ایك آیت  (۲۹) سورہ شوری كی چار آیتیں  (۳۰) سورہ زخرف كی دو آیتیں (۳۱) سورہ دخان كی چار آیتیں  (۳۲) سورہ فتح كی دو ایتیں (۳۳) سورہ محمد كی ایك آیت (۳۴) سورہ فتح كی دو آیتیں  (۳۵) سورہ ق كی دو آیتیں (۳۶) سورہ ذرایات كی ایك آیت (۳۷) سورہ قمر كی ایك آیت   (۳۸) سورہ دہر كی ایك آیت (۳۹) سورہ قمر كی ایك آیت (۴۰) سورہ مجادلہ كی ایك آیت (۴۱)سورہ صف كی ایك آیت  (۴۲) سورہ تغابن كی ایك آیت (۴۳) سورہ جن كی ایك آیت  (۴۴) سورہ مدثر كی تین آیتیں (۴۵) سورہ تكویر كی ایك آیت (۴۶) سورہ بروج كی ایك آیت :غرض قرآن حكیم كے ۱۴۴ سورہ میں سے ۶۴ سوروں كی یہ ۱۰۴ آیتیں ہیں جو مختلف کتابوں  میں سےنقل كی گئیں ہیں ـاب اس مقالہ میں ان آیات میں سے بعض کو تفصیل کے ساتھ ذکر کرتا ہوں۔


۱۔ الَّذينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ ۔ سورہ بقرہ ۲داود بن کثیر رقی امام صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے اس آیہ شریفہ الذین یومنون بالغیب کے بارے میں فرمایا: من اقرّ بقيام القائم انّه الحقّیعنی وہ لوگ کہ جو قائم (مہدی) علیہ السلام کے قیام اور ظہور کی حقانیت پر ایمان رکھتے ہوں ۔
۲۔ وَ إِذِ ابْتَلى‏ إِبْراهيمَ رَبُّهُ بِكَلِماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۔سورہ بقرہ ۱۲۴
محمد بن زیاد ازدی نے  مفضل بن عمر سے روایت کی ہے، وہ بتاتے تھے کہ میں نے امام صادق علیہ السلام سے اس آیہ شریفہ و اذاابتلی ابراھیم ربہ بکلمات فاتمھنکے بارے میں سوال کیا تو حضرت نے فرمایا: یہ کلمات تھے کہ جنہیں حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے پروردگار سے حاصل کیا اور اللہ تعالی نے انہی کلمات کی بنا پر ان کی توبہ قبول کی اور اس انداز سے فرمایا: اے میرے پروردگار میں تجھ سے بحق محمد و علی فاطمہ و حسن و حسین چاہتا ہوں کہ میری توبہ قبول فرما اور اللہ تعالی نے ان کی توبہ قبول فرمائی، وہ توبہ قبول کرنے والا اور مہربان ہے۔ میں نے عرض کیا ہے اے فرزند رسول یہاں پروردگار کی فاتمھن سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا یعنی بارہ اماموں کو قائم کے ساتھ کامل کر دیا کہ جن میں سے نو امام حسین کی اولاد میں سے امام ہیں۔  
۳۔ أَيْنَ ما تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللَّهُ جَميعاً إِنَّ اللَّهَ عَلى‏ كُلِّ شَيْ‏ءٍ قَديرٌ۔سورہ بقرہ ۱۴۸
ابوخالد کابلی امام زین العابدین سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:المفقودون من فرشهم ثلاث مائة و ثلاثة عشر رجلا، عدة أهل بدر، فيصبحون بمكة، و هو قوله عز و جل: أَيْنَ ما تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللَّهُ جَمِيعاً و هم أصحاب القائم ۔ یعنی وہ لوگ جو رات کو اپنے بستروں سے غائب ہوجائیں گے ،وہ اصحاب بدر کی مانند تین سو تیرہ افراد ہوں گے کہ صبح کو سب کے سب مکہ (امام کی خدمت) میں حاضر ہوں گے اور یہ اللہ تعالی کا کلام ہے کہ وہ فرما رہا ہے:اینما تکونوا یات بکم اللہ جمیعا تم جہاں بھی رہو اللہ تعالی تم سب کو لے آئے گا اور وہ سب قائم علیہ السلام کے اصحاب ہوں گے۔
4۔ وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْ‏ءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوعِ وَ نَقْصٍ مِنَ الْأَمْوالِ وَ الْأَنْفُسِ وَ الثَّمَراتِ وَ بَشِّرِ الصَّابِرين ۔سورہ بقرہ ۱۵۵
امام صادق علیه السلام فرماتے ہیں خداوند متعال نے ہمارے  قائم کے لیے کچھ نشانیاں بیان کی ہیں ۔محمد بن مسلم نے سوال کیاوہ نشانیاں کیا ہے ؟امام علیہ السلام نے فرمایااس کےبارے میں خدا نے سورہ بقرہ میں فرمایاہے :اور ہم یقینا تمہیں تھوڑے خوف تھوڑی بھوک اور اموالًنفوس اور ثمرات کی کمی سے آزمائیں گے اور اے پیغمبر آپ ان صبر کرنے والوں کو بشارت دے دیں۔
اس آیت میں خدا کا مقصود یہ ہے کہ مومنون کو امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور سے پہلے مصبیتوں میں گرفتار کروں گا اور آخری حکومت کے وقت میں مہنگائی کی وجہ سے لوگ بھوک میں گرفتار ہوں گئے بیماریاں عام ہوجائے گئی جس کی وجہ سے لوگ جوانی میں مرنے لگے گئے کھیتی باڑی میں منفع بہت کم ہو گا اور آخر میں میں صابروں کو خوشخبری دوں گا کہ امام مہدی علیہ السلام کا فرج بہت قریب ہے ۔
5۔ أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ وَ أُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُون ۔سورہ بقرہ ۱۵۷
اولئک ھم المھتدون (بقرہ ۱۵۷۔اولئک ھم المفلحون (بقرہ آیت ۵۔اولئک ھم الفائزون (النور آیت۵۲۔عتیق بن یعقوب عبداللہ بن ربیعۃ سے نقل کرتے ہیں کہ وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کی فضیلت میں ایک طولانی حدیث نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں :وہ جن کا آپ کے بعد انتظار کیا جائے گا ان کا نام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جیسا ہوگا وہ عدل و انصاف کا حکم دیں گے اور عدل کو قائم کریں گے برائیوں سے روکیں گے اور خود بھی پرہیز کریں گے، اللہ تعالی اس کے وسیلہ سے تاریکیاں اٹھا لے گا اور شک و تردید اور دل کا اندھا پن بھی اس کے وسیلہ سے ختم ہوجائے گا اس زمانہ میں بھیڑیا اور بھیڑ ایک ساتھ ہوں گے ،اھل آسمان فضا میں پرندے اور دریاؤں میں مچھلیاں اس سے راضی ہوں گی اور کہیں گے کیسا بہترین انسان ہے کہ اللہ تعالی کی اس پر عنایت ہے بشارت ہوگی ان لوگوں کے لئے کہ جو اس کی اطاعت کریں اور ہلاکت ہو ان پر جو اس کی  نافرمانی کریں، اور بشارت ہو ان لوگوں پر جو اس کی رکاب میں جہاد کریں اور ہلاکت وہ ان پر جو اس کی نافرمانی کریں، اور بشارت ہو ان لوگوں پر جو اس کی رکاب میں جہاد کریں کفار کو قتل کریں یا شہید ہوجائیں (یہ وہ ہیں کہ جن کے بارے میں قرآن میں آیا ہے ) اولئک علیھم صلوات من ربھم و رحمۃ ان پر پروردگار کا درود اور رحمت ہے۔اولئک ھم المھتدون یہ وہ ہیں کہ جو ھدایت یافتہ ہیں اولئک ھم المفلحون یہ وہ جو فلاح پانے والے ہیں اولئک ھم الفائزون یہ وہ ہیں کہ جو کامیاب ہونے والے ہیں۔
۶۔ مَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْراً كَثيراً وَ ما يَذَّكَّرُ إِلاَّ أُولُوا الْأَلْباب سورہ بقرہ ۲۶۹
ابوبصیر نے امام باقر علیہ السلام سے پوچھا: اس آیت و من یوت الحکمۃ فقد اوتی خیرا کثیرا سے کیا مراد ہے تو حضرت نے فرمایا : معرفۃ الامام و اجتناب الکبائر ۔و من مات و لیس فی رقبۃ بعیۃ الامام مات میۃ الجاھلیۃ ولا یعذر الناس حتی یعرفوا امامھم فمن مات و ھو عارف بالامامۃ لم یضرہ تقدم ھذا الامر و تاخر فکان کم ھو مع القائم فی قسطاطہ امام کی معرفت اور گناہ کبیرہ سے پرہیز اور جو اس دنیا سے جائے اس کی گردن پر امام کی بیعت نہ ہو، وہ زمانہ جاھلیت کے لوگوں کی مانند دنیا سے گیا ہے اور وہ لوگ اپنے امام کی شناخت میں معذور نہیں ہیں اور جو بھی امام کی معرفت میں مر جائے اسے ظہور میں تقدم و تاخر کا نقصان نہیں ہوگا، وہ اس شخص کی مانند کہ جو قائم کے خیمہ آپ کے ساتھ ہے، ابو بصیر کہتا ہے تو پھر امام کچھ لمحات خاموش رہے اور پھر فرمایا: لابل کمن قاتل بعد نہیں بلکہ وہ اس شخص کی مانند ہے جو کہ ان کی رکاب میں جہاد کررہا ہو، پھر امام نے فرمایا: لابل واللہ کمن اشھد مع رسول اللہ نہیں بلکہ خدا کی قسم وہ اس شخص کی مانند ہے کہ جو رسول اللہ کی رکاب میں شہید ہوا۔
۷۔ وَ لَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُها عِبادِيَ الصَّالِحُونَ ۔سورہ انبیاء 105”اور ہم نے ذکر کے بعد زبور میں بھی لکھ دیا ھے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ھی ھوں گے“۔
حضرت ا مام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:”زمین کو ارث میں لینے والوں سے مراد نیک اور صالح بندے ھیں، جو امام مہدی علیہ السلام اور ان کے ناصر و مددگار ھیں“۔
۸۔وَنُرِیدُ اٴَنْ نَمُنَّ عَلَی الَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا فِی الْاٴَرْضِ وَنَجْعَلَہُمْ اٴَئِمَّةً وَنَجْعَلَہُمْ الْوَارِثِینَ ۔سورہ قصص ۵
”اور ہم یہ چاہتے ھیں کہ جن لوگوں کو زمین میں کمزور کر دیا گیا ھے ان پر احسان کریں اور انھیں لوگوں کا پیشوا بنائیں اور زمین کے وارث قرار دیدیں “۔
حضرت امام علی علیہ السلام نے فرمایا:
”(مستعضفین)سے مراد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آل ھے، خداوندعالم کوشش اور پریشانیوں کے بعد اس خاندان کے ”مہدی“ کے ذریعہ انقلاب برپا کرائے گا اور ان کو اقتدار اور شکوہ و عظمت کی اوج پر پہنچادے گا نیز ان کے دشمنوں کو ذلیل و رسوا کردے گا“۔
۹۔بَقِیَّةُ اللهِ خَیْرٌ لَکُمْ إِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ ۔۔۔ سورہ ھود ۸۶
”اللہ کی طرف کا ذخیرہ تمہارے حق میں بہت بہتر ھے اگر تم صاحب ایمان ھو۔۔۔“۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:”جس وقت امام مہدی علیہ السلام ظھور فرمائیں گے خانہ کعبہ کی دیوار سے تکیہ لگا ئیں گے اور سب سے پہلے اسی آیت کی تلاوت فرمائیں گے اور اس کے بعد فرمائیں گے: اَنَا بَقِیَّةُ اللهِ فی اٴَرْضِہِ وَ خَلِیفَتُہُ وَ حُجَّتُہُ عَلَیکُمْ“ میں زمین پر ”بقیة اللہ ، اس کا جانشین، اور تم پر اس کی حجت ھوں۔ پس جو شخص بھی آپ کو سلام کرے گا تو اس طرح کھے گا:اَلسّلامُ عَلَیکَ یَا بَقِیَّةَ اللهِ فی اٴَرْضِہِ ۔
۱۰۔اعْلَمُوا اٴَنَّ اللهَ یُحْیِ الْاٴَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا قَدْ بَیَّنَّا لَکُمْ الْآیَاتِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ۔
سورہ حدید ۱۷
”یاد رکھو کہ خدا مردہ زمینوں کا زندہ کرنے والا ھے اور ہم نے تمام نشانیوں کو واضح کر کے بیان کر دیا ھے تاکہ تم عقل سے کام لے سکو“۔
حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
”مراد یہ ہے کہ خداوندعالم زمین کو حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے وقت ان کی عدالت کے ذریعہ زمین کو زندہ فرمائے گا جو گمراہ حکام کے ظلم و ستم کی وجہ سے مردہ ہوچکی ہوگی“۔
۱۱۔السَّيْرَ سيرُوا فيها لَيالِيَ وَ أَيَّاماً آمِنينَ۔سورہ سباء آیت۱۸
زہیر بن شبیب بن انس امام صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ابوبکر حضری کے سوال کے جواب میں فرمایا: یا ابابکر سیرو فیھا لیالی و ایاما امنین فقال مع قائمنا اھل البیت و اما قولہ فمن دخل کان آمنا فمن بایعہ و دخل معہ و مسح علی یدہ و دخل فی عقد اصحابہ و کان امنا اے ابوبکر اس زمانہ میں امن و سکون سے شب و روز گزارو گے پھر فرمایا ہم اھل بیت کے قائم کے ساتھ یہ اللہ تعالی کا کلام ہے فمن کان دخلہ کان امنا پس جو اس میں داخل ہو وہ امن سے ہے یعنی جس نے اس کی بیعت کی اور اس کے ساتھ داخل ہوا اور اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ پر مسح کیا تو وہ ان کے اصحاب کے زمرہ میں داخل ہوجائے گا اور امن و سکون سے رہے
گا ۔
۱۲۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ في‏ لَيْلَةِ الْقَدْرِ۔ سورہ قدر ۱ہم نے قرآن کو شب قدر میں نازل کیا اور تم کیا جانو شب قدر کیا ہے، شب قدر ہزار مہینوں سے افضل ہے، اس رات فرشتے اور رُوح القدس (جبرائیل) خدا کی اجازت سے تمام احکام اور تقدیروں کو لے کر نازل ہوتے ہیں یہاں تک کہ سحر نمودار ہو جائے۔چنانچہ سورہ  قدر کی آیات سے واضح طور پر اس بات کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ ہر سال ایک شب ایسی آتی ہے جو ہزار مہینوں سے افضل اور بہتر ہوتی ہے۔ وہ احادیث جو اس سورہ ¿ دخان کی ابتدائی آیات کی تفصیل کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں سے بھی یہی سمجھ میں آتاہے کہ شب قدر میں فرشتے پورے ایک سال کے مقدرات کو ”زمانہ کے ولی مطلق“ کی خدمت میں لے کر آتے اور اس کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ پیغمبر اسلام کے زمانہ میں فرشتوں کے نازل ہونے کی جگہ آپ کا گھر تھا جب ہم معرفت قرآن کے سلسلہ میں اس نتیجہ تک پہنچتے ہیں کہ شب قدر ہر سال آتی ہے تو ہمیں اس بات کی طرف توجہ کرنی چاہیے کہ صاحبِ شب قدر کو بھی ہمیشہ موجود ہونا چاہیے ورنہ پھر فرشتے کس پر نازل ہوتے ہیں۔ چونکہ قرآن کریم قیامت تک ہے اور حجت ہے۔ اسی طرح صاحب شب قدر کا وجود بھی حتمی ہے اور وہ بھی حجت ہے۔ اس زمانے میں حجت خدا حضرت ولی العصر علیہ السلام کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت امام علی رضا علیہ السلام فرماتے ہیں:”امام زمین پر خدا کا امین ہوتا ہے اور لوگوں کے درمیان حجت خدا ہوتا ہے آبادیوں اور سرزمینوں پر خدا کا خلیفہ ہوتا ہے“۔مشہور اسلامی ریاضی دان اور معروف فلسفی و متکلم خواجہ نصیر الدین طوسی فرماتے ہیں:”امامؑ کی جانب سے انسانوں اور پوری کائنات کےلئے یہ بات واضح ہے کہ لطف الٰہی کا انحصار امام علیہ السلام کی بیعت میں ہے، امام کا وجود بجائے خود ایک لطف الٰہی ہے، امور کی انجام دہی اس کا دوسرا لطف ہے اور اس کی غیبت خود ہم سے مربوط ہے یعنی انکی غیبت کا سبب خود ہم انسان ہیں کہ ہم نے ان کی نابیعت نہیں کی“۔
۱۳۔وقُلْ جاءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْباطِلُ إِنَّ الْباطِلَ كانَ زَهُوقاً۔سورہ لإسراء ۸۱
یعنی حق آیا اور باطل مٹ گیا اور یقیناً باطل مٹنے ہی والا تھا ـ
و في الكافي عن الباقر عليه السلام في هذه الآية إذا قام القائم ذهبت دولة الباطل. و في الخرايج عن حكيمة لمّا ولد القائم كان نظيفاً مفروغاً منه و على‏ ذراعه الأيمن مكتوب جاءَ الْحَقُ‏۔
كتاب شواہد النبوہ ـ كتاب دفیات الاعیان اور كتاب روضة الاحباب، ان تینوں كتابوں كے مصنفین نے اس آیہ كریمہ كو امام زمانہ (ع) كی طرف منسوب فرمایا ہے اور تحریر ہے كہ امام زمانہ (ع) كی ولادت كے وقت یہ آیة كریمہ آپ كے داہنے بازو پر منقوش تھی ـ شیخ عباس قمی نے اپنی كتاب منتہی الآمال میں بھی یہ آیة كریمہ كو امام (ع) كی طرح منسوب فرمایا اور تحریر فرمایا ہے كہ ولادت امام كے وقت یہ آیة شریفہ امام (ع) كے داہنے بازو پر منقوش تھی ـ  اور یہ بھی ملتاہے كہ امام (ع) كے ظہور كے وقت خانہ كعبہ كی دیوار سے پشت لگائے ہوئے عوام الناس كی طرف مخاطب ہوكر یہ آیہ كریمہ امام (ع) جبرئیل (ع) آسما ن سے اس آیت كی تلاوت فرمارہے ہوگے ـ آخر میں اس دعا كے ساتھ اس مختصر سے مقالے كو ختم كرنا چاہتا ہوں كہ پروردگا را ہمیں اہلبیت (ع) كی خصوصیت امام زمانہ (ع) كی معرفت عطا فرماتا كہ ہم تیری معرفت حاصل كرسكیں اور ان كے ظہور میں تعجیل فرما نیز ہمیں ان كے خادمین و انصار میں شمار فرما ـ  
۱۴۔ قُلْ أَ رَأَيْتُمْ إِنْ أَصْبَحَ ماؤُكُمْ غَوْراً فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ‏سورہ ملک ۳۰
فقلت: بأبي و أمي يا رسول الله، من هذه المهدي؟ قال: «يا عمار، إن الله تبارك و تعالى عهد إلي أنه يخرج من صلب الحسين أئمة تسعة، و التاسع من ولده يغيب عنهم، و ذلك قوله عز و جل: قُلْ أَ رَأَيْتُمْ إِنْ أَصْبَحَ ماؤُكُمْ غَوْراً فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ‏ تكون له غيبة طويلة، يرجع عنها قوم و يثبت عليها آخرون، فإذا كان في آخر الزمان يخرج فيملأ الدنيا قسطا و عدلا كما ملئت جورا و ظلما

© COPYRIGHT 2020 ALJAWAAD ORGAZNIZATION - ALL RIGHTS RESERVED
گروه نرم افزاری رسانه