امام مھدی عج ہمارے اعمال پر ناظر اور ہماری التجا سنتے ہیں ہماری مشکلات کے حل میں ہماری مدد فرماتے ہیں اگر ان کی نگاہ کرم ہم پر نہ ہوتی تو دشمنان دین ہمیں نگل جاتے۔اور عریضوں کا امام عج کی خدمت میں پہنچ جانا اس میں کچھ تعجب نہیں ہے بلکہ جب مومنین عریضے لکھ رہے ہوتے ہیں تو اس وقت بھی امام عج اپنے علم امامت کے ساتھ ان کی درخواست اور حاجات کو جانتے ہیں۔ ایک مومنہ کچھ مال(سونے کی کی کنگنی دو انگوٹھیاں اور تین حلقے جن میں جواھرات تھے)لے کر حسین بن روح نائب امام زمان عج کے پاس آئی اور ان سے علامت اور نشانی کا مطالبہ کیا کہ میرے پاس کیا ہے ؟کیونکہ آپ امام عج کے نائب ہیں تو ان کا فرمانااس مال کو دریا میں ڈال دو (یہ ہم تک پہنچ جائے گا)اور مومنہ چلی گئی اور اس مال کو دریا دجلہ میں ڈال دیا اور پھر ان کے پاس واپس آئی تو حسین بن روح نے اپنی خادمہ کو حکم دیا کہ حجرہ سے اس مال کو لے کر آو تو وہ اس مال کو لے آئی تو اس مومنہ سے کہا کہ اپنے مال کو پہچانو تو اس نے تصدیق کی کہ یہ وہیں مال ہے جسکو دریا دجلہ میں ڈال کر آئی ہوں یہ ہے قدرت امام عج کے نائب خاص کی جو کہ واسطہ تھے مومنین اور امام عج کے درمیان۔محدث جلیل القدر شخ عباس قمی اپنی کتاب مفاتیح الجنان مترجم ص896 طبع انصاریان زیارت نواب الاربعہ ۔میں ذکر فرماتے ہیں کہ کوئی بھی ائمہ کےخاص اصحاب میں ان کی بزرگی و جلالت قدر تک نہیں پہنچ سکتے کیونکہ تقریبا ستر سال(70) تک یہ بزرگوار منصب سفارت پر رہےاور امام عج اور ان کے ماننے والوں کے درمیان واسطہ بنے رہے جن کے ہاتھوں پر بہت سے کرامات و معجزات جاری ہوئے اور کہا گیا ہے کہ بعض علماء ان کی عصمت کے قائل ہوئےہیں اور پوشدہ نہیں ہے کہ جسطرح یہ بزرگوار اپنی زندگی میں امام عج اور انکی رعیت کے درمیان واسطہ تھے اور اس واسطہ کے لوازم میں لوگوں کی حاجات ، خطوط اور عر یضوں کا امام عج تک پہنچانا تھا اب بھی وہ ویسے ہی منصب شریف پر فائز ہیں انہیں یہ فخر حاصل ہےاور لا محالہ وہ خطوط جوحاجات اور سختیوں پر مشتمل ہیں ان کے واسطے سے امام عج تک پہنچتے ہیں جو ثابت ہے۔خلاصہ یہ کہ عر یضہ جات امام عج تک پہنچتے ہیں کما فی البحار-