نام کتاب: تحقیق درنمازجنازہ رسول(ص
تالیف: آیۃ اللہ سید مظہر علی شیرازی دامت برکاتہ
تاریخ: محرم الحرام 1438 ھ
ناشر: مؤسہ جواد الائمہ علیھم السلام
سایٹ: www.aljawaad.com
رابطہ نمبر 03084198055
جملہ حقوق محفوظ ہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مقدمہ
قدیم الایام سے یہ بحث چلی آرہی ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی رحلت کے بعد کچھ لوگ آپ کی تجھیز و تکفین اور جنازہ چھوڑ کر سقیفہ بنی ساعدہ چلے گئے تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی نماز جنازہ میں شریک نہیں ہوئے اگرچہ ان کے طرفداروں نے من گھڑت روایات کے ذریعے ان کی شمولیت کی نا کام کوشش کی ہے
ہم نے حوزہ علمیہ قم المقدسہ میں اپنے درس مناظرہ [1]میں، ان روایات کی اسناد اوردلالت پر تفصیلا تحقیقی بحث کی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ شیخین وغیرہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے نماز جنازہ میں شرکت نہیں کی قارئین محترم کے استفادہ کے لیئے ان دروس کو نظر ثانی کے ساتھ تحقیقی رسالہ کی صورت میں پیش کیا جا رہا ہے نیز اس رسالہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نمازہ جنازہ کی کیفیت کیا تھی اس بحث کی طرف بھی فریقین کی کتب سے اشارہ کیا گیا ہے دعا گو ہوں کہ خدا وند متعال بحق محمد و آل محمد علیہم السلام سب کو حق سمجھنے اور حق پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے
والسلام علیٰ من التبع الھدی
سید مظہر علی شیرازی
4رجب 1436 ھ حوزہ علمیہ قم المقدسہ
جنازے میں شریک ہونے کا ثواب
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من شھد الجنازۃ حتی یصلی علیہ فلہ قیراط و من شھد حتی یدفن کان لہ قیراطان قیل و ماالقیراطان قال مثل الجبلین العظیمین
رسول خدا 3نے فرمایا جو شخص کسی مسلمان کے جنازے میں شریک ہواور نماز جنازہ تک وہیں رہا اس کیلئے اجر و ثواب کا ایک قیراط ہے اور جو شخص تدفین تک حاضر رہا اس کیلئے دو قیراط ہیں کہا گیا دو قیراط کتنے ہوتے ہیں؟ فرمایا دو بڑے پہاڑوں کے برابر {ثواب ملے گا}[2]
نوٹ: بعض روایات اھل سنت میں ہے ہر قیراط مثل احد پہاڑ کے ہے۔
عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال من اتبع جنازة مسلم إيمانا واحتسابا وكان معه حتى يصلى عليها ويفرغ من دفنها فإنه يرجع من الأجر بقيراطين كل قيراط مثل أحد ومن صلى عليها ثم رجع قبل أن تدفن فإنه يرجع بقيراط {متفق علیہ}
ابو ھریرہ کہتے ہیں رسول اللہ3 نے فرمایا کہ جو شخص کسی مسلمان کے جنازہ کے ساتھ مومن ہونے کی حثییت سے اور طلب ثواب کی غرض سے جائے، اس کے ساتھ رہے، اس پر نماز پڑھے اور اس کے دفن سے فارغ ہو تو وہ دو قیراط ثواب لے کر لوٹتا ھے جس میں ہر قیراط احد پہاڑ کے برابر ہے اور جو شخص صرف جنازہ کی نماز پڑھ کر لوٹ آئے اور دفن میں شریک نہ ہو اس کو ایک قیراط ثواب ملتا ہے۔[3]
نوٹ: جب عام مسلمان کے جنازہ اور تدفین میں شرکت کا یہ ثواب ہے تو سید الانبیاء حضرت محمد مصطفی 3کے جنازہ اور تدفین کا کتنا ثواب ہو گا؟
اہل سنت کی ایک اور روایت جس کو حضرت علی علیہ السلام نے رسول خدا 3سے روایت کیا ہے کہ رسول خدا3 نے فرمایا: للمسم علی المسلم ان یعودہ اذا مرض و یحضر جنازتہ
مسلمان کیلئے مسلمان پر {حق} یہ ہے کہ جب وہ بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت کرے اور اس کے جنازہ میں شریک حاضر ہو۔[4]
نیز ابو ھریرہ سے روایت ہے کہ حضور نے فرمایا:
من حق المسلم علی المسلم شھود الجنازۃ و عیادۃ المریض
مسلمان کے مسلمان پر حقوق ہیں ان حقوق میں یہ ھے کہ اس کے جنازہ میں شریک ہو اور بیمار کی عیادت کرے۔[5]
نوٹ: کچھ حقوق مسلمان ہونے کی حثییت سے ہوتے ہیں اور کچھ حقوق رشتہ داری کی وجہ سے بھی ہوتے ہیں۔ اور کچھ حقوق نبوت کے ہوتے ہیں ، نبی امت کی نسبت سے روحانی باپ کی مانند ہوتا ہے اور ہمارا نبی تو سید الانبیاء والمرسلین ہے ، امت پر سید الانبیاء کا حق تو اور زیادہ ھے۔ جو لوگ حکومت کی خاطر، سید الانبیاء کا جنازہ چھوڑ کر سقیفہ چلے گئے تھے کیا انہوں نے مذکورہ حقوق، مسلمانی، رشتہ داری، روحانی اولاد اور رعیت ہونے کا حق ادا کیا ھے؟ کیا یہی وفا ہے؟ جب حضور3 نے غدیر خم پر حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کا اعلان کردیا تھا تو پھر سقیفہ جانے کی کیا ضرورت تھی؟ اگر یہی بات سمجھ آ جائے تو سارے جھگڑے ختم ہو سکتے ہیں۔
خداوند متعال بحق محمد وآل محمد علیھم السلام سب کو حق سمجھنے اور حق پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین
سوال : کیا شیخین حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی تجھیز تکفین و تدفین میں حاضر تھے؟
جواب: شیخین حضور(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی تجھیزتکفین اور تدفین کے وقت حاضر نہیں تھے۔ اہلسنت کی روایات میں ہے کہ حضور(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی نماز جنازہ کسی نے نہیں پڑھائی۔
لوگوں نے حضور(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز جنازہ فرادیٰ،فرادیٰ پڑھی ایک گروہ حجرہ میں داخل ہوتا تھا اور فرادیٰ، بغیر امام کے دعا نمازپڑھ کر باہر آجاتاتھا پھر دوسرا گروہ جاتا تھا وہ بھی بغیر امام کے پڑھ کر آجاتا۔
اسی طرح پڑھی گئی
والصحیح الذی علیہ الجمھور انھم صلوا علیہ افرادافکان یدخل علیہ فوج یصلون فرادیٰ ثم یخرجون،ثم یدخل فوج آخر فیصلون کذالک[6]
ابن سعد نے طبقات میں متعدد روایات کو ذکر کیا ہے جن میں یہی تصریح موجود ہے کہ حضور(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر لوگوں نے فرادیٰ نماز پڑھی تھی[7]۔اہل سنت کے عالم ابن کثیر نے کہا ہے : وھذا الامر ای صلاتھم علیہ فرادیٰ من غیر امام یؤمھم مجمع علیہ: یہ امر یعنی ان کی حضور(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)پر نماز امام کے بغیر تھی کسی نے امامت نہیں کرائی اس پر اجماع ہے [8]
خلاصہ یہ کہ بہر حال اہل سنت کے ہاں حضور(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نماز کی جو بھی کیفیت تھی دعا و سلام یا نماز معروفہ ، اتنی بات خود اہل سنت کی کتب سے ثابت ہے کہ ابو بکر و عمر وغیرہ ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز جنازہ میں شریک نہیں تھے ، اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے دفن کے وقت بھی حاضر نہیں تھے[9] جس کی تفصیل عنقریب ذکر کی جائے گی
مخفی نہ رہے رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کو غسل اور کفن حضرت علی علیہ السلام نے دیا [10] اور ہماری کتب میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز جنازہ بھی حضرت علی علیہ السلام نے پڑھائی ہے البتہ نماز جنازہ میں اہل بیت امام حسن علیہ السلام امام حسین علیہ السلام حضرت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا اور خواص ملائیکہ اورخواص اصحاب سلمان فارسی ،ابوذرغفاری،اور مقداد شامل تھے [11]
اور مھاجرین اور انصار کے لوگ جو موجود تھے وہ دس دس ہو کر دائرہ کی صورت میں داخل ہوئے اور امیرالمومنین علی علیہ السلام ان کے درمیان کھڑے ہو کر اس آئیہ مبارکہ کی تلاوت فرماتے رہے(ان اللہ وملائکتہ یصلون علی النبی یاایھاالذین آمنواصلّو علیہ وسلّمو تسلیما)
مخفی نہ رہے کہ شیخین وغیرہ،سقیفہ بنوساعدہ چلے گئے تھے جب وہ واپس آئے تو حضور(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دفن ہو چکے تھے کمامرّ سیدالانبیاء(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کا جنازہ چھوڑ کر سقیفہ میں جانے کی کیا ضرورت تھی۔
روایات اہل سنت اور ان کی تحقیق
اہل سنت کے عالم ابن سعد نے اپنی کتاب طبقات ج2،ص394 پر ایک روایت ذکر کی ہے جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ حضور(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز جنازہ میں صف اول میں ابو بکر و عمر تھے
اس روایت کی تحقیق :اس روایت کا پہلا راوی محمد بن عمرواقدی ہے جس کے بارے میں اہل سنت کے امام احمد بن حنبل نے کہا ہے کہ یہ شخص کذاب ہے اور ابو حاتم نے کہا ہے کہ یہ شخص حدیث وضع (گھڑتا) تھا،نسائی نے بھی یہی کہا ہے
ذھبی نے کہا ہے واقدی کے وھن پر اجماع ہے،نووی نے کہا ہے کہ واقدی کے ضعیف ہونے پر سب علماء کا اتفاق ہے[12]
اور اس روایت کا دوسرا راوی موسی بن محمد بن ابراہیم بن الحارث التیمی ہے جس نے 151ھ میں وفات پائی
یحیی نے اس کے بارے میں کہا ہے لیس بشیءولا یکتب حدیثہ وقال مرۃ ضعیف،وہ کوئی شیءنہیں ہے اسکی حدیث نہیں لکھی جاتی اور ایک مرتبہ کہا ہے کہ وہ ضعیف ہے
بخاری نے کہا ہے کہ اس کےپاس مناکیرہیں
نسائی نے کہا ہے کہ منکر الحدیث ہے
دارالقطی نے کہا ہے کہ وہ متروک ہے [13]
نیز عسقلانی اس راوی کے بارے لکھتا ہے
احمد اس روای کی تضعیف کرتا تھا ۔
ابو داؤد نے کہا ہے کہ لا یکتب حدیثہ
ابو زرعۃ نے کہا ہے کہ وہ منکرالحدیث ہے
ابو حاتم نے اسے ضیعف الحدیث اور منکر الحدیث کہا ہے
یحیی بن معین نےاسے ضعیف الحدیث کہا ہے اور کہا ہے
لیس بشیء ولا یکتب حدیثہ و قال البخاری عندہ مناکیر
نسائی و ابو احمد حاکم نے کہا ہے کہ منکر الحدیث ہے
دارقطنی نے اسے متروک کہا ہے[14]
موسی بن محمد نے اپنے باپ محمدبن ابراہیم متوفی 120ھ کی تحریر میں پڑھا ہےکہ اس محمد بن ابراہیم کے بارے میں عقیلی نے نقل کیا ہے کہ فی حدیثہ شی یروی احادیث مناکیر [15]
نتیجہ یہ کہ یہ روایت ضعیف ہے اور قابل اعتماد نہیں ہے پس ابو بکر و عمر کاحضور(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے جنازےمیں حاضر ہونا ثابت نہیں ہے
ابن سعد نے ایک اور روایت ذکر کی ہے جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ نماز کے وقت عمر موجود تھا اور وہ یہ روایت ہے کہ (آخبرنا محمد بن عمر ،آخبرنا سفیان بن عینیہ عن جعفر بن محمد عن ابیہ قال صلی علی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)بغیر امام یدخل علیہ زمرا زمرایصلون علیہ فلما فرغوانا دی عمر خلو الجنازۃ واھلھا[16])
جواب: اس روایت کا پہلا راوی محمد بن عمر واقدی ہے جس کے بارے میں ذھبی نے کہا ہے کہ استقّر الاجماع علیٰ وھن الواقدی[17]
اور نووی نے کہا ہے واقدی کے ضعیف ہونے پر سب کا اتفاق ہے [18]
اور اس روایت کا دوسرا راوی سفیان بن عینیہ ہے جو کہ آخر میں اختلاط کا شکار ہو گیاتھا[19]
خلاصہ یہ کہ عمر کا نماز جنازہ میں ہونا ثابت نہیں ہے
علامہ شبلی نعمانی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ یہ سچ ہے کہ حضرت ابو بکر و عمر وغیرہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی تجہیز و تکفین و تدفین چھوڑ کر سقیفہ بنی ساعدہ کو چلے گئے تھے [20]
ابن شیبہ متوفی 235ھ نے اپنی کتاب المصنف میں تصریح کی ہے کہ ابو بکر و عمر ،حضور(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دفن کے وقت حاضر نہیں تھے وہ (سقیفہ بنی ساعدہ) میں انصار کے پاس تھے ان کے واپس لوٹنے سے پہلے حضور(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دفن ہو گئے تھے
حدثنا ابن نمیر عن ھشام بن عروہ عن ابیہ ان ابا بکر و عمر لم یشھدا دفن النبی کانا فی الانصار فدفن قبل ان یر جعا[21]
ابن نمیر سے مراد عبداللہ بن نمیر ہے اور اس نے 199ھ میں وفات پائی ابن حیان نے اس کو ثقات میں ذکر کیا ہے عجلی نے اس کے بارے میں کہا ہے ثقۃ صالح الحدیث
ابن سعد نے اس کے بارے میں کہا ہے کان ثقۃ کثیر الحدیث صدوق وہ ثقہ کثیرالحدیث، سچا تھا [22]
اس روایت کا دوسرا راوی ھشام بن عروہ بن زبیر ہے
ابن حبان نےاس کو ثقات میں ذکر کیا ہے و قال کان متقنا ورعا فاضلاحافظا
و قال ابن شاھین فی الثقات
ابن سعد اور عجلی نے کہا ہے وہ ثقہ تھا [23]
اور عروہ کو بھی اہل سنت کے علماء ثقہ سمجھتے ہیں کما فی التھذیب وغیرہ پس اہل سنت کے مبنی کے مطابق، ابو بکر و عمر کا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے دفن ہونے کے موقع پر حاضر نہ ہونے والی روایت، معتبر ہے
جو لوگ اپنی حکومت بنانے کی خاطر سید الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کا جنازہ چھوڑ کر سقیفہ چلے گئے تھے کیا انہوں نے رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے ساتھ وفا کی ہے ؟
سنی عالم ابن سعد نے اپنی کتاب میں ایک روایت نقل کی ہے جس میں آیا ہے (لما فرع من جھاز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)یوم الثلثاء وضع علی سریر فی بیتہ و کان المسلمون قد اختلفوا فی دفنہ فقال قائل ادفنوہ فی مسجدہ، وقال قائل ادفنوہ مع الصحابہ بالبقیع قال ابو بکر سمعت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)یقول مامات نبی الا دفن حیث یقبض[24]
جس کا خلاصہ یہ کہ مسلمانوں نے حضور(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دفن میں اختلاف کیا کسی نے کہا کہ ان کو مسجد میں دفن کیا جائے کسی نے کہا کہ ان کو ان کےاصحاب کیساتھ بقیع میں دفن کیا جائے ابو بکر نے کہا میں نے آپ سے سنا کہ فرمارہے تھےنبی کی جہاں روح قبض ہوتی ہے وہاں ہی دفن کیا جاتا ہے
جواب: اس روایت کی سند یہ ہے کہ جس کو خود ابن سعد نے نقل کیا ہے
آخبرنا محمد بن عمر آخبرنا ابرہیم بن اسماعیل بن ابی حبیبۃ عن داؤد بن الحصین عن عکرمہ عن ابن عباس
اس روایت کا پہلا راوی محمد بن عمر واقدی ہے جس کے ضعیف ہونے پر سب علماء اہل سنت کا اتفاق ہے [25]
اور اس روایت کا دوسرا راوی ابراہیم بن اسماعیل(متوفی165) ہے
نسائی نے اس راوی کو ضعیف کہا ہے قال النسائی :ضعیف
دارقطنی نے کہا ہے کہ وہ قوی نہیں ہے ۔۔ وقال الدار قطنی:لیس بالقوی۔
ابن معین نے ایک دفعہ کہا ہے وہ کوئی شیء نہیں ہےقال : لیس بشیء[26]
قال البخاری عندہ مناکیر
عسقلانی نے اپنی کتاب میں اس راوی کے بارے میں لکھا ہے
قال ابن معین: لیس بشیء
قال البخاری:منکر الحدیث
قال النسائی:ضعیف
وقال الدارقطنی:متروک[27]
اس روایت کا تیسرا راوی داؤد بن حصین ہے جس کے بارے میں سفیان بن عینیہ نے کہا ہے ہم اس کی حدیثوں سے بچتے تھے کنا لنتقی حدیثہ، وقال ابوذرعہ لیّن
وقال علی بن المدینی مارواہ عن عکرمہ فمنکر
عباس دوری نے کہا ہے کہ داؤد بن حصین میرے نزدیک ضعیف ہے ۔
و قال عباس الدوری:کان داؤد بن الحصین عندی ضعیفا[28]
عسقلانی اس راوی کے بارے میں لکھتا ہے ۔۔
قال علی بن المدینی ماروی عن عکرمہ فمنکر
وقال ابن عینیہ کنا لنتقی حدیث داؤد۔۔
قال ابو ذرعۃ لیّن
قال الساجی منکر الحدیث یتھم برائی الخوارج[29]
اس روایت کو داؤد بن حصین نے عکرمہ سے نقل کیا ہےاور یہ عکرمہ خارجی صفری ابا ضی تھایہ شخص خوارج کا نظریہ رکھتا تھا
محمد بن سیرین نے عکرمہ کے بارے میں کہا ہے کہ وہ کذاب ہے
محمد بن سعد نے کہاہے کہ اس کی حدیث قابل احتجاج نہیں ہے
علی بن عباس نے عکرمہ کے بارے میں کہا ہے کہ یہ خبیث ، میرے باپ پر جھوٹ باندھتا تھا
عکرمہ اور کثیر ایک ہی دن مرے لوگوں نے کثیر کے جنازے میں شرکت کی لیکن عکرمہ کے جنازے میں شریک نہیں ہوئے[30]
خلاصہ یہ کہ اس روایت کی سند ضعیف ہے اور یہ روایت قابل اعتماد نہیں ہے اور خود صاحب کتاب یعنی ابن سعد نے اپنی کتاب طبقات میں مصعب زبیری کا قول نقل کیا ہے : کہ عکرمہ خوارج کا نظریہ رکھتا تھانیز لکھا ہے اسکی حدیث قابل احتجاج نہیں ہے اور لوگ اس کے بارے میں باتیں کرتے تھے [31]
عکرمہ نے یہ روایت ابن عباس سے کی ہے اور خود ابن عباس کا بیٹا علی بن عباس کہتا ہے کہ یہ (عکرمہ) خبیث میرے باپ پر جھوٹ باندھتا تھا اور انکی طرف جھوٹی روایات منسوب کرتا تھا
یہ عکرمہ حضرت علی علیہ السلام کا دشمن تھا ۔۔
پس ثابت ہوا کہ دفن رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے وقت ابو بکر حاضر نہیں تھا
ابن سعد نے اپنی کتاب ج2،ص396پر ایک روایت کو نقل کیا ہے اخبرنا معن بن عیسیٰ آخبرنا مالک بن آنس انہ بلغہ آن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)لما توفی قال ناس یدفن عندالمنبر و قال آخرون یدفن بالبقیع فجاء ابو بکر فقال سمعت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)یقول ما دفن نبی الآفی مکانہ الذی قبض اللہ فیہ نفسہ
اس روایت کا حاصل بھی گذشتہ روایت سے ملتا جلتا ہے اور وہ یہ ہے کہ : مالک بن انس کہتاہے کہ اس کو خبر پہنچی ہے کہ رسولخدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی جب رحلت ہوئی تو لوگوں نے کہاکہ آپ کو منبر کے پاس دفن کیا جائے دوسروں نے کہا بقیع میں ابو بکر آیا اور اس نے کہا میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے سنا نبی دفن نہیں ہوتے مگر اسی جگہ جہاں ان کی اللہ نے روح کو قبض کیا ہو
اس روایت کا جواب یہ کہ مالک کو خبر پہنچی ہے یہ خبر ان کوکسی نے بتائی تھی پس سندارسال کی وجہ سے قابل اعتماد نہیں ہے
طبری نے ایک روایت اپنی کتاب میں ذکر کی ہے جس سے اہل سنت نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ابو بکر دفن رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے وقت حاضر تھاوہ روایت یہ ہے
حدثنا ابن حمید قال حدثنا سلمہ عن محمد بن اسحاق عن حسین بن عبداللہ عن عکرمہ مولٰی ابن عباس عن عبداللہ بن عباس قال لما ارادوا ان یحفرو الرسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و کان ابو عبیدۃ بن الجراح یضرح کحفر اھل مکہ و کان ابو طلحۃ زید بن سھل ھوالذی یحفر لا ھل المدینۃفلحد ابو طلحہ لرسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)فلما فرغ من جھاز رسول اللہ یوم الثلثاء وضع علی سریرہ فی بیتہ و قد کان المسلمون الختلفوا فی دفنہ ،فقال قائل ندفنہ فی مسجدہ و قال قائل یدفن مع اصحابہ (ای بقیع) فقال ابو بکر انی سمعت رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یقول ما قبض نبّی الایدفن حیث قبض فرفع فراش رسول اللہ الذی توفی علیہ فحفر لہ تحتہ و دخل الناس علی رسول اللہ یصلون علیہ ارسالا حتی اذا فرغ الرجال ادخل النساء حتی اذا فرغ النساء ادخل الصبیان ثم ادخل العبید ولم یؤمّ الناس علی رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) احد، ثم دفن رسول اللہ من وسط اللیل لیلۃ الاربعاء[32]
اس روایت کا حاصل بھی گذشتہ روایات سے ملتا جلتا ہے
اس روایت کے بارے میں تحقیق
یہ روایت ضعیف السند ہے اور قابل اعتماد نہیں ہے
کیونکہ اس روایت کا پہلا راوی ابن حمید ہے یعنی محمد بن حمید جو کہ ضعیف ہے [33]
قال یعقوب بن شیبۃ :کثیر المناکیریعقوب بن شیبۃ نے کہا ہے کہ یہ شخص کثیر المناکیر ہے
و قال البخاری: فیہ نظر بخاری نے کہا ہے کہ اس میں نظر ہے
کذّبہ ابوزرعۃ،ابو زرعہ نے اس شخص کی تکذیب کی ہے یعنی اسے جھوٹا کہا ہے
و قال فضلک الرازی عندی عن ابن حمید خمسون الف حدیث ولا احدث عنہ بحرف فضلک رازی نے کہا ہے میرے پاس ابن حمید سے پچاس ہزار حدیث ہے اور میں اس سے ایک حرف بھی بیان نہیں کرتا (کیونکہ یہ جھوٹا شخص ہے)
ابن خراش نے کہا ہے ہم سے ابن حمید نے حدیثیں بیان کی ہیں خدا کی قسم یہ شخص جھوٹ بولتا ہے
نیز کئی ایک نے کہا ہے کہ ان ابن حمید کان سیرق الحدیث
و قال النسائی :لیس بثقۃ،نسائی نے کہا ہے یہ شخص ثقہ نہیں ہے یعنی قابل اعتماد نہیں ہے
صالح جزرہ نے کہا ہے میں نے ابن حمید اور ابن شاذ کونی سے جھوٹ بولنے میں کسی کو ماھر نہیں دیکھا[34]
اھل ری کی ایک حفاظ اور مشایخ کی جماعت نے اجماع کیا ہے کہ ابن حمید حدیث میں انتھائی ضعیف تھا
نسائی نے کہا ہے کہ محمد بن حمید کذاب ہے[35]
خلاصہ یہ کہ یہ راوی ضعیف اور جھوٹا تھا پس اس شخص کی روایت قبول نہیں ہے(محمد بن حمید نے 248ھ میں وفات پائی ہے)
اس روایت کا دوسرا راوی سلمہ بن فضل (متو فی 191ھ) ہے جس کوابن راھویہ نے ضعیف کہا ہے ابو حاتم نے کہا ہے اسکی حدیث قابل احتجاج نہیں ہے
نسائی نے اسے ضعیف کہا ہے[36]،، ابو احمد حاکم نے کہا ہے کہ یہ ان کے نزدیک قوی نہیں ہےکما فی التھذیب
اس روایت کا تیسرا راوی محمد بن اسحاق (متوفی 151ھ)ہے جو کہ کذاب تھا
قال وھیب: سمعت ھشام بن عروۃ یقول: کذاب
وھیب نے کہا ہے کہ میں نے ھشام بن عروہ سے سنا ہے وہ کہہ رہے تھے کہ وہ کذاب ہے
وھیب نے مالک سے ابن اسحاق کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے اسے متھم کیا
قال یحیی القطان اشھد ان محمد بن اسحاق کذاب
یحیی قطان نے کہا میں گواھی دیتا ہوں کہ محمد بن اسحاق کذاب ہے
و قال النسائی وغیرہ: لیس بالقوی ،نسائی نے کہا ہے وہ قوی نہیں ہے
وقال الدارقطنی: لایحتج بہ،دارقطنی نے کہا ہے اسکی حدیث قابل احتجاج نہیں ہے
محمد بن اسحاق کو قدری ہونے کی وجہ سے ابراہیم بن ھشام امیر نے کوڑے مارے[37]
میمونی نے ابن معین سے نقل کیا ہے کہ محمد بن اسحاق ضعیف ہے[38]
اس روایت کا چوتھا راوی حسین بن عبداللہ(متوفی 141ھ)ہےجو کہ ضعیف ہے،، بقول خوداہل سنت کے ضعیف ہے
قال ابن معین:ضعیف
قال البخاری:قال علی:ترکت حدیثہ
قال ابو زرعۃ وغیرہ:لیس بقوی
وقال النسائی:متروک
مخفی نہ رہے کہ یہ راوی زندقہ کےساتھ متھم بھی تھا[39]
اس روایت کا پانچواں راوی عکرمہ ہے اور یہ شخص خوارج کا نظریہ رکھتا تھا
محمد بن سیرین نے عکرمہ کے بارے میں کہا ہے کہ وہ کذاب ہے
محمد بن سعد نے کہا ہے کہ اس کی حدیث قابل احتجاج نہیں ہے
علی بن عباس نے عکرمہ کے بارے میں کہا ہے کہ یہ خبیث میرے باپ پر جھوٹ باندھتا تھا [40]
عکرمہ نے عبداللہ بن عباس سے اس کو روایت کیا ہے اوربقول علی بن عبداللہ بن عباس کے یہ خبیث میرے باپ عبداللہ بن عباس پر جھوٹ باندھتاتھا پس عکرمہ جو کہ کذاب اور خارجی تھا اس کی روایت معتبر نہیں ہے
پس سندی حوالے سے یہ روایت ضعیف ہے چونکہ اس کےراوی ضعیف،کذاب اور متروک ہیں عکرمہ نے عبداللہ بن عباس پر جھوٹ باندھا ہے
اس روایت کی دلالت کے حوالے سے بھی ممکن ہے کہ اگرابو بکرنے کہا ہو تو ابو بکرنے رحلت رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد یہ کہا ہو گا کہ حضور(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کو ان کے حجرہ میں ہی دفن ہونا چاہیے ، چونکہ رحلت کے وقت سے ہی اصحاب میں گفتگو ہو نے لگی تھی کہ آپ کو کہاں دفن ہونا چاہیے یہ گفتگو رحلت کے وقت کی ہے نہ کہ دفن ہونے کے وقت کی
رحلت کے بعد شیخین حضور کا جنازہ چھوڑ کرسقیفہ بنی ساعدہ چلے گئے تھے
حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی تدفین آپ کی رحلت کے تین دن بعد ہوئی اور ان ایام میں شیخین سقیفہ میں ہی تھے ،جب وہ وہاں سے لوٹے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)دفن ہو چکے تھے
پس ثابت ہوا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے دفن ہونے کے موقع پر شیخین حاضر نہیں تھے
خلاصہ یہ کہ اس روایت میں اوردیگر جس روایت میں ابو بکر کا یہ قول نقل ہوا ہے قطع نظر ان کی اسناد کے یہ احتمال دیا جا سکتا ہے کہ یہ گفتگواگرہوئی ہے تو رحلت کے بعد ہوئی ہے نہ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے دفن ہونے کے وقت
اذاجاء الاحتمال فبطل الاستدال
حال یہ کہ ہم نے اس روایت کو ضعیف ثابت کر دیا ہے
[1] حوزہ علمیہ میں ہم نے اپنے درس مناظرہ میں کئی ایک اہم موضوعات مسئلہ خلافت،فدک،حدیث قرطاس،مسئلہ بنات پیغمبر اور تشریع اذان نیز مسئلہ جواز شھادت ثالثہ پر تحقیقی بحث کی ہے ، طلاب کے درمیان تمرینی مناظرے بھی کروائے ہیں اور حال میں مسئلہ نماز جنازہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تحقیقی بحث کی ہے چونکہ اس سے قبل کوئی مستقل رسالہ نظر سے نہیں گذراجس میں اہل سنت کی عمدہ روایات کا جواب دیا گیا ہو
خدا وند متعال بحق محمد و آل محمد علیہم السلام ہمیں اور ہمارے شاگردوں کو مذہب حقہ کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرنے کی توفیق نسیب فرمائے، چنانچہ ہمارے کئی ایک شاگرد پاک و ھند میں دینی خدمات انجام دے رہے ہیں الحمد اللہ رب العالمین
[2] - صحیح بخاری کتاب الجنائز باب من انتظر حتی یدفن- ص 313 طبع دار الفکر بیروت، صحیح مسلم ج 1ص 988 کتاب الجنائز طبع دار الاشاعت کراچی، سنن ترمذی کتاب الجنائز باب 49 ما جاء فی فضل الجنازہ ۔
[3] - مشکوۃ شریف، ج1 ص 383 طبع دار الاشاعت کراچی۔
[4]- المصنف لابن ابی شیبہ ج3 ص 123 کتاب الجنائز طبع دار الفکر بیروت۔
[5] - المصنف لابن ابی شیبہ ج3 ص 133۔
[6] سیرہ حلبیہ ج3،ص437،طبع دارالفکر بیروت
[7] طبقات کبری ج2،ص393۔۔394
[8] سیرہ حلبیہ ج3،ص427
[9] المصنف ج8،ص572۔۔۔۔۔۔۔الفاروق شبلی نعمانی،ص63
[10] تاریخ طبری ج2،ص238۔۔طبقات کبری ج2،ص388۔۔سیرہ حلبیہ ج3،ص426
[11] مراۃالعقول ج5،ص265
[12] میزان اعتدال ج5،ص109۔۔111۔۔112۔۔تھذیب التھذیب ج9،ص364تا368
[13] میزان اعتدال ج5،ص343 رقم 8914
[14] تھذیب التھذیب ج10،ص368
[15] تھذیب التھذیب ج9،ص6
[16] طبقات کبری ج2،ص395
[17] میزان الاعتدالج5،ص112
[18] تھذیب التھذیب ج9،ص368
[19] تھذیب التھذیب ج4،ص120
[20] الفاروق،ص63(سقیہفہ بنی بن ساعدہ،ابو بکر کی خلافت اور عمر کا استخلاف)
[21] المصنف ج8،ص572۔۔طبع دارالفکر بیروت۔۔۔ کنزالعمال ج5،ص652رقم،14139۔۔تحفۃ الحوذی ج4،ص141۔۔الفاروق،ص63
[22] تھذیب التھذیب ج6،ص58
[23] تھذیب التھذیب ج11،ص50۔۔51
[24] طبقات کبری ج2،ص395
[25] میزان الاعتدال ج5،ص112۔۔تھذیب التھذیب ج9،ص368
[26] میزان الاعتدال ج1،ص19(رقم 36)
[27] تھذیب التھذیب ج1،ص104
[28] میزان الاعتدال ج2،ص195(رقم2600)
[29] تھذیب التھذیب ج3،ص181۔۔182
[30] میزان الاعتدال ج4،ص14تا16۔۔ تھذیب التھذیب ج7،ص267تا270۔۔
[31] طبقات ابن سعدج5،ص144
[32] تاریخ طبری ج2،ص239،،حوادث سنہ11 طبع دارالکتب العلمیۃ بیروت
[33] میزان الاعتدال ج4،ص450(رقم 7453)طبع دارالفکر
[34] میزان الاعتدالج4،ص450
[35] تھذیب التھذیب ج9،ص130۔۔131
[36] میزان الاعتدال ج2،ص382(رقم 3410)۔۔ تھذیب التھذیب ج4،ص153۔۔154۔۔۔
[37] میزان الاعتدال ج4،ص389۔۔391(رقم 7198)
[38] تھذیب التھذیب ج9،ص44
[39] میزان الاعتدال ج2،ص60(رقم 2012) تھذیب التھذیب ج2،ص341۔۔342۔۔
[40] میزان الاعتدال ج 4،ص 14تا 16۔۔ تھذیب التھذیب ج7،ص267۔۔270۔۔