پاس اس کے چچا زاد بھائی کی جائیداد تھی .اس نے اس کا کچھ حق دے دیا تھا اور کچھ حق رہ گیا تھا .لذاجب اس نے مال کا حساب کیا تو معلوم ہوا کہ اس کے پاس اس کے چچازاد بھائیکے چاسودرہم ہیں ٬جیسا کہ امام ؑ نے فرمایا تھا .

 

2:ابوالعباس جن کا لقب ستارہ ہے ٬ ان کابیان ہے کہ میں اردبیل سے واپس دینور آیا ٬میں حج کرنا چاہتا تھا .یہ واقعہ ابو محمد حسن کی وفات کے ایک یا دوسال کے بعد کا ہے ٬اس زمانے میں لوگ بہت پرشان تھے دینوار والے مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے شہعی میرے پاس جمع ہو گئے اور کہنے لگے ہمارے پاس سولہ ہزار دینار ہیں اس کو آپ کے سپرد کرنا چاہتے ہیں .جو آپ کی نظر میں حق دار ہو اس کے سپرد کر دینا ٬راوی کہتاہے میں نے ان سے کہا کہ یہ حیرت اور تشویش کا زمانہ ہے ابھی مجھے کسی کے ذریعہ کسی دروازہ کی تحیق نہیں ہو سکی ٬انہوں نے کہا اس مال کو لے جانے کے لئے ہماری نظر آپ پر ہی ہے کیو نکہ ہماری نظر میں آپ ثقہ اور بزرگ شیعہ ہیں ٬یہ رقم لے جائیں اور کسی کو دلیل کے بغیر نہ دینا پس انہوں نے اپنی اپنی تھیلوں میں ڈال کر اور اس پر ہر مالک کا نام لکھ کر مجھے دی گئی میں اس مال کو لےکر روانہ ہوا اور شہر قرمیسین پہنچا .یہاں پر احمد بن الحسن مقیم تھے میں ان کی خدمت میں حاضر ہو ا وہ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور انہوں نے بھی ایک تھیلی میں ہزار دینار اور ایک کپڑوں کا بنڈل دیا جس کے بارے میں مجھے نہیں معلوم کہ اس میں کیا ہے .اور مجھ سے کہا کہ اس کو بھی لے جائیں اور امامت کی دلیل دیکھے بغیر کسی نہ دیں ٬ میں نے ان سے کپڑے اور مال لیا اور اپنی راہ لی جب میں بغداد پہنچا تو میرے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا کہ میں تحقیق کروں کہ امام زمانہ ؑ کا نائب کون ہے ؟تحقیق کے دوران مجھے بتایا گیا کہ یہاں ایک شخص باقطانی کے نام سے مشہور ہے وہ نائب ہونے کا دعوی کرتا ہے دوسرا اسحاق احمر کے نام سے مشہور ہے وہ بھی نائب ہونے کا دعوی کرتا ہے اور تیسراابو جعفرالعمری ہے انہوں نے بھی نائب امام زمانہ ؑ ہونے کا دعوی کیا ہے .راوی کہتا ہے کہ میں پہلے باقطانی کےپا س گیا .دیکھا کہ وہ ایک سن رسیدہ اور خوبصورت آدمی ہیں .بظاہر با مروت ہے عربی فرش قالین اور بہت خدمتگار ہیں اور س کے پاس لوگوں کی بھیڑبھی ہے راوی کہتا ہے کہ میں ان کے پاس گیا انکو سلام کیا ٬ا س نے مجھے خوش آمد کہا قریب بٹھایا :خوش خلقی اور خندہ پیشانی سے پیش آیا ٬میں کافی دیر تک اس کے پاس بیٹھا رہا یہاں تک کہ اکثر لوگ چلے گئے تو اس نے مجھ سے پوچھا "تمہاری کیا حاجت ہے؟میں نے بتایا کہ دینور کا رہنے والا ہو ں ٬ میرے پاس کچھ مال ہے ٬میں اس کو سپرد کرنا چاہتا ہوں ٬ اس نے کہا لے آؤ راوی کہتا ہے میں نے اس سے کہا :مجھے دلیل چاہئے.اس نے کہاتم کل میرےپاس آنا٬میں دوسرے دن اس کے پاس گی امگر وہ مجھے دلیل دینے سےقاصر رہا ٬میں تیسرے دن بھی اس کے پاس گیا مگر وہ دلیل نہ دے سکا راوی کہتا پھر میں اسحق احمرکے پاس گیا .دیکھا وہ بہت نفاست پسند جوان ہے ٬اس کس مکان باقطانی سے بڑا ہے اس کا لباس فرش اور مروت باقطانی سے بہتر ہے اس کے خدمتگذار بھی اس سے زیادہ ہیں .اس ے پاس لوگوں کا ہجوم بھی زیادہ ہے .میں اس کے قریب گیا سلام کیا اس نے مجھے خوش آمد ید کہامجھے اپنے پاس بٹھایا .میں اس کے پاس بیٹھا رہا یہاں تک کہ سب لوگ چلے گئے ٬تو اس نے مجھ سے پوچھا :تمہاری کیا حاجت ہے؟میں نے بتایا کہ دینور کا رہنے والا ہو ں ٬ میرے پاس کچھ مال ہے ٬میں اس کو سپرد کرنا چاہتا ہوں ٬ اس نے کہا لے آؤ راوی کہتا ہے میں نے اس سے کہا :مجھے دلیل چاہئے.اس نے کہاتم کل میرےپاس آنا٬میں دوسرے دن اس کے پاس گی امگر وہ مجھے دلیل دینے سےقاصر رہا ٬میں تیسرے دن بھی اس کے پاس گیا مگر وہ دلیل نہ دے سکا٬پھر میں ابو جعفر العمریکے پا س گیاوہ ایک سن دراز اور متواضع شخص ہے ایک چھوٹا سا گھر ہے جس میں وہ نمدہ پر بیٹھے ہیں ٬ نہ وہاں فرش وقالین ہیں نہ غلام اور نہ ہی آن بان ہے اور نہ ہی لوگوں کا مجمع ہے میں نے ان کو سلا م کیا ٬ انہوں نے سلام کا جواب دیا اپنے قریب بلایا میرا حال پوچھا :میں نے بتایا کہ میں ایک پہاڑی علاقے سے آیا ہوں ٬کچھ مال لایا ہو ٬ تو انہوں نے کہا کہ اگر تم چاہتے ہوں کہ یہ مال میں ان کی خدمت میں پہنچ جائے جن کو تم دینا چاہتے ہو تو تم سامراء چلے جاؤاور وہاں ابن رضا کا گھرمعلوم کر لینا اور فلاں فلاں وکیل کے بارے میں دریافت کرنا ابن رضا تمہاری حاجت کو پوری کر دے گا .میں نے وہاں سے نکل کر سامراءکی راہ لی اور ابن رضا کے گھر پہنچ کر وکیل کے بارے میں معلوم کیا تو دربان نے بتایا کہ وہ گھر کر اندر کسی کام میں مشغول ہیں بس آنےہی والے ہیں ہیں .لہذا میں دروازہ پر بیٹھ کر ان کا انتظار کرنے لگاوہ گھنٹہ بھر کے بعدمیں آئیں میں نے آٹھ کران کا استقبال کیا اور سلام کیا انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور اپنے کمرہ میں لے گئے ٬میرا حال پوچھااور یہ کہ کس لئے آئے ہو میں نے کہامیں ایک پہاڑی علاقے سےآیا ہو میر ے پاس کچھ مال ہے اسکو دلیل امامت دیکھ کر دو گا راوی کہتا ہے :انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے .اس کےبعد انہوں نے میرے سامنے کھانا پیش کی ااور کہا کھانا کھاؤ٬ اور آرام کرلو اور ایک گھنٹہ کے بعد نمازاولی ٰ کا وقت ہو گا پھر تم جوچاہتے ہو تمھارے سامنے پیش کر دوں گا ٬راوی کہتا ہے کہ میں کھانا کھایا٬سویا اور پھر نماز پڑھی یہاں تک کہ رات کا یک چوتھائی حصہ گذر گیا کہ وہ میرے پاس آئےاور ایک تحریر لائے اس میں مرقوم تھا :

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم  

 

اے احمد بن محمد دینوری ٬ تم سولہ ہزار دنیار لائے ہو اور اتنی تھیلیاں تمھارے پاس ہیں ٬اس میں فلاں فلاں کی تھیلی ہے اوران میں اتنے دینا ہیں اور فلاں بن فلاں مراغی کی تھیلی میں سولہ دینار ہیں .راوی کہتا ہے کہ شیطان نے مجھے وسوسہ میں ڈال دیا٬کہ اس سلسلہ میں آپ مجھ سے بھی زیادہ جانتے ہیں٬٬لہذا میں اسی طرح پر تھیلی پر اس کے بھیجنے والا کانام پڑھ کر ملاتا رہا یہاں تک کہ آخری تھیلی کی نوبت آئی اس کے بعد امام زمانہ ؑ کے تھریر فرمایاتھا کہ تم قرمیسین سے صراف کے بھائی احمد بن الحسن بادرانی کے پاس سے ایک تھیلی لائے ہو اس میں پزار دینار اور ایک کپڑوں کا بنڈل ہے اور کپڑوں کا رنگ ایسا ایسا ہے آپ ؑ نے ایک ایک کپڑے کا رنگ وکفیت بیان کی راوی کہتا ہے اس پر میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ ازالہ شک کے سلسلہ میں اس نے مجھ پر احسان کیا اور اس کے بعد تحریر تھا جو سامان تم لائے ہو وہ اس شخص کو دے دو جس کےلئے ابو جعفر عمری کہے ٬راوی کہتا ہے اس کے بعد میں بغداد لوٹ آیا اور ابوجعفر عمری کے پاس گیا اس آمد ورفت میں میرے تین دن صرف ہوئے ٬جب ابو جعفر عمری نے مجھے دیکھا تو کہا:تم ابھی تک نہیں گئے ؟میں نے حضور میں سامراء سے واپس لوٹ آیا ہوں ٬ راوی کہتا ہے کہ میں ابھی ابوجعفر عمری کے ساتھ گفتگو کر رہا تھا کہ ابو جعفر عمری کے پاس امام زمانہؑ رقعہ آیا اور اس میں وہی تفصیل تھی جو میرے رقعہ میں تھی .مزید اس میں تحریر تھا ٬ کہ یہ مال احمد بن جعفر قطان قمی کے حوالے کئے جاہیں .اس کے بعد ابو جعفر وعمری نے کپڑے بدلے اور مجھ سے کہا جو کچھ تمہارے پاس ہے اس کو اٹھاؤاوراحمد بن جعفر قطان قمی کے گھر چلو چنانچہ میں مال اور کپڑے احمد بن قطان قمی کے حوالے کر کے حجک کے لئے روانہ ہو گیا .اور میں جب حج سے واپس دینور پہنچا٬ تو لوگ میرے پاس جمع ہو گئے تو میں نے وہ تحریر نکالی جو میرے مولا کے وکیل نے دی تھی ٬وہ میں نے تحریر پڑھی ٬ جب اس میں زراع کی تھیلی کاذکر آیا تو وہ غش کھا کر گر پڑے ٬ اور ہم نے انہیں ہوش میں لانے کی کوشش کی جب انہیں ہوش آیا تو خدا کا سجدہ شکر کیا اور کہاکہ تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جس نے ہمیں ہدایت دی ہے اور اب ہمیں یقین ہو گیا ہے کہ زمین خدا کبھی بھی حجت خدا سے خالی نہیں رہتی ہے .خدا کی قسم یہ تھیلی جو اس زراع نے دی تھی اس کے بارے میں خدا کے علاوہ کوئی بھی نہیں جانتا تھا:میں نے ابو الحسن باددرانی سے ملاقات کی اور انہیں پورا واقعہ سنایا اور وہ تحریر بھی پڑھی :انہوں نے کہا کہ میں کبھی بھی ان کے بارے میں شک نہیں کیا اور تمھیں بھی اسکے بارے میں شک نہیں کرنا چاہے کہ خدا اپنی زمین کو کبھی بھی حجت خدا سے خالی نہیں چھوڑتا ہے .[43]    

 

 

 

 

 

[1] کمال الدین "صدوق "ص 648 :اصول کافی :ج1 !ص 332 :تاریخ چہاردہ مصوم "مجلسی ص1001

 

 

[2] کفایۃ المھتدی :ص 69 !حدیث :11

 

[3] کمال الدین و تمام النعمۃ :ص 379

 

[4] الحتجاج :ج2 !ص 296

 

[5] العبقری الحسان :ج2 !ص 226

 

[6] اصول کافی :ج1 ص 333

 

[7] العبقری الحسان :ج2 !ص 98

 

[8] بحار النوار :ج 99 !ص 216

 

[9] تاریخ موالید الائمہ و فیاتھم ،ص 45

 

[10] الھدی الکبری:ص 366

 

[11] بصائر الدراجات :ص 185

 

[12] کشف الغمہ فی معرفۃ الائمہ :ج3 !ص 270

 

[13] بصائر الدراجات :ص 279

 

[14] مجمع البحرین :ج2 !ص 448

 

[15] البیان فی اخبار صاحب الزمان :ص 145

 

[16] العبقری الحسان :ج2 !ص 114 ! العمرہ :ص 436

 

[17] العبقری الحسان :ج2 !ص 126

 

[18] سورہ فجر:ایت 1؛2

 

[19] تاویل الایت الظاہرہ :ص 767

 

[20] العبقری الحسان :ج2 !ص 130

 

[21] العبقری الحسان :ج2 !ص133

 

[22] بحارالنوار :ج 51 !ص 28 !امام مہدی از ولادت تا ظہور :ص58

 

[23] بحارالنوار :ج 51 !ص30!امام مہدی از ولادت تا ظہور :ص58

 

[24] الارشاد :ج2 !ص283

 

[25] العبقری الحسان :ج2 !ص 136

 

[26] الھدایۃ الکبری :ص 404

 

[27] البرھان فی علامات مھدی آخر زمان ،متقی ھندی :باب 3 !روایت 8

 

[28] امام مھدی از ول56 ادت تا ظھور!ص57

 

[29] بحارالنوار :ج 51 !ص30!امام مہدی از ولادت تا ظہور :ص59

 

[30] سورہ ھود :ایت :45

 

[31]امام مھدی از ولادت تا ظہور :ص 237

 

[32] ینابیع المودۃ "ص 427

 

[33] جمال منتظر :ص 393

 

[34] جمال منتظر :ص 395    

 

[35] الغیبۃ :طوسی :ص 214

 

غیبت طرسی ؛ص 86[36]

 

[37] الغبیۃ :طرسی :ص216

 

[38] امام مھدی از ولادت تاظہور :ص 275

 

غیبت طوسی :ص327[39]

 

[40] غیبت طوسی :ص227

 

[41] کمال الدین "ج2 ! ص 516 ! غیبت طوسی :ص 242 !امام مھدی از ولادت تا ظہور :ص 270

 

[42] جمال منتظر :ص 415

 

جمال منتظر:ص 595 [43]

 

 

© COPYRIGHT 2020 ALJAWAAD ORGAZNIZATION - ALL RIGHTS RESERVED
گروه نرم افزاری رسانه