بسم اللہ الرحمن الرحیم
مقدمہ :آخری زمانے میں امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کی آمد اور آپ کی عادلانہ حکومت کے قیام کا نظریہ تمام اسلامی مذاہب کے نزدیک مسلّم اور متفقہ ہے جس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں، کیونکہ قرآن مجید کی آیات بھی اس نظریہ کی تائید کرتی ہیں اور رسول خدا کی آحادیث بھی؛ البتہ جب سے رسول خدا ؐ کی زبانی حجت خدا کی غیبت کا موضوع بیان ہوا اسی وقت سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال بھی آیا کہ:''غیبت کی صورت میں امام مھدی عج کے وجود کا فائدہ کیا ہو گا؟ اور غائب امام اپنے ماننے والے یا دیگر انسانوں کی زندگی میں کس طرح کوئی نقش وکردار ادا کر سکے گا؟ نیز یہ کہ کسی شخص کا اپنے غائب امام سے فائدہ حاصل کرنا کیسے ممکن ہے ؟
پیغمبر اکرم ؐ نے جابر بن عبداللہ انصاری کے اسی قسم کے سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا: والذی بعثنی بالنبوۃ انھم یستضیؤن بنورہ وینتفعون بولایتہ فی غیبتہ کانتفاع الناس بالشمس وان جلّلھا السحاب ''اس خدا کی قسم جس نے مجھے نبوت کے ساتھ مبعوث کیا، وہ لوگ اُس (امام مھدی ؑ) کی غیبت کے دور میں اس کے نور سے ضیاء پائیں گے اور اس سے اسطرح فائدہ حاصل کریں گے جیسے لوگ بادلوں کے پیچھے چھپے ہوئے سورج سے فائدہ حاصل کرتے ہیں''([1])۔
اسی قسم کی تعبیر امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف سے خود بھی نقل ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا: أما وجہ الانتفاع بی فی غیبتی فکالانتفاع بالشمس اذا غیبتھا عن الابصار السحاب ''لیکن میری غیبت میں مجھ سے فائدہ حاصل کرنا اسی طرح ہے جیسے سورج سے اسوقت فائدہ حاصل کیا جابئے جب وہ آنکھوں سے بادلوں کے پیچھے اوجھل ہو جائے'' ([2])۔
پیغمبر اکرم ؐ کا مذکورہ فرمان اور نہایت بامعنی اور جالب تعبیر، اگرچہ صاحبان ایمان کی تسلی وتشفی اوراطمینان کیلئے کافی ہے لیکن اس کے باوجود امام مھدی ؑ کے وجود پُرنورکا عقیدہ رکھنے والے صاحبان ایمان ایک طویل عرصہ سے مخالفین کے اعتراضات کی زد میں ہیں،کیونکہ شیعوں پرامام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے حوالے سے ہونے والے اعتراضات میں سے ایک اہم اعتراض یہ ہے کہ وہ ایک طویل عرصہ سے غائب امام کی زندگی پر یقین رکھتے ہیں جبکہ تمہارا غائب امام تمہیں کیا فائدہ پہنچاتا ہے اور بھلا کسی غائب شخص سے کیا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے؟!
جیسا کہ اہل سنت کے حنبلی مذہب کے عالم ابن تیمیہ نے اپنی کتاب منھاج السُنّۃ میں شیعوں پر اعتراض کرتے ہوئے کہاہے: مھدی الرافضۃ لیس لہ عین ولا أثر ولایعرف لہ حس ولا خبر لم ینتفع بہ أحد لافی الدنیا ولافی الدین ''شیعوں کے امام مھدی عج کا کوئی نام و نشان نہیں ہے ، نہ اُسے محسوس کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اُسکی کوئی خبر ہے، نہ کوئی اُس سے دینی فائدہ حاصل کرتاہے اور نہ ہی دنیوی'' ([3])۔
اہل تشیع پر یہ اعتراض اس حد تک بڑھا کہ بعض سادہ لوح مومنین بھی اس کی زد میں آنے لگے ہیں اور عام شیعہ جوانوں کے ذہنوں میں بھی امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی غیبت کے دور میں آپؑ کے وجود مبارک کے فوائد کے حوالے سے شکوک وشبھات جنم لینے لگے ہیں۔یہاں تک کہ یہ سوال بہت عام ہو رہا ہے کہ کسی غائب امام کے عقیدہ سے امت کو کیا فائدہ ملتا ہے، بھلا وہ امام جو نہ کوئی فیصلہ کرے اور نہ کوئی فتوی دے، نہ کسی سے کوئی چیز لے اور نہ کسی کو کوئی چیز عطا کرے، نہ کوئی اسے دیکھ سکے اور نہ کوئی اس کی بات سن سکے، توایسے امام کے وجود کا کیا فائدہ؟! ۔
اس سوال کے جواب میں پیغمبر اکرم ؐ کی مذکورہ حدیث (جس میں امام مھدی ؑ کو بادلوں کے پیچھے چھپے ہوئے سورج سے تشبیہ دی گئی ہے)بھی لوگوں کیلئے قانع کنندہ دلیل ثابت نہیں ہوتی لہذا مناسب یہ ہے کہ امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے وجود کے اثرات اور لوگوں کو اُس غائب امام ؑ کے وجود سے حاصل ہونے والے فوائد پر بحث وگفتگو کی جائے تاکہ مخالفین کی زبانیں بھی بند ہو جائیں اور مومنین کو بھی اطمینانِ قلب حاصل ہو۔
چند اہم نکات:
غیبت کے دور میں وجودِامام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے فوائد کے بارے میں تفصیلی بیان سے پہلے چند نکات کو مدّنظر رکھنا ضروری ہے۔
پہلا نکتہ: وجودِ امام کے فوائد کا معلوم نہ ہونا، فوائد کے نہ ہونے پر دلالت نہیں کرتا:
امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کی غیبت کے دور میں وجودِ امام کے فوائد کا معلوم نہ ہونااس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ غائب امام کے وجود کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور اس کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہے کیونکہ عقلی قاعدہ وقانون کے مطابق [عدم الوجدان لایدلّ علی عدم الوجود] ''کسی چیز کا نہ پانا اس کے نہ ہونے پر دلالت نہیں کرتا''۔ اور علمی مسائل کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی ہے کہ کسی چیز کا علم نہ ہونے (عدم العلم) کو اُس چیز کے عدم وجود ( العلم بالعدم ) کی دلیل بنایا جائے جبکہ یہ بات واضح ہے کہ عالم تکوین وتشریع میں انسانی عقل بہت سے اہم امور کی شناخت سے عاجز ہے اورخاص طور پر مسلمانوں کیلئے بہت سے دینی مسائل(مثلاًنمازوں کی مخصوص رکعات، یا انکے کے اوقات و...) کی مصلحت درک کرنا ممکن نہیں ہے اس کے باوجود انہیں صرف اس عقیدہ کی بناء پر قبول کرنا پڑتا ہے کہ خداوند حکیم کا کوئی فعل حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔
پس جب قرآن مجید یا صحیح روایات واحادیث کے ذریعہ کوئی نظریہ یا کوئی حکم ہم تک پہنچے تو ہمارے لیے ضروری ہے کہ اسے قبول کرلیں چاہے اُس کی مصلحت ہماری سمجھ میں آئے یا نہ، جیسا کہ ہر دور میں ایک امام کے وجود اور آخری زمانے میں امام مھدی ؑ کی غیبت کے بارے میں اہل اسلام کی کتب میں متواتر روایات موجود ہیں، اس بناء پر ہر مسلمان کے لیے امام کے وجود اور آپ کی غیبت کا عقیدہ رکھنا ضروری ہے اگرچہ غیبت کی مصلحت اور عصر غیبت میں امام کے وجود کے فوائد ہمارے لیے واضح نہ ہوں۔
دوسرا نکتہ: غیبت کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ غائب نبی یا امام کوئی کام نہیں کرسکتا:
کسی بھی ہادی ورہبریاامام کی ظاہری طور پر عدم موجودگی کو دلیل بناتے ہوئے اس کے وجود کے فوائد وآثار کے بارے میں شک کرنا درحقیقت أولیاء اللہ کی صحیح معرفت نہ ہونے کا نتیجہ ہے کیونکہ اولیاء اللہ اور خدائی ہادی ورہبرجس طرح لوگوں کے درمیان اور ان کی نظروں کے سامنے رہ کر اُنہیں فوائد پہنچا سکتے ہیں اسی طرح لوگوں کی نظروں سے اوجھل اور پوشیدہ رہ کر بھی اُن کی زندگی پر اثرانداز ہو سکتے ہیں، اور اس بات کی ایک واضح دلیل قرآن مجید میں مذکور حضرت موسی ؑ اور حضرت خضر کا واقعہ ہے ([4])؛ جس سے اس بات کی طرف راہنمائی ملتی ہے کہ بسااوقات کوئی رہبر وولی عام لوگوں کی آنکھوں سے غائب ہوتا ہے لیکن غیبت میں بھی وہ اپنی قوم اور امت سے غافل نہیں ہوتا بلکہ سرّی طور پر اپنی امامت ورہبری کے فرائض سرانجام دیتا ہے جبکہ لوگ اُس سے واقف نہیں ہوتے ، جیسے حضرت خضر ؑ لوگوں کے درمیان رہ کر انہیں فوائد پہنچا رہے تھے لیکن عام لوگ انہیں نہیں پہچان رہے تھے۔
امیر المومنین حضرت علی ؑ نے اسی نکتہ کی طرف متوجہ کرنے کیلئے اپنے صحابی کمیل بن زیاد نخعی سے مخاطب ہوکر فرمایا: اللھم بلی، لاتخلو الأرض من قائم للہ بحجّۃ، اما ظاہرًا مشہورًا او غائباً مغمورًا لئلا تبطل حجج اللہ وبیناتہ''بہرحال زمین ایسے شخص (امام) سے خالی نہیں ہوتی جو خدا کی حجت قائم کرے ،چاہے وہ ظاہر اور مشہور ہو یا خائف اور پوشیدہ۔ تاکہ پروردگار کی دلیلیں اور نشانیاں مٹنے نہ پائیں'' ([5])۔
تیسرا نکتہ: امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کی غیبت کا اصل مفہوم:
امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کی غیبت کے دور میں آپؑ کے وجود کے فوائد کے بارے میں غالباً ایسے افراد کے ذہنوں میں شک وشبہ پیدا ہوتا ہے کہ جن کے نزدیک امام کی غیبت کا مفہوم واضح نہیں ہے لہذا ضروری ہے کہ امام کے وجود کے فوائد کا ذکر کرنے سے پہلے آپ کی غیبت کا مفہوم واضح کیا جائے۔
امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے غائب ہونے سے مراد ہرگز یہ نہیں ہے کہ آپؑ لوگوں سے کنارہ کش ہو کر کسی مخصوص مقام پر تشریف فرما ہیں ، نہ کہیں آتے ہیں اور نہ ہی کہیں جاتے ہیں، نہ وہ کسی سے ملتے ہیں اور نہ کوئی اُن سے مل سکتا ہے۔ بلکہ آپ کی غیبت سے مراد یہ ہے کہ آپؑ لوگوں کے درمیان موجود ہونے کے باوجود اُن کی آنکھوں سے پنہان ہیں یعنی کوئی عام انسان آپؑ کو پہچان نہیں سکتا، اسی لیے امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کی غیبت کو ''غیبت شخصیت'' کا نام دیا گیا ہے۔
یعنی غیبت کی دو قسمیں ہیں:
١۔''غیبت ِ شخص'' ٢:۔''غیبت ِ شخصیت''
''غیبت ِ شخص'' سے مراد وہی عام مفہوم ہے یعنی کوئی شخص لوگوں کی نظروں سے اس طرح غائب ہوکہ کوئی دوسرا انسان اُسے نہ دیکھ سکے؛ اور ''غیبت ِ شخصیت'' کے معنی یہ ہیں کہ غائب ہونے والا انسان لوگوں کے درمیان موجود ہو ، لوگ بھی اسے دیکھتے اور اُس سے ملاقات کرتے ہوں لیکن معاشرے کا کوئی فرد اس کی شخصیت سے واقف نہ ہو۔جس طرح حضرت موسی ؑ اور فرعون کے قصہ میں یہ بات واضح طور پر نظر آتی ہے کہ حضرت موسی ؑ ، فرعون کے قصر میں اور اُس کی آغوش میں رہے لیکن وہ آخر دم تک آپؑ کی شخصیت کا اندازہ نہ کر سکا، پس امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کی غیبت بھی ''غیبت شخصیت'' ہی ہے یعنی لوگ آپؑ کو دیکھتے بھی ہیں اور ملتے بھی ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ یہی ہمارے امام ہیں۔
اگر امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے بارے میں روایات اور واقعات پر دقتّ ِنظر سے دیکھا جائے تو آپؑ کی غیبت کا یہی مفہوم سامنے آتا ہے جیسا کہ روایت میں ہے: یری الناسَ ویعرفُھم ویَرونَہ ولا یعرفونہ''امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف لوگوں کو دیکھتے بھی ہیں اور انہیں جانتے بھی ہیں،اور لوگ بھی امام کو دیکھتے ہیں لیکن انہیں پہچانتے نہیں''([6])؛ نیزایک اور روایت میں ہے: صاحب ھذا الأمر یتردّد بینھم ویمشی فی أسواقھم ویطاأ فرشھم ولایعرفونہ حتی یأذن اللہ لہ أن یعرّفھم نفسہ ''صاحب الزمان (امام مھدیؑ) لوگوں کے درمیان آتے جاتے ہیں، بازاروں میں چلتے اور زمین پر گھومتے پھرتے ہیں لیکن لوگ انہیں نہیں پہچانتے یہاں تک کہ اللہ تعالی انہیں اجازت دے کہ وہ لوگوں کو اپنا تعارف کروائیں'' ([7])۔
اسی بنا پر احادیث میں بیان ہوا ہے کہ امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے ظہور کے بعد بہت سے لوگ یہ دعوی کریں گے ـ: انّا قد رأیناہ قبل ھذا ''ہم نے تو انہیں پہلے بھی دیکھا ہے''([8])۔
چوتھا نکتہ: ۔غائب امام کے وجود کا فائدہ نائبین کے ذریعہ بھی ملتا ہے:
غائب امام کے فوائد کے حوالے سے اس نکتہ کی طرف توجہ بھی ضروری ہے کہ امام کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ بذاتِ خود تمام ظاہری امور میں تصرف کریں بلکہ امام اپنے نائبین کے ذریعہ بھی عام لوگوں کو نفع پہنچاتے ہیں۔
ہردور اور ہر معاشرے میں یہی طریقہ چلتا آ رہا ہے کہ کسی ادارے یا مملکت کے سربراہ کی موجودگی ہی سے لوگوں کو نفع یا نقصان پہنچتا ہے چاہے وہ عام لوگوں کی نظروں کے سامنے ہو یا نہ ہو کیونکہ ہر سربراہ اپنے نمائندوں کے ذریعہ کام انجام دیتا ہے۔ پس جس طرح عام لوگوں کے لیے ضروری نہیں ہوتا کہ وہ اپنے سربراہ یا دنیاوی رہبر وپیشوا تک بلاواسطہ رسائی حاصل کریں اسی طرح ضروری نہیں ہے کہ عام لوگ بلاواسطہ امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف تک رسائی حاصل کریں۔ اسی لئے امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف نے اپنی غیبت ِ صغری ، میں عام لوگوں کے ساتھ رابطہ کیلئے اپنے نمائندے مقرر فرمائے جن کے ذریعہ سے عام لوگ امام کے ساتھ رابطہ قائم کر تے تھے۔ اسی طرح امام مھدی ؑ نے اپنی غیبت ِ کبری کے دور میں بھی عادل فقہا وعلماء کو اپنا نائب ِ عام مقرر کیا ہے اورانہیں اپنی طرف سے لوگوں پر حجت قرار دیتے ہوئے فرمایا: ھُمْ حجّتی علیکم وأنا حجّۃُ اللہ علیھم ''وہ میری طرف سے تم پر حجت ہیں اور میں خدا کی طرف سے اُن پر حجت ہوں'' ۔
پس امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کی غیبت کبری کے دور میں فقہاء اور عادل علماء ہی دین کے محافظ ، دینی احکامات بیان کرنے والے اور لوگوں کی صحیح راہنمائی کرنے والے ہیں اسی لیے امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف نے اپنی آخری توقیع میں خود کو بادلوں کے پیچھے اوجھل سورج سے تشبیہ دی ہے([9])۔ پس عصر حاضر میں امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے وجود کے بعض فوائد آپ کے عام نائبین یعنی مجتھدین کے ذریعہ بھی حاصل ہو رہے ہیں۔
وجودِ امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے فوائد:
اس میں کوئی شک نہیں کہ عام انسان امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے وجود مبارک کی وجہ سے بہت سے فوائد حاصل کرتے ہیں جن کو انقریب وضاحت کے ساتھ بیان کیا جائے گا لیکن اس بات کی طرف توجہ ضروری ہے کہ امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے وجود سے حاصل ہونے والے فوائد وبرکات کو دو بنیادی قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
١:نفسیاتی فوائد ٢: غیر نفسیاتی فوائد
وجودِ امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے نفسیاتی فوائد:
عقیدہ اور نظریہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا اثر انسان کی سیرت وکردار، اور اس کے اخلاق واحساسات پر نمایاں ہوتا ہے بلکہ انسان کا ہر عمل اُسکے عقیدہ و نظریہ کی عکاسی کرتا ہے اور اس کے نفسیاتی اثرات انسان کی زندگی پر مرتب ہوتے ہیں، پس اسی طرح زندہ وموجود امام کا نظریہ اور عقیدہ بھی انسان کی زندگی پر گہرا اثر رکھتا ہے اگرچہ وہ امام، امت کے درمیان موجود نہ ہو اور لوگ مختلف وجوہات کی بناء پر اُسے دیکھنے اور اس کی ملاقات سے قاصر ہوں، ذیل میں امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے وجود کے عقیدہ ونظریہ کے کچھ نفسیاتی فوائد بیان کئے جاتے ہیں:
١: زندہ رہبرکا عقیدہ، ملت کی بقاء وسلامتی کا سبب:
اس اختلاف سے قطع نظر کہ امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کی ولادت ہوچکی ہے یا نہیں، تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف ہی مکتب اسلام کے حقیقی داعی اور علمبردار ہیں، وہی خلافت الھیہ کے وارث اور زمین والوں کیلئے اللہ کی حجت ہیں([10])؛ لیکن عقلی قوانین اور اجتماعی تجربات کی روشنی میں یہ بات ثابت ہے کہ کسی زندہ رہبر کے وجود کا عقیدہ اُس کے مکتب کی بقاء ودوام اور نظام کی حفاظت پر گہرا اثر رکھتا ہے چاہے وہ رہبر لوگوں کی دسترس میں ہو یا کسی وجہ سے انکی دسترس سے دور ہولیکن اس کے برعکس اگر کسی قوم کو اپنے رہبر کے وجود کا یقین نہ ہو بلکہ وہ اپنے رہبر کی ولادت کے انتظار میں بیٹھی ہو تو یقینا اس عقیدہ کا نفسیاتی اثر مختلف ہو گا اور وہ قوم، رہبر کی عدم موجودگی کے نظریہ کے سبب ضلالت اورگمراہی کے سیلاب میں بہتی چلی جائے گی۔
زندہ قوموں کی تاریخ میں اس بات کی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ جب تک کسی گروہ کو اپنے لیڈر ورہبر کی زندگی کا یقین رہا اُسوقت تک وہ گروہ پائیدار ومحکم اور ثابت قدم رہا اور یہی ثابت قدمی ان کی بقاء اور کامیابی کا سبب تھی اگرچہ وہ رہبر ظاہری طور پر ان کی آنکھوں کے سامنے نہ تھا لیکن جونہی کوئی گروہ اپنے رہبر کی زندگی کے بارے میں مشکوک ہوا تو یہی شک ان کے درمیان اختلاف وافتراق کا سبب بنا اور وہ گروہ نابودی وتنزلی کی طرف جانے لگا، جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ زندہ رہبر اور اس کے وجود کا عقیدہ ہی ملّت کی بقاء کا سبب ہے اورتاریخ اسلام میں اس کا بہترین ثبوت جنگ اُحد کا تاریخی واقعہ ہے : جب مسلمان، دشمنوں کے ساتھ مقابلہ کرنے میں مشغول تھے اور انہیں تحس ونحس کررہے تھے کہ اچانک لشکر کے درمیان ایک آواز بلند ہوئی : الا قد قُتل محمّدؐ ''جان لو کہ محمدؐ قتل ہوگئے'' ؛ اور جونہی مسلمانوں نے اپنے رہبر کے قتل کی خبر سنی اور بعض نے یقین بھی کرلیا تو اس کا فوری نفسیاتی اثر یہ ہوا کہ مسلمانوں کی صفوں میں انتشار پیدا ہوگیا، کچھ نے راہ فرار اختیار کر لی، کچھ نے اپنے آپ کو دشمنوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا اور بعض مسلمانوں کے لشکر سے نکل کر دشمنوں کے ساتھ ملنے کا سوچنے لگے،لیکن جب پیغمبر اکرم ؐ کے قتل کی خبر جھوٹی ثابت ہوئی اور تذبذب کا شکار مسلمانوں کو اپنے رہبر کی زندگی کا یقین ہوگیاتو بکھرے ہوئے مسلمان خود بخود جمع ہونا شروع ہو گئے اور پھر سے جنگ شروع ہوئی اور لشکر اسلام سرخرو ہوا۔
پس زمین پر خدا کے دین کو قائم کرنے اور اسلام دشمن طاقتوں کا مقابلہ کر کے انہیں نیست ونابود کرنے والے مسلمانوں کے رہبر وپیشوا حضرت امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کی زندگی کے عقیدہ کا معاشرے پر نفسیاتی اثر انتہائی واضح اور قابل درک وفہم ہے لیکن اس کے برعکس اگر کوئی رہبر بالکل موجود نہ ہو اور اس کے مکتب کو ماننے والے مستقبل میں اُس کی ولادت کے منتظر ہوں تو اس نظریہ کا نفسیاتی اثر بالکل مختلف ہو گا۔
٢: امام کے وجود کا عقیدہ عمل صالح پر ابھارتا ہے:
تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ امام مھدیعجل اللہ فرجہ الشریف دنیا میں اسلامی انقلاب برپا کریں گے، ایک ایسا دینی انقلاب جو ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور پھر پوری دنیا پر عدل و انصاف کا بول بالا ہو گا، اس عقیدہ کے نفسیاتی اثر کے نتیجہ کے طور پر ظلم وستم سے خستہ افراد کے دلوں میں امید کی قندیل روشن ہوتی ہے اور پھر ایسے افراد خودسازی اور عمل صالح کے ذریعہ اپنے آپ کو امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے دینی واسلامی انقلاب کیلئے تیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
نیز اہل تشیع کے عقیدہ کے مطابق (جو بہت سی روایات میں بھی بیان ہوا ہے) امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف اپنی غیبت کے دوران اپنے ماننے والے اور پیروکاروں پر نظر رکھے ہوئے ،اور مومنین کے اعمال سے باخبر ہیں اوربعض روایات کے مطابق ہر ہفتہ میں ایک یا دو مرتبہ مومنین کے اعمال آپ کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں لہذا آپؑ مومنین کے تمام اعمال وکردار اور انکی گفتار ورفتار سے باخبر ہوتے ہیں([11])۔
پس اس عقیدہ کا نفسیاتی اثر یہ ہے کہ امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے وجود کا اعتقاد رکھنے والے تمام مومنین ہر قسم کے گناہ سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے عمل صالح انجام دینے کی کوشش کریں اور کسی بھی کام کی انجام دہی سے پہلے امام زمانہ کی نظارت ونگرانی کو مدّنظر رکھیں اور پھر آہستہ آہستہ یہی عقیدہ انسان کی تربیت نفس کا سبب بنتا ہے کہ جس کا انکار ممکن نہیں۔
٣:روشن وپاکیزہ مستقبل کی امید:
امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے وجود کا ایک اہم نفسیاتی فائدہ یہ ہے کہ انسان کے دل میں ایک اچھے اور روشن مستقبل کی امید پیدا ہوتی ہے اور اسی امید ہی سے انسان کو ہر گناہ وپلیدی اور ہرظلم وستم سے مقابلہ کرنے کا حوصلہ ملتا ہے اور اسی میں انسان کی کامیابی پوشیدہ ہے۔
امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے وجود بابرکت کا عقیدہ رکھنے والا شخص ہمیشہ اس امید کے ساتھ زندگی گزار تا ہے کہ یقینا ہر ظلمت و تاریکی ،ہر برائی و بدکاری اور ہر ظلم و جور سے نجات ملے گی۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ خداوند نے ہمیں ہرظلم و ستم اور ہر برائی و تباہی سے خالی، الفت و محبت سے بھری ہوئی دنیا کا وعدہ دیا ہے، وہ وعدہ کہ جس میں تخلف کا امکان ہی نہیں ،جیسا کہ خداوند نے فرمایا:(وَنُرِیْدُ أَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِیْ الاَرْضِ وَنَجْعَلَھُمْ اَئِمَّۃً وَّنَجْعَلَھُمُ الْوَارِثِیْنَ وَنُمَکِّنْ لَھُمْ فِی الْاَرْضِ...) ''اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ جو لوگ روئے زمین میں کمزور کردئیے گئے ہیں ان پر احسان کریں اور ان ہی کو پیشوا بنائیںاور انہی کو زمیں کا مالک قرار دیں اور انہی کو روئے زمین پر پوری قدرت عطا کریں...''([12])؛ اسی وعدہ کی نوید خدا کی طرف سے آئے ہوئے تمام پیغمبروں اور سفیروں نے دی یہاں تک کہ خدا کے آخری پیغمبر ،رحمت و سچائی کے پیکر رسول اکرم ؐ نے بھی ان دنوں کی خوشخبری دی کہ جب اچھائی کی جگہ برائی نہ لے سکے گی ، جب کینہ و دشمنی کی جگہ بھائی چارے کا بول بالا ہو گا لوگوں کے درمیان الفت و محبت کی حکومت ہو گی، نسیمِ عدل و انصاف پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی ۔
پس امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے وجود پر اعتقاد سے انسان ،ایک بہترین مستقبل کا امیدوار بنتا ہے اوراس کے دل میں یقین پیدا ہوتا ہے کہ مجھے بلکہ پوری دنیا کو کفر وشرک ، ظلم وستم اور ہربدی وبرائی سے نجات دینے والا موجود ہے، پھر وہ عملی لحاظ سے اُن دنوں کی انتظار میں رہتا ہے کہ جب آنے والاپردہ غیبت سے باہر آئے گااور وعدئہ الہی کو عملی جامہ پہنائے گا۔
٢: غیر نفسیاتی فوائد:
اس کائنات کا نظام چلانے کیلئے اللہ تعالی نے بعض چیزوں میں تکوینی طور پر انسانوں کیلئے فوائد عامہ رکھے ہیں یعنی کوئی انسان اس چیز کے فائدہ کو مانے یا انکار کرے لیکن وہ چیز بہرحال فائدہ پہنچائے گی ، اس کی ایک مثال سورج ہے کہ اس کائنات میں موجود نباتات، حیوانات، انسان اور دوسری تمام موجودات سورج کے نور سے فائدہ حاصل کرتیں ہیں ، چاہے کوئی اس کے فائدے کی طرف متوجہ ہو یا نہ ہو، اور سورج بھی بہرحال ہر ایک مخلوق کو فائدہ پہنچاتا ہے چاہے کوئی اس کے فائدے کو تسلیم کرے یا انکار کرے۔
اِسی طرح امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے وجود مبارک میں بھی بعض فوائد عامہ موجود ہیں کہ جنہیں تکوینی فوائد کا نام بھی دیا جا سکتا ہے اور یہ فوائد ہر مخلوق کو مل رہے ہیں چاہے کوئی ان فوائد کی طرف متوجہ ہو یا نہ ہو، اور یہ فوائد ہر مخلوق کو ملتے بھی رہیں گے چاہے کوئی امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے وجود کو مانے یا انکار کرے، شایدایک اہم سبب یہی ہے جس کی بناء پر بہت سی روایات میں امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کو بادلوں کے پیچھے چھپے ہوئے سورج سے تشبیہ دی گئی ہے؛ البتہ امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے وجود کے فوائدعامہ کے علاوہ کچھ ایسے فوائد خاصہ بھی ہیں کہ جنہیں صرف وہی لوگ حاصل کر سکتے ہیں کہ جوامام کے وجود پر مکمل یقین رکھتے ہوں اور جو افراد امام کے وجود پر یقین نہیں رکھتے یا شک کرتے ہیں وہ ان خاص فوائد کو حاصل نہیں کر سکتے ۔
اس بنا پر عقیدہ مھدویت کے غیرنفسیاتی فوائدکو دو قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
١): فوائد عامہ: ٢): فوائد خاصہ:
امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے وجود کے فوائدعامہ:
امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے وجودکے بہت سے فوائدعامہ شیعہ وسنی روایات میں ذکر کیے گئے ہیں جن میں سے چند ایک مندرجہ ذیل ہیں۔
١: زمین وآسمان کی بقا:
امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے وجود کا ایک فائدہ یہ ہے کہ آپ تمام زمین وآسمان والوں کیلئے امان، اور ان کی بقا کا سبب ہیں اور آپ ہی کے وجود کی وجہ سے زمین وآسمان قائم ہیں۔
امام کے وجود کے اسی فائدہ کو امام سجاد - کی حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ جسے امام صادق -نے نقل فرمایا: نحن أئمۃ المسلمین وحجج اللہ علی العالمین وسادۃ المومنین وقادۃ الغرّ المحجلین وموالی المومنین ونحن امان لأھل الارض کما أن النجوم أمان لأھل السماء ونحن الذین بنا یمسک اللہ السماء أن تقع علی الأرض الاّ باذنہ وبنا یمسک الأرض أن تمید بأھلھا ''ہم (اہل بیت ؑ) امت اسلام کے پیشوا، زمین والوں پر اللہ کی حجت، مومنین کے رہبر، (قیامت کے دن) سفید رُو افراد کے پیشوا اور مومنوں کے سرپرست ہیں، ہم زمین والوں کیلئے امان ہیں جیسے ستارے آسمان والوں کیلئے، ہمارے ہی سبب اللہ نے آسمان کو زمین پر گرنے سے محفوظ رکھا ہے مگر یہ کہ جب خدا چاہے، اور ہمارے ہی سبب اللہ نے زمین پر بسنے والوں کو ہلاکت سے بچایا ہے''([13]) ۔
اسی طرح کی عبارت امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کی ایک توقیع (خط) میں بھی ملتی ہے جس میں آپؑ نے فرمایا: انی امان لأھل الارض کما أن النجوم أمان لأھل السماء ''میں زمین والوں کیلئے امان ہوں جیسے ستارے آسمان والوں کیلئے امان ہیں''([14])۔ پس ہر زمانے میں زمین وآسمان کی بقاء اہل بیت میں سے کسی ایک فرد کی موجودگی کی دلیل ہے، مشہور حدیث لولاالحجۃ لساخت الأرض[ والسمائ] ''اگر حجتّ ِخدا کا وجود نہ ہو توزمین وآسمان تباہ ہوجائیں'' ([15])؛میں بھی اسی نکتہ کی طرف اشارہ ملتا ہے۔
امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے وجود کا یہ فائدہ اہل سنت کی معتبر کتب میں بھی بیان ہوا ہے چنانچہ اہل سنت کے علماء نے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرم ؐنے فرمایا: النجوم امان لاھل السماء فاذا ذھبت ذھبوا واھل بیتی امان لاھل الارض فاذا ذھب اھل بیتی ذھب أھل الارض''ستارے آسمان والوں کیلئے امان ہیں ، جب وہ ختم ہو جائیں گے تو آسمان والے بھی ختم ہوجائیں گے اور میرے اہل بیت ؑزمین والوں کیلئے امان ہیں پس جب میرے اہل بیت ؑنہ رہیں گے تو زمین والے بھی ختم ہوجائیں گے''([16])۔ حکمت الہی کا تقاضا تھا کہ وہ اہل بیت ؑکے ذریعہ سے سیّد الانبیاء ؐ کی ذریت کو قیامت تک قائم رکھے، تا کہ عام لوگ ان کے نور ہدایت سے استفادہ کرتے رہیں لہذاوہی اس کائنات کی بقا کا سبب اور امت کیلئے امان ہیں۔
پس شیعہ وسنی متفقہ روایات کی بناء پر زمین وآسمان کی بقا اس بات کی دلیل ہے کہ ہر دور میں اہل بیت ؑ کا کوئی نہ کوئی فرد موجود رہا ہے لہذا اِس دور میں بھی اہل بیت ؑ کا آخری فرد یعنی امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف زندہ وموجود ہیں، نہ کہ مستقبل میں پیدا ہوں گے، اسی طرح دعائے عدیلہ میں امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کو ان الفاظ میں زمین وآسمان کی بقا کا سبب قرار دیا گیاہے: وبوجودہ ثبتت الارض والسمائ''امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف ہی کے وجود سے زمین وآسمان ثابت وقائم ہیں'' ([17])۔
٢:۔ اہل زمین کی اجتماعی عذاب سے نجات:
امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے وجود کا ایک اور انتہائی اہم فائدہ یہ ہے کہ خداوند عالم لوگوں کی بدکرداریوں اور برے اعمال کے باوجود ان پر اجتماعی عذاب بھیجنے میں جلدی نہیں کرتا ۔ امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے وجود کے اس فائدہ سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کیونکہ سابقہ قوموں کی تاریخ گواہ ہے کہ خداوند نے چھوٹے چھوٹے گناہوں کی وجہ سے انہیں انتہائی سخت عذاب میں مبتلا کر دیا؛ کوئی قوم مسخ ہوگئی اور کسی قوم کو غرق کر دیا گیا، کسی قوم پر آسمانی بجلی گری اور کوئی مختلف قسم کے طوفانوں میں گر گئی لیکن موجود ہ زمانے میں سابقہ قوموں کے گناہوں کی نسبت بڑے بڑے گناہ انجام دیئے جا رہے ہیں،بلکہ شاید یہ کہنا بھی صحیح ہو کہ سابقہ امتوں میں موجود سارے گناہ آج کے مسلمانوں میں موجود ہیں، آج کے مسلمان معاشرے میں گناہ وفساد اوربدکاری عام ہے لیکن اس کے باوجود مسلمان اجتماعی عذاب میں گرفتار نہیں ہورہے تو یہ صرف امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف ہی کے وجود مبارک کی برکت کے سبب ہے۔
خداوند عالم نے قرآن مجید میں کسی قوم پر عذاب نہ آنے کے دو اسباب بیان فرمائے ہیں: (وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَھُمْ وَأَنْتَ فِیْھِمْ وَمَا کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَھُمْ وَھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ) ''(اے نبی) اللہ اُن لوگوں کو عذاب میں مبتلا نہیں کرتا جبکہ تم اُن میں موجود ہو، اور خدا انہیں عذاب نہیں دیتا جبکہ وہ توبہ واستغفار کرتے رہیں''([18])۔
اس بنا پر کوئی بھی قوم صرف دو اسباب کی بناء پر عذاب خدا سے نجات پا سکتی ہے ۔ یا ان کے درمیان رسول خدا ؐ موجود ہوں اور یا وہ قوم توبہ واستغفار کرتی ہو۔ لیکن موجودہ زمانے میں نہ تو نبیؐ ظاہری طور پر امت کے درمیان موجود ہیں اور نہ ہی لوگوں کے درمیان توبہ واستغفار کا رواج ہے بلکہ اکثر لوگ توبہ واستغفار کی بجائے گناہوں کی طرف زیادہ رغبت رکھتے ہیں ۔
اب سوال یہ ہے کہ جب عذاب سے بچنے کیلئے قرآن مجید میں ذکر شدہ دونوں اسباب موجود نہیں تو پھر مسلمان اجتماعی عذاب کا شکارکیوں نہیں ہو رہے؟ اس سوال کا جواب صرف یہ ہے کہ اگرچہ رسول خدا ؐظاہری طور پر موجود نہیں لیکن آخری نبی کا وہ آخری نائب موجود ہے کہ جو آخری محمد بھی ہے کیونکہ رسول خدا فرما چکے ہیں کہ : اوّلنا محمد وأوسطنا محمد وآخرنا محمد یعنی ''میرے اہل بیت ؑ میں سے سب مجھ(محمدؐ) ہی جیسے ہیں''([19])۔
پس جس طرح امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے جدِّبزگوار رسول خدا ؐ کا وجود امت کیلئے عذاب خدا سے امان کا سبب تھا ویسے ہی موجودہ امت اگر عذاب خدا سے محفوظ ہے اور خداوند ہماری بدکرداریوں کے باوجود عذاب بھیجنے میں جلدی نہیں کر رہا تو یہ صرف اور صرف امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف ہی کے وجود مبارک کی وجہ سے ہے۔
اہل سنت کے بہت سے علماء نے اسی بات کا اقراربھی کیا ہے جیسے قندوزی نے اپنی کتاب ینابیع المودۃ میں آیت (وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَھُمْ وَأَنْتَ فِیْھِمْ)کے ذیل میں لکھا ہے: أشار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الی وجود ذلک المعنی فی أھل بیتہ، وأنھم أمان لاہل الارض کما کان (ھو) صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أمانا لھم''پیغمبر اکرم ؐ نے اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ یہی صفت آپؐ کے اہل بیت ؑ میں بھی پائی جاتی ہے اور وہ بھی زمین والوں کیلئے امان ہیں جیسے آپؐ امان تھے''([20])۔
اسی طرح اہل سنت کی اور بہت سی بات اسی مطلب پر دلالت کرتی ہیں، جیسے اہل سنت کی ایک جماعت نے نقل کیا ہے: النجوم أمان لاہل السماء وأھل بیتی أمان لامتی''ستارے آسمان والوں کیلئے امان ہیں اور میرے اہل بیت ؑ میری امت کیلئے امان ہیں''([21])؛اور دوسری روایت میں ہے: النجوم أمان لاہل السماء وأھل بیتی أمان لاہل الارض،فاذا ذھب النجوم ذھب أھل السماء واذا ذھب أھل بیتی ذھب أھل الارض ''ستارے آسمان والوں کیلئے امان ہیں اور میرے اہل بیت ؑ زمین والوں کیلئے امان ہیں ، پس جب ستارے ختم ہو جائیں گے تو آسمان والے بھی ختم ہوجائیں گے اور جب میرے اہل بیت نہ رہیں گے تو زمین والے بھی ختم ہوجائیں گے''([22]) ۔
پس ماننا پڑے گا کہ اگر یہ امت اجتماعی عذاب سے محفوظ ہے اور زمین وآسمان اپنی اپنی جگہ قائم ہیں تو صرف اہل بیت ٪ کے آخری فرد امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے وجود مبارک کی برکت سے، وگرنہ نہ زمین وآسمان باقی رہتے اور نہ کوئی جاندار اس دنیا میں موجود ہوتا۔
٣: دین اسلام کی حفاظت وبقا:
جب سے رسول خدا ؐ نے دین اسلام کو لوگوں کے سامنے دائمی اور ہمیشہ رہنے والے دین کے عنوان سے پیش کیا ہے، اُسوقت سے لیکر آج تک دین اسلام کے دشمن مختلف ہربوں اور ہتھکنڈوں کے ذریعہ اسلام کو نابود کرنے کی کوششوں میں سرگرم ہیں لہذا کبھی ذاتی نظریات کو دینی مسائل میں داخل کرنے کی کوشش کی گئی اور کبھی نئے دور کے رسوم ورواج کو دین کے ساتھ مخلوط کرنے کی سعی ہوئی، کبھی دین کی تفسیر کے عنوان سے تحریف کی سازشیں ہوئیں اور کبھی یہ بہانہ بنا کر لوگوں کو بے دین بنانے کی کوشش کی گئی کہ اسلام نئے دور کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا، لہذا کیا یہ ضروری نہیں تھا کہ دین اسلام کو پسندیدہ اور دائمی دین قرار دینے والا خالق، کوئی ایسا انتظام کرے کہ ہر زمانے میں دین اسلام دشمنوں کی سازشوں سے محفوظ رہے اور اسلامی تعلیمات فنا نہ ہونے پائیں؟!
پس یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ خداوند تعالی نے اپنے دین کی حفاظت وبقا کا انتظام ضرور کیا ہے ، البتہ ہمارے عقیدہ کے مطابق وہ امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف ہی کی ذاتِ بابرکت ہے جو غیبت کے دوران دین اسلام کی حفاظت وبقا اور دشمنوں سے اِس دین اور اسکی تعلیمات کے بچاؤ کا اہم فریضہ ادا کررہے ہیں اور آپؑ کے وجود ہی کی برکت سے دین قائم ودائم ہے۔ جیسا کہ رسول خدا ؐ نے فرمایا: في کل خلف من امتي عدول من أھل بیتي ینفون عن ھذا الدین تحریف الغالین وانتحال المبطلین وتاویل الجاہلین''میری امت کی ہر نسل میں میرے اہل بیت ٪ میں سے عادل فرد ہوں گے جو دین کو غالیوں کی تحریف، قبول نہ کرنے والوں کے انکار اور جاہلوں کی تاویل سے بچائیں گے''([23])؛ یہاں قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ مذکورہ حدیث اہل سنت کی بعض معتبر کتب میں بھی موجود ہے ([24])۔
نیزاہل سنت کیلئے اس دعوی کی مزید توضیح وتشریح میں خلفاء سے متعلق احادیث بھی بیان کی جا سکتی ہیں کہ جن سے امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے وجود کا مذکورہ فائدہ ثابت ہوتا ہے۔ جیسا کہ اہل سنت نے بیان کیا ہے کہ رسول خدا نے فرمایا: لایزال ھذا الدین عزیزا منیعاالی اثنی عشر خلیفۃ ''یہ دین اسوقت تک عزیز اور قوی ومظبوط رہے گا یہاں تک کہ بارہ خلفاء ہو جائیں''([25])؛ ایک اور روایت کے مطابق رسول خدا ؐنے فرمایا: لایزال ھذا الدین قائما حتی یکون علیکم اثنا عشر خلیفۃ ''یہ دین اُسوقت تک باقی رہے گا جب تک کہ تم پر بارہ خلفاء نہ ہو جائیں''([26])؛ اسی طرح اہل سنت علماء نے رسول خدا ؐکا یہ فرمان بھی نقل کیا ہے: لایزال ھذا الدین عزیزا منیعا ینصرون علی من ناواھم علیہ الی اثنی عشر خلیفۃ ''یہ دین اُسوقت تک محکم وپائیدار اور دشمنوں پر غالب رہے گا جب تک بارہ خلفاء ہوں گے''([27])۔
اہل سنت کی کتب میں موجود مذکورہ متواتر حدیث میں پیغمبر اکرمؐ نے اپنے بعد بارہ خلفاء کو دین کی حفاظت وبقاء کا ضامن قراردیا ہے کہ جن کی وجہ سے دین اسلام کی شان وشوکت باقی رہے گی۔
اگرچہ انتہائی معتبر اہل سنت علماء بھی مذکورہ حدیث کے مصداق کی تعیین میں بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے ہیں اور بارہ خلفاء کی تعیین سے عاجز نظر آتے ہیں حتی کہ بعض نے بارہ خلفاء کی تعداد پوری کرنے کیلئے یزید جیسے فاسق وفاجر کو بھی ان خلفاء میں شمار کیا ہے([28])؛ لیکن اہل تشیع کا مؤقف اس معاملہ میں انتہائی واضح ہے اور شیعہ حضرات کے نزدیک پیغمبر اکرم ؐنے جن بارہ خلفاء کا تذکرہ کرتے ہوئے انہیں دین کی بقاء اور حفاظت کا ذمہ دار قرار دیا ہے وہ صرف امام علی ؑ سے لیکر امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف تک بارہ امامِ برحق ہیں ۔
پس یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ پیغمبر اکرم ؐ کا مذکورہ فرمان (بارہ خلفاء والی حدیث)، اس بات کی واضح دلیل ہے کہ دین کی عزت وعظمت اور بقاء رسول خدا ؐ کے بارہ خلفاء میں سے کسی ایک کی وجہ سے ہے کہ جنہیں دین کی حفاظت کا ذمہ دار قرار دیا گیاہے اور عصر حاضر میں وہ رسول خدا ؐ کے آخری جانشین امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف ہی کی ذات با برکات ہے کہ جو پردہ غیب سے دین کی حفاظت کی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں۔
٤: اہل زمین پر آسمان وزمین کی برکات کا نزول:
امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے وجود کے فوائد عامہ میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ زمین والوں پر باران رحمت کا نزول ہوتا ہے، زمین اپنی برکات ظاہر کرتی ہے جیسا کہ امام فرماتے ہیں: وبنا ینزّل الغیث وتنشر الرحمۃ وتخرج برکات الأرض ''ہمارے سبب باران رحمت نازل ہوتی ہے، رحمت خدا پھیلتی ہے اور زمین سے برکات ظاہر ہوتی ہیں''([29])۔
زمین وآسمان کی برکات کا مسئلہ ایک قرآنی اصول ہے کیونکہ خداوند نے فرمایا: (وَلَوْ أَنَّ أَھْلَ الْقُرٰی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْھِمْ بَرَکٰاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلٰکِنْ کَذَّبُوْا فَأَخَذْنَاھُمْ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ) ''اگر بستیوں والے ایمان لے آتے اور پرہیزگار بنتے تو ہم ضرور ان پر آسمان وزمین کی برکتوں (کے دروازے) کھول دیتے، لیکن انہوں نے جھٹلایا پھرہم نے ان کو انکے اعمال کی بناء پر پکڑ لیا''([30])۔
اس آیت مبارکہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ چونکہ سابقہ امتوں نے تقوی سے منہ موڑا، حق کا انکار اور اہل حق کی تکذیب کی جس کے نتیجہ میں خداوند نے انہیں عذاب میں مبتلا کردیا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس امت پر باران رحمت نازل ہوتی ہے، زمین سے اس کی برکات ظاہر ہوتی ہیں اور اہل زمین اس سے استفادہ کرتے ہیں، یہ سب کچھ ممکن نہیں مگر صرف ائمہ اطھار علیھم السلام کے وجود کے صدقہ میں، کیونکہ وہی زمین میں تقوی وپرہیزگاری کا مظہر ہیں۔
وجودِ امامِ مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے فوائدخاصہ:
امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے وجود مبارک میں فوائدعامہ کے علاوہ کچھ فوائد خاصہ بھی موجود ہیں البتہ دونوں میں فرق یہ ہے کہ فوائدعامہ ہر مخلوق کو مل رہے ہیں چاہے کوئی ان فوائدکی طرف متوجہ ہو یا نہ ہو، نیز یہ فوائد ہر مخلوق کو ملتے رہیں گے، چاہے کوئی امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے وجود کو مانے یا انکار کرے۔ لیکن امام کے وجود کے فوائد خاصہ عام طور پر صرف انہیں افراد کے ساتھ مخصوص ہیں جو امام پر صحیح عقیدہ رکھنے کے ساتھ ساتھ آپؑ کے ساتھ معنوی رابطہ رکھتے اور توسل کرتے ہوں۔
١:جاہلیت کی موت سے نجات:
اہل سنت کی معتبر کتب میں امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے حوالے سے پیغمبر اکرم ؐ کی ایک حدیث مختلف الفاظ میں موجود ہے کہ آپؐ نے فرمایا: من مات ولیس فی عنقہ بیعۃ مات میتۃ جاہلیۃ''جو کوئی ایسی حالت میں مرے کہ اس کی گردن میں کسی (امام) کی بیعت نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا''([31])۔
دوسری روایت کے مطابق آپؐ نے فرمایا:من مات بغیر امام مات میتۃ جاہلیۃ ''جو کوئی امام (کی معرفت)کے بغیرمر جائے وہ جاہلیت کی موت مرا''([32])۔ ایک اور روایت کے مطابق آپؐ نے فرمایا: من مات ولیس علیہ امام مات میتۃ جاہلیۃ ''جو کوئی ایسی حالت میں مرے کہ اس کا کوئی امام نہ ہو وہ جاہلیت کی موت مرا''([33])۔
ان روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے : موجودہ دور میں تمام مسلمانوں (اور خاص طور پر اہل سنت ) کے لئے امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے وجود کا ایک اہم فائدہ یہ ہے کہ وہ امام حق کی بیعت کا فرض ادا کر سکیں کہ جس کے نتیجہ میں انکی موت جاہلیت کی موت نہ رہے گی۔
٢:۔مومنین کی مشکل کشائی :
امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے وجود کا ایک اور خاص فائدہ یہ ہے کہ آپؑ اپنے ماننے والوں کی مشکل کشائی اور حاجت روائی کرتے ہیں، تاریخ تشیع میں علماء ومومنین کے بہت سے ایسے واقعات ملتے ہیں کہ جن میں امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف نے بالواسطہ یا بلاواسطہ ان کی مشکلات حل فرمائیں۔
امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف نے اپنی ایک توقیع (خط) میں شیعوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اِنَّا غَیْرُ مُھْمِلِیْنَ لِمُرَاعَاتِکُمْ، وَلَانَاسِیْنَ لَذِکْرِکُم، وَلَولَاذٰلِکَ لَنَزَلَ بِکُمْ اْللَّاوٰاءُ وَاصْطَلَمَکُمْ اْلأَعْدَاءُ فَاتَّقُوْااللّٰہَ جَلَّ جَلاٰلُہُ ''ہم تمہاری دیکھ بھال میں کوتاہی نہیں کرتے اور نہ ہی تمہیں فراموش کیا ہے ، اگر ایسا نہ ہوتا تو تم پر مصیبتیں آپڑتیں اور دشمن،تمہیں تباہ وبرباد کر دیتے پس تم تقویٰ الہی اختیار کرو''([34])۔
امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے ان محبت امیز جملات سے واضح ہوتا ہے کہ آپ کے ذریعہ ہمیشہ غیبی امداد شیعوں تک پہنچ رہی ہے اور امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے محبین ومعتقدین بھی اپنی فردی واجتماعی مشکلات وپریشانیوں میں کبھی اپنے امام سے غافل نہیں ہوئے بلکہ شیعت کی تاریخ گواہ ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے زمانے کے امام کو حلّال مشکلات اور محرم اسرارِ خلقت سمجھتے ہوئے، اُن سے متوسل ہوئے ہیں جس کے بارے میں بہت سے واقعات کتبِ تاریخ میں مذکور ہیں مثلا: بحرین کے حاکم اور انار کا واقعہ جس میں امام زمانہ نے بحرین ہی کے ایک مومن محمد بن عیسی کے ذریعہ وہاں کے مومنین کی مدد فرمائی، یا اسی قسم کے اور بہت سے واقعات امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف سے متعلق کتب میں مذکور ہیں کہ جن میں آپؑ نے اپنے ماننے والوں کی مشکل کشائی اور حاجت روائی فرمائی ہے([35])۔
٣:نامحسوس روحانی نفوذ اور معنوی ہدایت:
ہر آسمانی والہی رہبرچاہے وہ نبی ہو یا امام، کا سب سے اہم کام لوگوں کی ہدایت کرنا ہے چنانچہ خداوند تعالی نے فرمایا:(وَجَعَلْنَاھُمْ اَئِمَّۃً یَھْدُوْنَ بِأَمْرِنَا) ([36]) لہذا ہر نبی اور امام اپنی پوری زندگی اس ہدایت کے فریضہ کو ادا کرتا ہے لیکن اس بات کی طرف توجہ ضروری ہے کہ ہدایت کے فریضہ کی ادائیگی کیلئے بھی ہادی کالوگوں کی آنکھوں کے سامنے مسلسل ہونا ضروری نہیں ہے اگرچہ عام طور پر ہدایت کا فریضہ،درس و گفتار اور عادی تعلیم وتربیت کے ذریعہ ادا ہوتا ہے،لیکن نبی یا امام کے پاس لوگوں کی ہدایت کا ایک روحانی ومعنوی طریقہ بھی ہے کہ جو دل وفکر میں معنوی نفوذ کے ذریعہ انجام پذیر ہوتا ہے کہ جسے اصطلاح میں ہدایت وتربیت تکوینی کا نام دیا جا سکتا ہے، اس طریقہء ہدایت میں الفاظ وکلمات اور درس وگفتار مؤثر نہیں ہوتے بلکہ نبی یا امام کی صرف روحانی کشش مؤثر ہوتی ہے۔
بہت سے الہی رہبروں کے حالات میں ملتا ہے کہ بعض اوقات نہایت منحرف وغلط افراد صرف ایک مختصر سی ملاقات کے ذریعہ بدل گئے اور فورا راہ راست پر آگئے، بے ایمانی وگناہوں سے تائب ہوکر مؤمن وفداکار بن گئے۔ اور اسی چیز کو ''شخصیت کے نفوذ یااثر'' سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
خانہ کعبہ کے پہلو میں اسعد بن زرارہ بت پرست کی پیغمبر اکرم ؐ سے مختصر ملاقات اور اس کا مسلمان ہونا، کربلا کے راستے میں امام حسین ؑ کے پیغام کا زھیر پر اثر، کہ اُس نے اپنے ہاتھ کا لقمہ بھی منہ میں رکھنا گوارا نہ کیا اور فورا امام کی طرف چل پڑا، نیز امام حسین ؑ کی حرُ بن یزید ریاحی سے ملاقات اور اُس کا یزیدی لشکر کو چھوڑ کر امام حسین ؑ کے لشکر میں شامل ہوجانا، حضرت امام موسی کاظم ؑ کو دیکھ کر ہارون کی طرف سے امام ؑ کے زندان میں بھیجی گئی فاحشہ عورت کا بدل جانا یا بشیر حافی اور امام موسی کاظم ؑ کا واقعہ وغیرہ... یہ تمام واقعات معصومین کے نامحسوس روحانی نفوذ واثر کی نشاندہی کرتے ہیں۔
اسی طرح غیبت کے پردے میں امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے وجود کا بھی ایک اثر یہی ہے کہ آپؑ مومنین کے دلوں کی ذرخیز زمین کو اپنی روحانی شخصیت کے نفوذ کے بیج سے آباد کرتے ہیں جس سے آپؑ کے ماننے والوں کی روحانی تربیت ہوتی ہے۔
٤:امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کی غیبت کا مومنین کیلئے باعث برکت ہونا:
امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کی غیبت کے سبب مومنین کیلئے عظیم اجر وثواب کے دروازے کھلے ہوئے ہیں اور ایسا بہت ساعظیم ثواب جس کا حصول انتہائی بامشقت اعمال کے بغیر ممکن نہ تھا، امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی غیبت کی وجہ سے مومنین کو مل رہا ہے اورروایات میں اس عظیم ثواب کا کثرت کے ساتھ ذکر ہوا ہے جیسا کہ امیر المومنین حضرت علی ؑ سے روایت ہے : أفضل العبادۃ الصبر والصَمت، وانتظار الفرج ''بہترین عبادت صبرکرنا، فضول باتوں سے پرہیز اور امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے ظہور کا انتظار کرنا ہے''([37])۔
پس غیبت کے زمانے میں امام ؑکے ظہور میں تعجیل کیلئے دعا کرنے والے ، غیبت میں مصائب ومشکلات پر صبر کرتے ہوئے امامت کے عقیدہ پر ثابت قدم رہنے اور ظہور کے بعد آپؑ کی نصرت کے خواہاں مومنین، خداوند کی طرف سے ثواب عظیم حاصل کرتے ہیں۔
٥: دیگر فوائد:
حضرت امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے وجود کے فوائد صرف ذکر کئے گئے موارد میں ہی منحصرنہیں ہیں بلکہ آپ ؑ کے وجود مبارک کی برکت سے کائنات کی مخلوقات کو اور بھی بہت سے فوائد مل رہے ہیں مثلاً امام کے لئے ممکن ہے کہ وہ اسلامی نظام کی بقاء اور اہل اسلام کی حفاظت کے لئے امراء وسلاطین کی رہنمائی کریں، فقہاء اور علماء کے ساتھ ہمنشینی کے ذریعہ دینی مسائل میں ان کی رہنمائی کرتے ہوئے انہیں ہدایت کے راستہ پر گامزن فرمائیں، یا معاشرے کے حاجت مند افراد کی ضرورتوں کو پورا کریں۔
اس دنیا میں کتنے ہی ایسے لاعلاج ہیں کہ جنہیں اچانک شفا مل جاتی ہے، کتنے ہی پریشان حال لوگ ہیں جو دیکھتے ہی دیکھتے آسودہ خاطر ہوجاتے ہیں، کتنے ہی علمی مسائل چند لمحوں میں حل ہوجاتے ہیں!!!
کچھ بعید نہیں ہے کہ جسے ہم اپنی عام زندگی میں اتفاقی بات سمجھ رہے ہوں وہ حقیقت میں امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف ہی کی مدد اور رہنمائی ہو، جیسا کہ امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے موضوع پر لکھی گئی کتب میں دسیوں واقعات اسی بات کی دلیل ہیں کہ امام کے لئے اللہ تعالی کی دی ہوئی قدرت کے تحت یہ سب کام ناشناختہ اور نامحسوس طور پر انجام دینا ممکن ہے۔
[1] : کمال الدین(شیخ صدوقؓ) ج١، ب٢٣، ح٣.
[2] : حوالہ سابق
[3] : منھاج السنۃ النبویۃ(ابن تیمیہ):ج ٨ص١٨٧.
[4] : سورہ کہف (١٨) آیات ٦٥۔٦٦
[5] : نہج البلاغہ، قصار١٤٧.
[6] : بحار الانوار(مجلسی)ج١٥،ص٣٥٠.
[7] : الغیبۃ (النعمانی):ص٨٤، باب ان فی القائم سنۃ من الانبیائ؛ الکافی (کلینیؒ): ج٢ص٤٤٠(معمولی اختلاف کے ساتھ)
[8] : المھدی في کتب الصحاح والسنن(صدر الدین صدر): ص١٨٤.
[9] : کمال الدین(شیخ صدوقؓ)ج١، ب٢٣،ح٣۔
[10] : اسی نظریہ کے تحت اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ جب امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف پیدا ہوں گے تو تمام لوگوں کو آپ کی اطاعت واتباع کرنا ہوگی اور وہ لوگوں کی رہبری کا منصب سنبھال کر زمین میں عدل وانصاف اور اللہ کا نظام قائم کریں گے۔
[11] : کافی(کلینی):کتاب الحجۃ، باب عرض الاعمال علی النبیؐ والائمۃ؛ شیعہ تفاسیر،ذیل آیہ فَسَیَرَیْ اللّٰہُ عَمَلَکُمْ وَ...، سورہ توبہ آیت١٠٥
[12] : سورہ القصص(٢٨) آیت٥،٦۔
[13] : کمال الدین (شیخ صدوق): ج١ص٢٠٧ ؛ فرائد السمطین (جوینی شافعی):ج١ص٤٥، طبع لبنان١٣٩٨ھ؛ ینابیع المودۃ (قندوزی حنفی):ص٢١ .
[14] : الاحتجاج( طبرسی) : ج٢ص٥٤٥؛ کمال الدین (شیخ صدوق):ج٢ص٤٨٥.
[15] : بعض احادیث میں یہ الفاظ ہیں''لو بقیت الأرض بغیر امام لساخت'' (اصول کافی: ج١ص١٧٩، باب أن الأرض لاتخلوا من حجۃ؛ بصائر الدرجات،ص٤٨٨، باب أن الأرض لاتخلوا بغیر امام)۔
[16] : ذخائر العقبی(طبری شافعی):ص١٧،طبع مصر١٣٥٦ھ، نیز یہی حدیث اہل سنت کی بہت سی کتب میں ایک ہی مضمون میں مختلف الفاظ کے ساتھ بیان ہوئی ہے المستدرک، حاکم نیشاپوری،ج٢ص٤٤٨؛ مجمع الزوائد، (ھیثمی)،ج٩ص١٧٤،طبع بیروت١٩٨٨؛ المعجم الکبیر، (الطبرانی)،ج٧ص٢٢،طبع٢ دار احیاء التراث العربی١٩٨٥. ؛ الجامع الصغیر، (جلال الدین سیوطی)، ج٢ص٦٨،طبع اول،دار الفکربیروت،١٩٨١
[17] : مفاتیح الجنان، دعائے عدیلہ.
[18] : سورہ انفال(٨)آیت٣٣۔
[19] : بحار الأنوار(مجلسی):ج٣٦ص٣، باب نادر فی معرفتھم صلوات اللہ علیھم.
[20] : ینابیع المودۃ (قندوزی حنفی) : آیت ''وما کان اللہ لیعذبھم''کے ذیل میں؛ مستدرک (حاکم): ج٣ص١٤٩۔
[21] : شواھد التنزیل (حاکم حسکانی):ج١ص٤٢٦؛ ذخائر العقبی( الطبری): ص١٧.
[22] : ینابیع المودۃ (قندوزی حنفی):ج ٢ص٤٤٢.
[23] : بحار الأنوار(مجلسی): ج٣٦ص٢٥٦،باب٤١۔
[24] : ینابیع المودۃ (قندوزی حنفی):ج ٢ص١١٤.
[25] : المعجم الکبیر(طبرانی):ج٢ص١٩٥باب عامر الشعبی؛ صحیح مسلم:ج ٦ص٣، باب الناس تبع لقریش والخلافۃ فی قریش؛ سنن أبی داود: ج٢ص٩٠٣،
[26] : سنن أبی داود:ج ٢ص٩٠٣، آخر کتاب الفتن ؛ المعجم الکبیر (طبرانی): ج٢ ص٢٠٧، باب ابو خالدالوالبی
[27] : مسند أحمد:ج ٥ص٩٩۔
[28] : شرح صحیح الترمذی:(ابن عربی)، حدیث خلفاء کے ذیل میں۔
[29] : کمال الدین(شیخ صدوق): ج١ص٢٠٧؛ أمالی (صدوق): ص١٨٦، المجلس الرابع والثلاثون۔
[30] : سورہ اعراف/٩٦۔
[31] : صحیح مسلم،کتاب الامارۃ، باب١٣؛ سنن کبری (ترمذی):ج٨ص١٥٦؛ فتح الباری (ابن حجر):ج١٣ص٥.
[32] : مسند (أحمد بن حنبل):ج ٤ص٩٦؛ مجمع الزوائد (ھیثمی):ج٥ص٢١٨.
[33] : مجمع الزوائد (ھیثمی):ج٥ص٢١٨.
[34] : بحار الانوار (مجلسی):ج٥٣ص١٧٥؛ الاحتجاج (طبرسی):ص٥٩٦.
[35] : رجوع کریں:منتھی الآمال(اردو ترجمہ احسن المقال):ج٢ص٤٤٠؛ النجم الثاقب: ص٣١٤؛ بحار الانوار (مجلسی):ج٥٢ص١٧٨.
[36] : سورہ انبیاء : آیت ٧٣
[37] : بحارالانوار (مجلسی): ج٧٤ص٤٢٢.