امام مہدی عج اہل سنت کی نگاہ میں
مقدمہ :مھدویت کا عقیدہ صرف شیعوں کےساتھ مختص نہیں (اگرچہ اس عقیدہ کو عروج مذھب شیعہ میں ملاہے )اوراہل سنت کے علماء کرام، فقھاء، محدثین، مورخین ،ادباء، مفکرین اور مفسرین بھی مھدی منتظر کے ظہور کا عقیدہ رکھتے ہیں اور مسلمانوں کا اجماع اور اتفاق ہے کہ مھدویت کا عقیدہ ضروریات دین اسلام میں سے ہے جس کا منکر دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔"المجلۃ الاسلامیۃ بالمدینۃ المنورہ" شمارہ نمبر ۲ ص ۱۴۴ میں لکھا ہے کہ امام مہدی عج کے ظہور کی تصدیق ایمان میں داخل ہے اورمھدی کے ظہور کی تصدیق یعنی رسول اکرم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قول کی تصدیق ہے اور جو مھدی کے ظہور کا انکار کرے یعنی اس نے رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات کو جھٹلایا ہے۔
اس مختصر مضمون میں اہل سنت کی معتبر کتابوں میں امام مھدی عج کے بارے میں جو احادیث وارد ہوئی ہیں ان کو بیان کرتے ہیں لیکن اس سے پہلے بعض متعصب قسم کے علماء نے یہ اعتراض کیا ہے کہ یہ مھدویت کا عقیدہاہل سنت کا نہیں ہے اور یہ صرف شیعوں کے ساتھ مختص ہے اور ان کا من گھڑت ہے مثلا ابن القیم اپنی کتاب "اعاثۃ اللفھان من مصائد الشیطان " ص ۱۱۹ میں لکھتا ہے کہ شیعہ جو امام کا انتظار کررہے ہیں یہ مثل یہودیوں کے ہے جو داود نبی کے ایک بیٹے کا انتظار کررہے ہیں لیکناہل سنت کی معتبر کتابوں کوپڑھنے سے اور وہ اصحاب جن سے یہ احادیث نقل ہوئی ہیں ،اہل سنت کے وہ علمائے کرام جنہوں نے باقاعدہ امام مھدی علیہ السلام پر مستقل کتابیں لکھی ہیں ان سب سے یہ واضح ہوتاہے کہ یہ شیعوں کی من گھڑت احادیث نہیں ہیں ۔اور دوسری طرف ایک الہی حکومت کا انتظار کہ جس میں عدل وانصاف قائم ہو، خدا وند متعال کی عبادت ہو، کسی پر ظلم نہ ہو، کیا ایسی حکومت کا انتظار ایک مسلمان کا کمال اور فضیلت شمار ہوگایا وہ یہودی بن جائےگا۔ بہت ساری احادیثاہل سنت کی معتبر کتابوں میں جیسے :۔
١۔ صحیح بخاری، جلد چہارم، کتاب الاحکام، باب نزول عیسیٰٴ بن مریم۔
٢۔ صحیح مسلم، جلد اول، باب الفتن و شرائط الساعۃ، باب نزول عیسیٰٴ۔
٣۔ متن ابن ماجہ، جلد دوم، باب خروج المہدیٴ۔
٤۔ متن الجادالوڈ، جلددوم، کتاب المہدیٴ۔
٥۔ متن ترمذی باب ماجائ فی المہدیٴ۔
ان صحاح ستہ کے علاوہ کئی اور سینکڑوں معتبر کتابوں میں مہدیٴ کے روایات موجود ہیں۔ استاد علی محمد علی نے اپنی کتاب :الامام المہدیٴ:میں علمائے اہل سنت کی 305 معتبر کتابوں کا نام لیا ہے کہ ٣٠ مصنفین نے تو حضرت ولی العصرٴ پر کتب لکھی ہیں اور ٣١ علمائ مصنفین نے اپنی کتابوں میں ایک باب مہدیٴ موعود کے ساتھ مخصوص کیا ہے اور ١٤٤ مصنفین نے مختلف مضامینوں سے اپنی کتب میں روایات مہدی موعودٴ کو لائے ہیں۔۱
1:امام مہدی عجاہل بیت رسول خدا(ص ) میں سے
روایت میں ہے کہ امام مھدی (عج)اھل بیت رسول خدا (ص)میں سے ہیں ۔رسول خدا ( ص )نے فرمایا:
«المهدىّ منّا أهل البيت»:حضرت مھدی عج ہماہل بیت میں سے ہے ۔۲
اسی طرح دوسری روایت میں بھی ہے : حدثنا ابوالعباس محمد بن یعقوب ،ثنامحمد بن اسحاق الصغانی ،ثناعمرو بن عاصم الکلایی ،ثناعمران العطان ،ثناقتادہ ،عن ابی نضرۃ ،عن ابی سعید رضی اللہ عنہ ،قال : قال رسول اللہ ؐالمھدی منااہل البیت۔۔۔
حاکم نیشاپوری نے ابن سعید خدری سے روایت نقل کی ہے کہ:رسول خدا (ص )نے فرمایاکہ مہدی (عج)ہم اہل بیت میں سے ہوگا ۔۳
2:امام مہدی عج حضرت فاطمہ س کی اولاد میں سے
سعید بن مسیب کہتا ہے کہ میں حضرت ام سلمہ کے پاس تھا کہ حضرت امام مہدی عج کا ذکر آیا تو ام سلمہ نے فرمایا : میں نے رسول خدا ( ص )سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا :المھدی من ولد فاطمہ کہ مہدی(عج) فاطمہ کی اولاد میں سے ہوگا ۔۴
اسی طرح دوسری روایت میں ہے : قال:علی بن ھلال قال: دخلت علی رسول اللہ فی شکاتہ التی قبض فیھا فاذا فاطمۃ ،سلام اللہ علیھا ۔عندراسہ ،قال: فبکت حتی ارتفع صوتھا فرفع رسول اللہ ؐطرفہ الیھا فقال :حبیبتی فاطمۃ ماالذی یبکیک ؟فقالت اخشی الضیعۃ من بعدک ۔فقال ؐیاحبیبتی ۔۔۔۔۔۔ علی فلما قبض النبی لم تبق فاطمۃ بعدہ الاخمسۃ وسبعین یوما حتی الحقھا اللہ بہ ۔
علی بن ہلال نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ میں رسول اللہ ؐکی بیماری کے آخری ایام میں کہ جس بیماری کے سبب رسول خدا ؐنے اس دنیا سے رحلت فرمائی ان کے گھر گیا اور فاطمہ زہرا ۔سلام اللہ علیھا کو ان کے والدکے سرہانے بیٹھے دیکھا کہ آپ بلند آواز سے گریہ کررہی تھیں اس وقت پیغمبر نے اپنا سر اٹھایا اور فرمایا :
میری بیٹی !کیوں اتنا رورہی ہو ؟جواب دیا :
ڈرتی ہوں کہ آپ کے بعد میراحق ضایع نہ ہوجائے ؟اس وقت رسول خدا (ص )نے فرمایا :
معلوم ہے کہ خداوند متعال نے اہل زمین پر نگاہ ڈالی اور ان میں سے آپ کے والد کو منتخب کیا پھر اسے نبوت عطاکی ؟خداوند متعال نے ایک بار پھر اہل زمین پر نگاہ ڈالی اور آپ کے شوہر کو منتخب کیا اور مجھ پر وحی نازل کی کہ میں آپ کی شادی علی سے کردوں ؟اے فاطمہ ہم اہل بیت ہی ہیں جنہیں خدا نے سات خصوصیات عطا کی ہیں کہ جو نہ ہم سے پہلے کسی کو عطا کیں اور نہ ہمارے بعد کسی کو عطا کیں ۔میں خاتم المرسلین ہوں اورتمام انبیا میں سے خدا وند متعال کے نزدیک محبوبترین اور عزیزترین ہوں اور میں آپ کا باپ ہوں ؛میراجانشین بہترین وصی ہے اور خدا وند منان کے نزدیک محبوب ترین ہے اور وہ آپ کا شوہر ہے ؛
ہمارا شہید سب سے عظیم ہے اورشہیدوں میں سے خداکے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے اور وہ حمزہ بن عبدالمطلب آپ کے والد اور آپ کے شوہر کا چچا ہے ؛
وہ ہم سے ہے جس کو خدانےدوپرعطاکیے ہیں جن کے ذریعے بہشت میں دوسرے فرشتوں کے ہمراہ پرواز کرتا ہے اورجہاں چاہے پرواز کرے وہ
جعفربن ابیطالب، آپ کے والد کے چچا کا بیٹا اور آپ کے شوہر کا بھائی ہے ۔اس امت کے دوسبط ہم میں سے ہیں یعنی تیرے دوفرزند حسن وحسین علیھماالسلام یہ دونوں جوان اہل بہشت کے سردار ہیں۔قسم اس ذات کی جس نے مجھے مبعوث فرمایا کہ ان کا والد ان سے عظیم ہے ؛
اے فاطمہ !اس ذات کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ان دونوں سے اس امت کا مہدی ہوگا جب دنیا لاقانونیت اور ہرج ومرج کا شکارہوگی فتنے اور فساد عام ہونگے راستے ناامنی کا شکارہونگے بعض لوگ دوسرے لوگوں پر حملے کریں گے بڑے چھوٹوں پر مہربانی نہیں کریں گے اور چھوٹے بڑوں کا احترام نہیں کریں گے ۔۔۔۔اس وقت خداوند متعال ان دونوں کی اولاد میں سے اس کو مبعوث فرمائے گا کہ جو گمراہی کے قلعوں کا خاتمہ کرے گا اور دلوں پر لگے تالے کھولے گا آخری زمانے میں خداکے دین کو سرافرازی عطاکرے گا جس طرح کہ میں نےرسالت ابتدائی زمانے میں خداکے دین کو قائم کیا وہ دنیا کو عدل وانصاف سے اس طرح پر کردے گا کہ جس طرح وہ ظلم وجور سے بھر چکی ہوگی ؛
اے فاطمہ غمگین نہ ہو اور گریہ مت کر تحقیق خداوند متعال تیرے لیے مجھ سے زیادہ مہربان اور رؤف ہے اس مقا م اورمنزلت کی وجہ سے جو میری نظروں میں تمہارے لیے ہے خدا نے تجھے وہ شوہر عطاکیا ہے جو نسب کے لحاظ سے ہم اہل بیت میں سے شریف ترین انسان ہے وہ امت میں سے محبوب ترین ،مہربان ترین ،عادل ترین اورداناترین ہے؛
میں نے اپنے خداسے درخواست کی ہے کہ میری اہل بیت میں سے سب سے پہلے جو مجھ سے ملے وہ تم ہو ؛
علی ؑ نے فرمایا :جب رسول خدا ؐکی رحلت ہوئی ٧٥دن سے زیادہ نہیں گزرے تھے کہ خدا نے اسےفاطمہ کو اپنے باپ کے ساتھ ملحق کردیا اور اس جہان فانی سے کوچ کرگئیں۔۵
3:حضرت عیسی ع کا امام مہدی عج کے پیچھے نماز پڑھنا
بخاری ،ابوھریرہ سے نقل کرتا ہے کہ پیغمبر نے فرمایا :کیف انتم اذا نزل ابن مریم فیکم وامامکم منکم۔
تم پرکیا گزرے گی جب عیسی ابن مریم نازل ہونگے حالانکہ امام تم میں سے ہوگا ۔۶
صحیح بخاری اور مسلم کے تمام شارحین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ حدیث امام مہدی (عج)کے بارے میں ہے اور اس مورد کے علاوہ اس کی تشریح ممکن نہیں ۔
فينزل عيسى بن مريم فيقول اميرهم: تعال صلّ لنا.فيقول:لا.انّ بعضكم على بعض امراء تكرمة اللَّه هذه الامّة.۷
شیعہ کتب میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جب حضرت عیسی نازل ہونگے تو نماز کے وقت حضرت امام مہدی عج سے کہیں گے کہ نماز پڑھائیں اور صحیح بخاری کی یہ حدیث بھی اسی بات کی طرف اشارہ کررہی ہے جس سے امام مہدی عج کی عظمت بھی سمجھی جاسکتی ہے ۔اور ساتھ یہ بھی کہ امام مہدی عج اور حضرت عیسی دو شخصیات ہیں اور ان لوگوں کا جواب بھی ہے کہ جو کہتے ہیں کہ حضرت عیسی ہی امام مہدی عج ہیں ۔ یہی ان کی اپنی معتبر کتاب کہ یہ حدیث ان کی جہالت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔
4:غیبت میں صبر کرنے والوں کا اجر
عن سعید بن جبیر عن ابن عباس ۔رضی اللہ عنھما ۔قال قال رسول اللہ ؐان علیا امام امتی من بعدی ومن ولدہ القائم المنتظر الذی اذاظھریملاالارض عدلا وقسطاکماملئت جورا وظلما ،والذی بعثنی بالحق بشیرا ونذیرا ان الثابتین علی القول بامامتہ فی زمان غیبتہ لاعزمن الکبریت الاحمر۔فقام الیہ جابربن عبداللہ الانصاری فقال یا رسول اللہ ولولدک القائم غیبۃ ؟قال ای وربی لتمحصن الذین امنوا ویمحق الکافرین ،یاجابر ان ھذاامرمن امراللہ وسرمن سراللہ ،مطوی من عباداللہ ،فایاک والشک فیہ فان الشک فی امراللہ عزوجل کفر۔
سعید بن جبیر نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم ؐنے فرمایا :تحقیق علی میرے بعد اس امت کا امام ہے اور اس کی اولاد میں سے قائم منتظر دنیا میں آئے گا جو زمین کو عدل وانصاف سے اس طرح پر کردے گا کہ جس طرح وہ ظلم وستم سے بھر چکی ہوگی ۔اس ذات کی قسم کہ جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا اور مجھے بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا تحقیق جو غیبت کے زمانے میں اس کی امامت پر ثابت قدم رہیں گے کبریت احمر سے بھی زیادہ ان کی ارزش ہوگی ۔
اس وقت جابربن عبداللہ انصاری اٹھے اور عرض کی :اے رسول خدا !کیا آپ کے بیٹے قائم آل محمد کے لیے غیبت ہوگی ؟
رسول خدا نے جواب دیا جی ہاں ،خداکی قسم ایسا ہی ہے تاکہ مومنین کو خالص بنائے اور کافروں کو تباہ وبرباد کرے اے جابراس کی غیبت خداکے کاموں میں سے ایک کام ہے اور خداکے رازوں میں سے ایک راز ہے کہ جو خدا کے بندوں سے پوشیدہ ہے پس اس میں شک کرنے سے بچ ،کیونکہ خدا کے امر میں شک اور تردید کفر ہے ۔۸
5:امام مہدی سے بیعت کا مکان
عن اعمش ،عن زربن جیش ،عن حذیفۃ ،قال : قال رسول اللہ ؐلولم یبق من الدنیا الایوم واحد لبعث اللہ فیہ رجلا اسمہ اسمی وخلقہ خلقی یکنی اباعبداللہ یبایع لہ الناس بین الرکن والمقام ،یرداللہ بہ الدین ویفتح لہ فتوحا فلایبقی علی ظھر الارض الامن یقول لاالہ اللہ فقام سلمان فقال یارسول اللہ من ای ولدک ھو؟قال من ولد ابنی ھذا،وضرب بیدہ علی الحسین ۔علیہ السلام ۔
اعمش نے زربن جیش سے اور اس نے حذیفہ سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا نے فرمایا :اگرچہ دنیا کے ختم ہونے میں صرف ایک دن باقی رہ جائے توبھی خداوند متعال ایک ایسے مرد کومبعوث فرمائے گا کہ جو میراہمنام اور اس کا اخلاق میرے اخلاق کی طرح اور اس کی کنیت ابوعبداللہ ہوگی لوگ مسجدالحرام میں رکن اور مقام کے درمیان اس کی بیعت کریں گے خداوند متعال اس کے واسطے سے لوگوں کے درمیان اپنے دین کو سرفرازی عطاکرے گا اور اس کے ہاتھ پر بہت سی فتوحات نصیب فرمائے گاپس دنیا میں کوئی ایساانسان نہیں ملے گا مگر یہ کلمہ توحید لاالہ اللہ کا اقرار کرے گا اسی دوران سلمان فارسی اٹھے اور عرض کی یارسول اللہ !یہ مرد آپ کی عترت میں سے کس کابیٹا ہوگا ؟پیغمبر اکرم نے فرمایا اس کی اولاد میں سے اور ساتھ اپنا ہاتھ امام حسین ابن علی کے کندھے پر رکھا ۔۹
6:تمام مسلمان ان کی پیروی کریں گئے
جناب ابن خلدون ” المقدمہ میں لکھتے ہیں :
اعلم انّ المشہور بین الکافہ من اہل الاسلام علی ممرالاعصار انّہ لابدّ من آخر الزمان من ظہور رجل من اہل البیت یوید الدّین ویظہر العدل ویتبعہ المسلمون ویستولی علی الممالک الاسلامیہ ویُسمی باالمہدی
جان لیں ! تمام اہل اسلام [ اعم از شیعہ وسنی ] میں یہ بات مشہور تھی اورہے کہ آخر ی زمانے میں اہل بیت پیغمبر میں سے ایک شخص ظہور فرمائے گا وہ دین کی مدد کرے گا اور عدل کا قیام کرے گا اورتمام مسلمان اس کی پیروی کریں گے ، وہ اسلامی ممالک کی سرپرستی کرے گا اوراس کا نام مہدی ہوگا۔۱۰
7:سلطنت کے لیے تیار ہوں گئے
ابن ماجہ ، حدثنا حرملة بن یحی المصری وابراہیم بن سعید الجوہر قالاثنا ابو صالح عبدالغفار بن داود والحیرانی ثنا ابن ابی الھیعہ عن ابی زرعہ عمرو بن جابر الحضرمی عن عبداللّہ بن الحرث بن جزءالزبیدی قال: قال رسول اللّہ یخرج الناس من المشرق فیوطﺅن للمہدی یعنی سلطانہ۔
حافظ ابن ماجہ متوفی ۳۷۲ھ لکھتے ہیں ، ہم سے حرملہ ابن یحیٰ مصری نے وابراہیم سعید جوہر نے حدیث بیان کی کہ ان دونوں نے کہا ہم سے عبدالغفارابن داوود حیرانی نے حدیث بیان کی ، ان سے ابی زرعہ عمرو بن جابر حضرمی نے ، ان سے عبداللہ بن حرث بن جزءزبیدی نے کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ نے فرمایا:مشرق سے لوگوں کا ایک گروہ قیام کرے گا وہ مہدی یعنی اپنے سلطان کے لیے تیار ہونگے۔۱۱
8:امام عج کے دور میں خوشحالی
ابن ابی شیبہ حدثنی مجاہد حدثنی فلان رجل من النّبی : ان المہدی لایخرج حتی یقتل النفس الزکیہ فاذا قتلت النفس الزکیہ غضب علیہم من فی السماءومن فی الارض فاتی الناس المہدی فزقّوہ کما تزفّ العروس الی زوجہا لیلة عِرسِہا وہو یملاءالارض قسطاً وعدلاً
ابن ابی شیبہ کہتے ہیں ہم سے مجاہد نے حدیث بیان کی ،ان سے ایک صحابی نے حدیث بیان کی ، کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا نفس زکیہ کے قتل کے بعد خلیفہ خدا مہدی کا ظہور ہوگا جس وقت نفس زکیہ قتل کردئے جائیں گے زمین وآسمان والے ان کے قاتلین پر غضبناک ہوں گے اس کے بعد لوگ مہدی کے پاس آئیں گے اورانہیں شوق وشتیاق سے دلہن کی طرح اراستہ وپیراستہ کریں گے اوروہ اس وقت زمین کو عدل وانصاف سے بھر دیں ( ان کے زمانے میں ) زمین اپنی پیداوار بڑھادے گی اور آسمان سے پانی خوب برسے گااور ان کے دور خلافت میں امت میں اس قدر خوشحال ہوگی کہ ایسی خوش حالی کہ اس سے پہلے لوگوں کو کبھی نصیب نہ ہوئی ہوگی۔۱۲
اسی طرح دوسری روایت میں نقل کیا گیا ہے:احمد بن حنبل ،حدثنا عبداللہ، حدثنی ابی ، حدثنا عبدالرزاق، ثنا جعفر عن المعلیٰ بن زیاد، ثنا العلاءبن بشیر، عن ابی الصدیق النااجی ، عن ابی سعید الخدری رض قال: قال رسول اللہ: ابشرکم باالمہدی یبعث اللہ فی امتی علی اختلاف من الناس وزلازل ، فیملاالارض قسطا وعدلاً کما ملئت ظلماً وجوراً یرض عنہ ساکن السماء وساکن الارض۔
امام احمد بن حنبل کہتے ہیں ، ہم سے عبداللہ نے حدیث بیان کی ، ان سے ان کے والد نے حدیث بیان کی ، ان سے عبدالرزاق نے حدیث بیان کی ان سے جعفر نے ، ان سے معلی بن زیاد نے ان سے علاءبن بشیر نے حدیث بیان کی انہوں نے ابی صدیق ناجی سے ، انہوں نے ابی سعید خدری سے کہ انہوں نے کہا: رسول اللہ نے فرمایا: میں تمہیں مہدی (عج) کی بشارت دیتا ہوں کہ وہ میری امت میں اس وقت مبعوث ہوں گے جب لوگوں میں اختلاف پھوٹ پڑے گا اورگمراہی عام ہوجائے گی ، پس وہ زمین کو عدل وانصاف سے اسی طرح بھر دیں گے جس طرح وہ ظلم وجور سے بھر چکی ہوگی ، زمین وآسمان کے رہنے والے ان سے راضی ہوں گے ۔۱۳
یہ روایت صحیح سندہے ۔الصدیق الناجی عن ابی سعید الخدری قال، قال النّبی : ینزل بامتی فی آخر الزمان بلاءشدید من سلطان فہم لم سمع بلآءاشد منہ حتّی تفیق عنہم الارض الرحبہ وحتی یملاءالارض جوراً وظلماً لایجد المومن ملجاءاً یلتجی الیہ من الظّلم فیبعث اللّہ عز وجل من عترتی فیملاءالارض قسطاً وعدلاً کماملئت ظلماً وجوراً یرضی عنہ ساکن السماءوساکن الارض لاتدخر الارض من بذرھا شیئاً الّا صبّہ اللّہ علیہم مدراراً یعیش فیہم سبع سنین او ثمان او تسع تتمنّٰی الاحیاءالاموات ممّا صنع اللّہ ۔
رسول اللہ نے فرمایا:” آخری زمانے میں میری امت کے سرپر ان کے پادشاہ کی جانب سے ایسی مصیبتیں نازل ہوں گے اس سے پہلے کسی نے اس کے بارے میں نہ سنا ہوگا اور میری امت پر زمین اپنی وسعت کے باوجود تنگ ہوجائے گی زمین ظلم وجور سے بھر جائے گی ، مومنین کا کوئی فریاد رس اور پناہ دینے والا نہ ہوگا ، اس وقت خدا وند عالم میرے اہل بیت میں سے ایک شخص کو بھیجے گا جو کہ زمین کو اسی طرح عدل وانصاف سے پر کرے گا جس طرح وہ ظلم وجور سے پرہوچکی ہوگی ۔ آسمان وزمین کے رہنے والے ان سے راضی ہوں گے ، اس کے لئے زمین اپنے خزانے اگل دے گی اور آسمان سے مسلسل بارشیں ہوںگی سات یا آٹھ یانو سال لوگوں کے درمیان زندگی بسر کرے گا اورزمین میں رہنے والوں پر [ آپ کے دور میں ] اللہ تعالیٰ کی طرف سے جورحمتیں نازل ہوں گی [ اسے دیکھ کر] جو زندہ ہیں وہ مردوں کے زندہ ہونے کی آرزو کریں گے ، اوریہ حدیث سند کے لحاظ سے صحیح ہے ۔۱۴
9:امام کے خروج پر ایمان واجب
۴۔ علامہ شیخ محمد سفاری حنبلی ؛ ” لوایع الانوار البہیّة“ میں لکھتے ہیں :
”فاالایمان بخروج المہدی واجب کما ہو مقرر عنداہل العلم ومدوّن فی عقاید اہل السنہ والجماعة“
امام مہدی عج کے خروج اور ظہور پر ایمان رکھنا واجب ہے جیسا کہ یہ بات اہل علم کے نزدیک مشخص اور عقائد ہ اہل سنت والجماعت میں لکھی ہوئی ہے ۔۱۵
10:امام مہدی کا خروج حتمی
عن ابی داوود،عن عثمان بن ابی شیبۃ ،عن فضل بن رکین ،عن قطر ،عن قاسم بن( ابی بزہ) ابی برۃ عن ابی الطفیل ،عن علی علیہ السلام عن النبی ؐوقال لولم یبق من الدھر الایوم لبعث اللہ رجلا مناہل بیتی یملاھا عدلاکماملئت جورا ۔
ابوداوودعثمان بن ابی شیبہ سے ،اس نے فضل بن رکین سے ،اس نے قطر سے ،اس نے قاسم بن ابی بزہ یا ابی برہ سے ،اس نے ابوطفیل سے اور اس نے علی ؑسے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکر م ؐنے فرمایا اگر دنیا کے ختم ہونے میں صرف ایک دن باقی رہ جائے تو بھی خداوند متعال میری اہل بیت میں سے ایک شخص کو مبعوث فرمائے گا جو دنیا کو عدل سے اس طرح پر کردے گا کہ جس طرح وہ ظلم وجور سے بھر چکی ہوگی ۔۱۶
دوسری روایت میں ہے : حافظ ترمذی حدثنا عثمان بن ابی شیبہ ، ثنا الفضل بن وکین ، ثنا فطر، عن القاسم بن ابی بزہ عن ابی طفیل عن علی رضی اللہ عنہ، عن النّبی قال لولم یبق من الدہر الاّ یوم یبعث اللہ رجلاً من اہل بیتی یملائہا عدلاً کما ملئت جوراً۔
حافظ ترمزی ، ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے حدیث بیان کی ، ان سے فضل بن وکین نے حدیث بیان کی ، ان سے فطر نے حدیث بیان کی ان سے قاسم ابن ابی بزہ نے ، ان سے ابی طفیل نے انہوں نے علی ابن طالب سے انہوں نے پیغمبر اکرم سے کہ آنحضرت نے فرمایا: اس دنیا کی عمر اگرچہ ایک دن ہی کیوں نہ رہ گئی ہو ، پھربھی اللہ تعالی اس دن کو طولانی کردے گا اوراس میں میرے اہل بیت میں سے ایک شخص کو مبعوث فرمائے گا جو زمین کو عدل وانصاف سے اسی طرح بھر دے گا جس طرح وہ ظلم وجور سے بھر چکی ہوگی۔۱۷
رسول خدا فرماتے ہیں : اگر دنیا کے ختم ہونے میں صرف ایک دن باقی رہ جائےتو خدا وند متعال اس دن کو اتنا طولانی کر دے گا کہ ہماہل بیت میں سے ایک شخص ظہور کر ے گا کہ اس کا نام میرا نام ہو گا ۔وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا ۔۱۸
رسول خدا فرماتے ہیں : دنیا اس وقت تک ختم نہیں ہو گئی جب تک ہماہل بیت میں سے ایک مرد عرب پر حکومت نہیں کرے گا اس کا نام میرا نام ہو گا ۔۱۹
ان روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اهل بيت پيامبر (ع) سے ایک شخص ضرور خروج کرے گا جو زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔
11:انتظار سب سے افضل عبادت
رسول خدا ص فرماتے ہیں :«افضل العبادة انتظار الفرج»سبب سے افضل عبادت امام زمان عج کا انتظار کرنا ہے ۔۲۰
12:علامات ظہور امام مہدی
امام زمان عج کے ظہور کے لیےاہل سنت کی کتابوں میں بھی دو طرح کی علامات کا ذکر کیا گیا ہے ۔پہلی علامت جو عام ہیں جو اس زمانے میں دیکھی جا رہی ہیں اور دوسری علامات خاص ہیں جو علامات حتمی ہیں وہ پانچ ہیں ۔وہ علامت خاص یہ ہیں۔۲۱
1 – سفيانى کا خروج
2 - صيحه آسمانى
3 - نفس زكیہ کا مرنا
4 - خسف بيداء
5 – يمانى کا خروج
عن ابی جعفررضی اللہ عنہ اذا تشبہ الرّجال بالنساءولنساءباالرجال وامات النّاس الصلواة ، والتبعوا الشہوات واستخفوا بالسمائ وتظاہروا باالزناءوشیدً والنساء،واستحلو الکذب واتبعو الہویٰ وباعوالدّین باالدنیا، وقطعوا الارحام وکان الحلم ضعفاً والظلم فخراً ، والامراءفجرة والوزراءکذبہ ، ولامناءخونة والاعوان الظلمة ، والقرّاءفسقہ وظہر الجور وکثر الطلاق وبداءالفجور وقبلت شہادة الزور وشرب الخمور ورکبت الذکور بالذکور ، واستغنت النساءباالنساء، واتخذ الفیءمغنماً والصدقہ مغنما واتقیٰ الاشرار مخانة السنتہم ، وخرج السفیانی من الشّام والیمانی من الیمان وخسف بالبیداءبین مکہ ومدینہ وقتل غلام من آل محمد بین الرکن والمقام وصاح صالح من السماءبان الحق معہ ومع اتباعہ قال فاذا خرج السندہ ظہرہ الی الکعبة واجتمع الیہ ثلثماة وثلاثة عشر رجلاً من اتباعہ فاوّل ماینطق بہ ہذہ الایة بقیة اللّہ خیر لکم ان کنتم مومنین ثم یقول: انابقیة ، وخلیفتہ ، وحجتہ علیکم ، فلا یسلم علیہ احدالاّ قال َ السلام علیک یابقیة اللّہ فی الارض ، فاذا اجتمع عندہ العقد عشرة الآف رجلٍ ، فلا یبقی یہودیَّ ولانصرانی ، ولااحد عن یعبد غیر اللّہ الاّ آمن وصدقہ وتکون الملک واحدہ ملة الاسلام ، وکل ماکان فی الارض من معبود، سوی اللہ تعالیٰ تنزّل علیہ ناراً من السماءفتحرقہ۔
ابی جعفر [ امام محمد باقر(ع) ] رضی اللہ عنہ نے فرمایا:” جب مرد عورتوں سی وضع قطع اختیار کریں اور عورتیں مردانی شکل وصورت بنائیں اور جب لوگ نماز کو ترک کریں خواہشات نفسانی کی اتباع کریں خون بہانا آسان سمجھنےلگیں اورلوگ علناً زنا کے مرتکب ہونے لگیں مرد اپنی عورتوں کے مطیع ہوجائیں جھوٹ اور رشوت حلال ہوجائے خواہشات نفسانی کی پیروی کرنے لگیں دین کو دنیا کے مقابلے میں بیچنے لگیں ، قطع رحم کرنے لگیں جب حلم کو ضعف کی علامت اور ظلم کو فخر سمجھا جانے لگے حاکمان وقت فاجر ہوں گے ان کے وزرا خائن اور ظالم حکمرانوں کے مدد گار ہوں قاریان قرآن فاسق ہوں گے اورظلم وفساد ظاہر ہوجائے اورکثرت سے طلاق ہونے لگے فسق وفجور عام ہوجائے اورجھوٹی گواہی قبول کرنے لگیں اور شراب پینے لگیں مرد ، مرد پر سوار ہوں گے اور عورتیں دوسری عورتوں کی وجہ سے مردوں سے بے نیاز ہو جائیں گیں ، فئی اور صدقہ[بیت المال] کو مال غنیمت سمجھا جانے لگے آدمی کی اس کے شر اوربد گوئی کے خوف سے اس کی عزت کی جائے ،شام سے سفیانی اور یمن سے یمانی خروج کریں ۔ اور آل محمد کے ایک جوان کو رکن یمانی اور مقام ابراہیم کے درمیان قتل کیا جائے اور آسمان سے ندا دینے والا ندا دے گا کہ حق اس کے حضرت مہدی اور اس کی اتباع کرنے والوں کےساتھ ہے پس اس وقت جب وہ حضرت مہدی (عج)ظہور فرمائیں بیداءکی زمین ، جو کہ مکہ اورمدینہ کے درمیان کےخانہ کعبہ سے ٹیک لگائے ہوں گے اور ارد گرد تین سو تیرہ (۳۱۳) افراد ان کے پیروکاروں میں سے جمع ہوجائیں گے اور جس چیز کی سب سے پہلے تلاوت ہوگی یہ آیت ہے۔” بقیة اللّہ خیر لکم ان کنتم مومنین “ اس کے بعدآپ (عج) فرمائیں گے ، میں بقیة اللہ اس کا خلیفہ اورحجت خدا ہوں پس کوئی سلام کرنے والا ایسا نہ ہوگا ، مگر یہ کہ سب کہیں گے ہمارا سلام ہو تم پر ای ذخیرہ خدا پس جب ان کے پاس دس ہزار افراد ( انصار) جمع ہوجائیں گے تو اس وقت [روی زمین پر]نہ کوئی یہودی باقی رہے گا اور نہ نصرانی اورنہ کوئی ایسا شخص جو غیر خدا کی عبادت کرتا ہومگر یہ کہ سب لوگ اس پرایمان لائیں گے اوراس کی تصدیق کریں گے (اس وقت)ایک ہی حکومت ہوگی اور وہ ملت اسلامیہ کی حکومت ہے اور سوای اللہ تعالی کے زمین پر موجود تمام معبودوں [ یعنی ہر وہ شیءجس کی لوگ پرستش کرتے ہیں] پر اللہ تعالی آسمان سے آگ نازل کرے گا اوروہ آگ سب کو جلادے گی۔۲۲
نتیجہ :
اس مختصر سے مقالے کو لکھنے کے بعد یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ اگر وجود مہدی(عج) کو عقل کے سامنے پیش کیا جائےتو اس کا انکار نہیں کیاجا سکتا، قرآن کی طرف رجوع کیاجائے تو اس موضوع کے مشابہ بہت کچھ ملے گا، حدیث نبوی کی طرف مراجعہ کیاجائے ، حدیثیں بہت زیادہ ملتی ہیں ، اہل سنت والجماعت کی کتابوں میں تلاش وجستجو کی تو سب کو اپنا ہم عقیدہ پایا، پس کس طرح یہ مسئلہ مہدی(عج) مسائل خرافی میں سے ہے ؟ علماءاہل سنت کے بہت سے فاضل مصنف حضرت مہدی(عج) کے بارے میں لکھتے ہیں” پس یہ مہدی(ع) جسے ترمذی، ابن ماجہ ، ابی داوود، ابن حجر ، ابن صباغ مالکی وصفدی وغیرہ نے ذکر کیا ہے یہ وہی مہدی موعود ہیں جن کے وجود کے شیعہ قائل ہیں :اگر حضرت مہدی(عج)کا وجود مسائل خرافی میں سے ہے تو اس کے ،ذمہ دار خود پیغمبراکرم(ص)ہیں ، اور وہ لوگ جو وجود مہدی(ع) کا مذاق اڑاتے ہیں حقیقت میں یہ لوگ اسلام اور رسول اکرم (ص)کا مذاق اڑاتے ہیں ، کیوں کہ پیغمبراکرم (ص)نے فرمایا :” من انکر المہدی فقد کفر بما انزل علیٰ محمد “ جس نے مہدی کا انکار کیا وہ کافر ہوگیا .