خرابی
  • اس منظر کیلیے سانچہ دستیاب نہیں ہے۔ براہ کرم سائٹ کے منتظم سے رابطہ کریں۔

احکام مبطلات روزہ

احکام مبطلات روزہ

 

کھانا اور پینا

مسئلہ ۴۴۳:روزہ دار جان بوجھ کر کچھ کھائے یا پیئے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

مسئلہ ۴۴۴: اگر روزہ دار کے منہ میں کھانے کے وہ ریزے جو اس کے دانتوں میں بچ جاتے ہیں ان کو جان بوجھ کر اندر لے جائے تو اس سے بھی روزہ باطل ہوجاتا ہے۔

مسئلہ ۴۴۵: اگر روزہ دار بھول کر کوئی چیز کھا ، پی لے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوتا۔

مسئلہ ۴۴۶: لعاب دہن کا نگلنا روزے کو باطل نہیں کرتا اگرچہ وہ زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔

مسئلہ ۴۴۷: سر اور سینے کی بلغم اگر منہ کے دھانے تک نہ پہنچی ہو تو اس کے نگلنے سے روزہ باطل نہیں ہوتا لیکن اگر منہ کے دھانے تک پہنچ جائے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ اس کو نہ نگلا جائے۔

مسئلہ ۴۴۸: انسان کمزوری کی وجہ سے روزہ نہیں توڑ سکتا لیکن اگر کمزوری اس حد تک ہو کہ روز دار کے لیے عام طور پر قابل برداشت نہ ہو تو پھر روزہ توڑا جاسکتا ہے۔

مسئلہ ۴۴۹: دوا کی جگہ استعمال ہونے والے یا عضو کو بے حسن کر دینے والے انجکشن کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ روزہ دار اس انجکشن سے پرہیز کرے کہ جو پانی اور غذا کی جگہ استعمال ہوتا ہے۔

غلیظ غبار کا حلق تک پہنچانا

غلیظ غبار کا حلق تک پہنچانا

مسئلہ ۴۵۰: احتیاط واجب کی بناء پر غلیظ غبار کا حلق تک پہنچانا روزے کو باطل کر دیتا ہے خواہ وہ غبارکھانے والی چیز کا ہو مثلاً آٹے کا غبار یا غیر کھانے والی چیز مثلاً مٹی وغیرہ کا غبار ہو۔

مسئلہ ۴۵۱: احتیاط واجب یہ ہے کہ روز دار گاڑھی بھاپ اور سگریٹ و تمباکو جیسی چیزوں کا دھواں بھی حلق تک نہ پہنچائے۔

تمام سر کا پانی میں ڈبونا

تمام سر کا پانی میں ڈبونا

مسئلہ ۴۵۲: اگر روزہ دار جان بوجھ کر پورے سر کو پانی میں ڈبو دے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

مسئلہ ۴۵۳: درج ذیل موارد میں روزہ باطل نہیں ہوتا:

  1. vبھول کر سر کو پانی میں ڈبو دے
  2. vسر کا کچھ حصہ پانی میں ڈبو دے
  3. vآدھے سر کو ایک مرتبہ اور باقی آدھے سر کو دوسری مرتبہ پانی میں ڈبو دے
  4. vبے اختیار پانی میں گر جائے
  5. vدوسرا شخص زبردستی اس کے سر کو پانی میں ڈبو دے
  6. vشک کرے کہ اس کا پورا سر پانی میں ڈوبا ہے یا نہیں

مسئلہ ۴۵۴: اگر کوئی شخص بھول جائے کہ روزے سے ہے اور غسل کی نیت سے سر کو پانی میں ڈبو دے تو اس کا روزہ اور غسل دونوں صحیح ہیں۔

قے کرنا

قے کرنا

مسئلہ ۴۵۵: ہر وقت روزہ دار جان بوجھ کر قے ، اگرچہ بیماری کی وجہ سے ہی کیوں نہ ہو ، اس کا روزہ باطل ہوجائے گا۔

مسئلہ ۴۵۶: اگر روزہ دار بھول جائے کہ اس کا روزہ ہے یا بے اختیار قے کرے، تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا۔

جماع

جماع

مسئلہ ۴۵۷: روزے کی حالت میں جماع کرنا روزے کو باطل کر دیتا ہے۔

استمناء

مسئلہ ۴۵۸: اگر روزہ دار استمناء کرے یعنی ایسا کام کرے کہ اس کی منی خارج ہو جائے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

مسئلہ ۴۵۹: اگر بے اختیار روز دار کی منی خارج ہو جائے مثلاً اگر سوتے وقت مجنب ہوجائے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہے۔

مسئلہ ۴۶۰: استمنا کرنا حرام ہے خواہ روزے سے نہ بھی ہو۔

صبح کی اذان تک جنابت پر باقی رہنا

صبح کی اذان تک جنابت پر باقی رہنا

مسئلہ ۴۶۱: اگر مجنب شخص جان بوجھ کر صبح کی اذان تک غسل نہ کرے یا اگر اس کا وظیفہ تیمم ہے اور وہ تیمم نہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہے۔

مسئلہ ۴۶۲: جس شخص کا وظیفہ تیمم ہے تو اس کے لیے احوط یہ ہے کہ صبح صادق (اذان )تک بیدار رہے۔

مسئلہ ۴۶۳: اگر ماہ رمضان میں کوئی شخص غسل یا تیمم کو بھول جائے اور ایک یا کچھ دن گزر جانے کے بعد اس کو یاد آجائے تو ان روزوں کی قضا کرے۔

مسئلہ ۴۶۴: اگر مجنب شخص یہ جانتا ہو کہ ماہ رمضان کی رات میں اذان سے پہلے غسل کے لیے بیدار نہیں ہوگا تو اسے چاہیے کہ غسل کیے بغیر نہ سوئے اور اگرسو جائے اور بیدار نہ ہو تو اس کا روزہ باطل ہے اور اس پر قضا اور کفارہ واجب ہے۔

مسئلہ ۴۶۵: اگر کوئی ماہ رمضان کے روزے کی قضاء کرنا چاہتا ہے اور اذان صبح تک جان بوجھ کر جنب رہے اس کا روزہ صحیح نہیں ہے۔

مسئلہ ۴۶۶: اگر روزہ دار کو نیند میں احتلام ہوجائے تو روزہ باطل نہیں ہے۔

مسئلہ ۴۶۷: اگر عورت حیض یا نفاس سے اذان صبح سے پہلے پاک ہوجائے تو وہ غسل کرکے روزہ رکھے۔

مسئلہ ۴۶۸: اگر روزہ دار عورت کو دن میں خواہ غروب کے نزدیک ہی حیض یا نفاس ہوجائے تو اس کا روز باطل ہے۔

مسئلہ ۴۶۹: بعض وہ کام جو روزہ دار کے لیے مکروہ ہیں:

  1. 1.ہر وہ کام کرنا کہ جو ضعف (کمزوری) کا باعث بنے مثلاً خون دینا۔
  2. 2.خوشبو والی بُوٹیوں کو سونگھنا (عطر لگانا مکروہ نہیں ہے)
  3. 3.وہ لباس جو پہنا ہوا ہے اس کو پانی سے گیلا کرنا۔
  4. 4.بغیر ضرورت کے پانی یا کوئی اور چیز منہ میں ڈالے۔
  5. 5.عورت کا پانی میں بیٹھنا
  6. 6.تر مسواک کرنا

روزے کی قضا اور کفارہ

روزے کی قضا اور کفارہ

مسئلہ ۴۷۰: اگرکوئی شخص اپنے وقت پر روزہ نہیں رکھتا تو اسے چاہیے کہ اس روزے کی جگہ روزہ رکھے وہ روزہ جو کہ اپنے وقت کے بعد رکھا جاتا ہے اسے قضا روزہ کہتے ہیں۔

روزے کا کفارہ

روزے کا کفارہ

ہر وہ چیز کہ جو گناہ کو ختم کر دیتی ہے اس کو کفارہ کہتے ہیں اور اگرکوئی شخص جان بوجھ کر ماہ رمضان کے روزے کو باطل کر دے تو اس پر قضا اور کفارہ واجب ہوجاتا ہے اس کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے:

  1. vغلام کو آزاد کرنا (البتہ ا س زمانے میں غلام نہیں ہیں)
  2. vدو مہینے روزہ رکھنا، پہلے اکتیس (۳۱) دن روزوں میں فاصلہ نہیں ہونا چاہیے۔
  3. vساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا، یا ہر فقیر کو ایک مُد (۷۵۰ گرام) گندم دینا۔
  4. vجس شخص پر کفارہ واجب ہوجائے اس کو اختیار ہے کہ مذکورہ صورتوں میں سے ایک کو انتخاب کرسکتا ہے البتہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ ترتیب کے مطابق عمل کرے۔

مسئلہ ۴۷۱: بعض وہ موارد کہ جن میں فقط روزے کی قضا واجب ہے کفارہ نہیں:

  1. 1.ماہ رمضان میں غسل جنابت کو بھول جانا اور اسی حالت میں ایک یا زیادہ روزے رکھنا۔
  2. 2.ماہ رمضان میں بغیر تحقیق کیے کہ صبح ہوئی ہے یا نہیں ایسا کام کرے کہ جس سے روزہ باطل ہوجاتا ہے مثلاً پانی پئے اور بعد میں پتہ چلے کہ صبح ہوگئی تھی۔

روزے کی قضا اور کفارے کے احکام

روزے کی قضا اور کفارے کے احکام

مسئلہ ۴۷۲:اگرکسی شخص کے پچھلے چند رمضان کے روزے قضا ہوں تو ان میں سے کسی بھی رمضان کے روزے پہلے قضا کرسکتا ہے لیکن اگر آخری ماہ رمضان کے روزے کی قضا کا وقت تنگ ہو مثلاً آخری رمضان کے پانچ روزے قضاہیں اور پانچ دن ہی ماہ رمضان آنے میں باقی ہیں یعنی ماہ شعبان کی پچیس تاریخ ہوگئی ہے تو بہتر یہ ہے کہ پہلے آخری رمضان کی قضا کرے۔

مسئلہ ۴۷۳: اگرماہ رمضان میں کسی عذر کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکے اور ماہ رمضان کے بعد اس کا عذر ختم ہوجائے اور آئندہ ماہ رمضان تک جان بوجھ کر روزے کی قضا نہ کرے تو اس کو چاہیے قضا کے علاوہ ہر روز کے بدلے میں ایک مُد طعام (تقریباً ۷۵۰ گرام) فقیر کو دے۔

مسئلہ ۴۷۴: اگر ماہ رمضان کی قضا میں کچھ سال دیر کرے تو اس کو چاہیے کہ اس کی قضا کو انجام دے اور ہر روزے کے بدلے میں ایک مدّ طعام فقیر کو دے۔

مسئلہ ۴۷۵: اگر کوئی شخص بڑھاپے کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکتا اور رمضان کے بعد اس کی قضا بھی انجام نہیں دے سکتا ، اس پر روزہ واجب نہیں ہے لیکن ہر روز ایک مُد طعام فقیر کو دے۔

مسئلہ ۴۷۶: جس فقیر کو مُد طعام دیا گیا ہو وہ اسے کھائے اس کو بیچ کر اس کی رقم کو دوسری ضروریات زندگی میں استعمال نہیں کرسکتا۔

مسافر کا روزہ

مسافر کا روزہ

مسئلہ ۴۷۷: وہ مسافر کہ جو چار رکعتی نماز کو سفر میں دو رکعت پڑھتا ہے اس سفر میں وہ روزہ نہ رکھے مگر اس روزے کی قضا ضرور کرے اور وہ مسافر کہ جوسفر میں نماز پوری پڑھتا ہے مثلاً کسی شخص کا پیشہ سفر ہے تو وہ اس سفر میں روزہ رکھے۔

مسافر کے روزے کا حکم

مسافر کے روزے کا حکم

سفر پر جانا

مسئلہ ۴۷۸: ۱۔ قبل از ظہر سفر پر جائے: جس وقت وہ حد ترخص([1]) پر پہنچ جائے تو وہاں پر روزے کو افطار کرے اور اگر اس سے پہلے روزے کو افطار کرے تو اس پر کفارہ واجب ہوجائے گا۔

۲۔ بعد ظہر سفر پر جائے: اس کا روزہ صحیح ہے اور اس کو باطل نہ کرے۔

سفر سے واپس آنا

مسئلہ: ۴۷۹: ۱۔ ظہر سے پہلے اپنے وطن یا اس جگہ پہنچ جائے کہ جہاں پر دس دن ٹھہرنے (قیام کرنے) کا ارادہ ہو۔

(الف) ایسا کام نہ کیا ہو کہ جس سے روزہ باطل ہوجاتا ہے۔ اسے چاہیے کہ روزے کی نیت کرے اور اس دن کا روزہ پورا کرے اس کا روزہ صحیح ہے ۔

(ب) اگر روزے کو باطل کردیا ہو: اس دن کا روزہ اس پر واجب نہیں ہے ضروری ہے کہ اس کی قضا کرے۔

۲۔ ظہر کے بعد پہنچے: اس کا روزہ باطل ہے اورضروری ہے کہ اس کی قضا انجام دے۔

مسئلہ ۴۸۰: ماہ رمضان میں سفر کرنا صحیح ہے لیکن اگر روزے سے بچنے کے لیے سفر کرے تو مکروہ ہے۔



[1] ۔یعنی اپنے شہر سے دور ایسی جگہ پر پہنچ جائے جہاں اذان کی آواز نہ سن سکے یا اتنا دور ہوجائے کہ اپنے شہر کو نہ دیکھ سکے۔

زکات فطرہ

زکات فطرہ

مسئلہ ۴۸۱: ماہ رمضان کے ختم ہونے کے بعد، یعنی عید فطر کے دن اپنے مال میں سے کچھ حصہ زکات فطرہ کے عنوان سے فقیر کو دینا چاہیے ہر بالغ عاقل اور غنی پر زکوۃ فطرہ واجب ہوتی ہے۔

زکات فطرہ کی مقدار

زکات فطرہ کی مقدار

مسئلہ ۴۸۲: اپنے لئے اور اپنے عیال کے لیے مثلاً بیوی بچے کیلئے ہر بندے کیلئے تقریباً ۳ کلو گرام گندم، جو، کھجور، کشمش، چاول، مکئی وغیرہ فقیر کو دے اور اگر اس مقدار کے پیسے بھی فقیر کو دے دیں تو کافی ہے۔ فقیر اسے کہتے ہیں جو سال کا بالفعل یا بالقوہ خرچہ نہ رکھتا ہو۔

زکات

زکات

ارشاد رب العزت ہے:

{ إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاِبْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ}

(سورہ توبہ، آیت ۶۰)


مسلمانوں کاایک مہم اقتصادی شرعی وظیفہ، زکات کا ادا کرنا ہے ۔ زکوۃ کی اہمیت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن میں نماز کے بعد اس کا ذکر آیا ہے اور یہ ایمان اور کامیابی کی علامت و نشانی شمار کی گئی ہے۔

مسئلہ ۴۸۳: نو چیزوں پر زکات واجب ہے اور ان کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

۱۔ گندم

۱۔ غلّہ                         ۲۔ جو

۳۔ کھجور

۴۔ کشمش

 

۱۔ اونٹ

۲۔ حیوان                   ۲۔ گائے، بھینس

۳۔ بھیڑ، بکری

 

۳۔ سکّے                        ۱۔ سونا۔

۲۔چاندی

نصاب کی حد

نصاب کی حد

مسئلہ ۴۸۴:ان مذکورہ چیزوں کی زکات اس صورت میں واجب ہوگی کہ جب ایک مخصوص مقدار تک پہنچ جائیں اور مقدار کو "حدّنصاب" کہتےہیں۔ یعنی اگر یہ مذکورہ چیزیں اس حد نصاب سے کم ہوں تو ان پر زکات نہیں ہے۔

غلّے کا نصاب

غلّے کا نصاب

مسئلہ ۴۸۵: گندم، جو، کھجور اور کشمس

نصاب ۸۴۷ کلو اور ۲۰۷ گرام

مقدار زکات(۱) ۱۰/۱ حصہ اگر بارش یا نہر کے پانی سے سیراب ہوں

                                           (۲) ۲۰/۱ حصہ اگربالٹی یا پمپ والی موٹر سے پانی دیا گیا ہو

وہ فصل کہ جس کو دونوں طریقوں سے پانی دیا گیا ہو یعنی بارش یا نہر کے پانی اور ہاتھوں سے بھی پانی دیا گیا ہو تو اس میں آدھے کی زکات ۱۰/۱ ہے اور آدھے کی ۲۰/۱ ہے۔

حیوان کا نصاب

حیوان کا نصاب

مسئلہ ۴۸۶: بھیڑ، بکری کے پانچ نصاب ہیں:


نصاب                                                                                               مقدار زکات

۴۰ بھیڑ                                                                                 ایک بھیڑ

۱۲۱ بھیڑ                                                                                 دو بھیڑیں

۲۰۱ بھیڑ                                                                                 تین بھیڑیں

۳۰۱ بھیڑیں                                                                چاربھیڑیں

۴۰۰ اور اس سے زیادہ ہر سو کے اوپر ایک بھیڑ۔

مسئلہ ۴۸۷: اگر زکات کے لیے بھیڑ دے تو احتیاط واجب کی بناء پرضروری ہے کہ اس کا ایک سال مکمل ہوچکا ہو اور وہ دوسرے سال میں داخل ہوگئی ہو اور اگربکری دے تو بناء بر احتیاط ضروری ہے کہ تیسرے سال میں داخل ہوچکی ہو۔

گائے کا نصاب

گائے کا نصاب

مسئلہ ۴۸۸: گائے کے دو نصاب ہیں:

نصاب                                                           مقدار زکات

۳۰ گائے                 ایک بچھڑا جو دوسرے سال میں داخل ہوچکا ہو احتیاط واجب یہ ہے کہ وہ نر ہو۔

۴۰ گائے                  ایک بچھیا جو تیسرے سال میں داخل ہوچکی ہو۔

مسئلہ ۴۸۹:اگر ۶۰ گائے ہوں تو اس کو تیس والے نصاب سے حساب کیا جائے اور اگر ۷۰ گائے ہوں تو اس کو تیس اور چالیس دونوں نصابوں سے حساب کیا جائے۔ اگر ۸۰ گائے ہوں تو اس کو چالیس والے نصاب سے حساب کیا جائے۔ اور اگر ان کی تعداد ۹۰ تک پہنچ جائے تو بناء بر احتیاط واجب ضروری ہے کہ تین مادہ بچھیا جو دوسرے سال میں داخل ہوچکی ہوں زکات کے طور پر دی جائیں۔

اونٹ کا نصاب

اونٹ کا نصاب

مسئلہ ۴۹۰: اونٹ کے بارہ نصاب ہیں:

نصاب                                                           مقدار زکات

۵ اونٹ                   ایک بھیڑ جو دوسرے سال میں داخل ہو۔

۱۰ اونٹ                   دوبھیڑیں جو دوسرے سال میں داخل ہوں۔

۱۵ اونٹ                  تین بھیڑیں جو دوسرے سال میں ہوں۔

۲۰ اونٹ                  چار بھیڑیں جو دوسرے سال میں ہوں۔

۲۵ اونٹ                 پانچ بھیڑیں جو دوسرے سال میں ہوں۔

مسئلہ ۴۹۱:اگر زکات میں بھیڑ دیں تو احتیاط واجب کی بنا پر اس کا ایک سال مکمل ہوچکا ہو اور وہ دوسرے سال میں داخل ہوچکی ہو اور اگر بکری دےتوبناء پر احتیاط ضروری ہے کہ تیسرے سال میں داخل ہوچکی ہو۔

 

نصاب                                                           مقدار زکات

۲۶ اونٹ                  ایک ایسی اونٹنی ہےجو دوسرے سال میں داخل ہو گئی ہو۔

۳۶ اونٹ                 ایک ایسی اونٹنی ہے جو تیسرے سال میں داخل ہو گئی ہو۔

۴۶ اونٹ                 ایک ایسی اونٹنی ہے جو چوتھے سال میں داخل ہو گئی ہو

۶۱ اونٹ                  ایک ایسی اونٹنی ہے جو پانچویں سال میں داخل ہو گئی ہو۔

۷۶ اونٹ                 دو اونٹ جو تیسرے سال میں داخل ہوں۔

۹۱ اونٹ                   ان کی زکات دو ایسی اونٹنیاں ہیں جو چوتھے سال میں داخل ہوگئی ہوں۔

۱۲۱ عدد اور اس سے زیادہ کہ ان میں ضروری ہے کہ یا چالیس چالیس (۴۰، ۴۰) عدد کا حساب لگایا جائے اور ہر چالیس عدد کے لیے ایک ایسی اونٹنی دے جو تیسرے سال میں داخل ہوگئی ہو یا پچاس پچاس (۵۰، ۵۰) عدد کا حساب کیا جائے اور ہر پچاس عدد کے لیے ایک ایسی اونٹنی دےجو چوتھے سال میں داخل ہوگئی ہو یا چالیس اور پچاس کا حساب کرے لیکن ہر صورت میں اس طرح حساب کرنا ضروری ہے کہ کوئی چیز باقی نہ رہے یا اگر کوئی چیز باقی رہ بھی جائے تو نو (۹) عدد سے زیادہ نہ ہو۔ مثال کے طور پر اگر اس کے پاس ایک سو چالیس (۱۴۰) اونٹ ہوں تو سو اونٹوں کے لیے وہ ایسی اونٹنیاں دے جو چوتھے سال میں داخل ہوچکی ہوں اور چالیس اونٹوں کے لیے ایک ایسی اونٹنی دے جو تیسرے سال میں داخل ہوچکی ہو۔

مسئلہ۴۹۲: زکات میں جو اونٹ دیا جائے اس کا مادہ ہونا ضروری ہے۔

زکات کے احکام

زکات کے احکام

مسئلہ ۴۹۵: زکات عبادات میں سے ہے اور ضروری ہے کہ جو چیز ادا کی جائے اس میں زکات کی نیت اور

زکات کا استعمال

زکات کا استعمال

مسئلہ ۵۰۱: زکات کو آٹھ مقامات پر استعمال کیا جاسکتا ہے:

  1. 1.فقیر اور ہر وہ شخص کہ جس کی آمدنی یاموجودہ مال اس کے اور اس کے بیوی بچوں کے سال کے اخراجات سے

خمس

خمس

 

ارشاد رب العزت ہے:

{ وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ إِنْ كُنْتُمْ آمَنْتُمْ بِاللَّهِ}

(سورہ انفال، آیت ۴۱)

خمس فروعات دین میں سے ایک فرع ہے اور اصل خمس کا وجوب، ضروریات دین سے ہے جس کا انکار موجب کفر

کمائی سے حاصل ہونے والے منافع

کمائی سے حاصل ہونے والے منافع

مسئلہ ۵۰۳: جب انسان تجارت یا کسی اور کمائی کے ذریعے سے مال کمائے اگرچہ کسی میت کی نماز اور

سال کا خرچہ

سال کا خرچہ

مسئلہ ۵۰۴: انسان اگر تجارت، زراعت، کارخانہ یا مزدوری کرکے یا کسی ادارے میں کام

خمس کا سال

خمس کا سال

مسئلہ ۵۰۶: ہر شخص کے لیے خمس کا حساب کرنے کے لیے سال کی ابتدا اس کی پہلی کمائی سے ہے۔

احکام خمس

احکام خمس

مسئلہ ۵۰۸: اگر کوئی شخص جس پر خمس واجب ہے اور اس مال پر سال گزر چکا ہے جب تک خمس نہیں دیتا

خمس کا استعمال

خمس کا استعمال

مسئلہ ۵۱۵: خمس کے مال کے دو حصے کرنے چاہئیں آدھا حصہ امام زمان علیہ السلام کا ہے اور ضروری ہے کہ یہ

جس سید کو خمس دیا جاسکتا ہے اس کی شر ائط

جس سید کو خمس دیا جاسکتا ہے اس کی شر ائط

مسئلہ ۵۱۶: فقیر ہو یعنی سال کا خرچہ نہ رکھتا ہو یا مسافر ہو اگرچہ اپنے شہر میں فقیر نہ ہو بشرطیکہ اس کا سفر معصیت

حج

حج

فروع دین سے ایک موکد فریضہ حج ہے، ارشاد رب العزت ہے:

{ فِيهِ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ مَقَامُ إِبْرَاهِيمَ وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلا وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ}

(سورہ آل عمران، آیت ۹۷)

ترجمہ:اس میں (حرمت کی) بہت سی واضح و روشن نشانیاں ہیں (منجملہ اس کے) مقام ابراہیم ؑ ہے اور جو اس گھر میں

حج تمتّع

حج تمتّع

مسئلہ ۵۲۶: حج تمتّع دو عبادتوں کا مرکب ہے جس کو پہلے انجام دیا جاتا ہے اسے عُمرہ اور جسے بعد میں انجام دیا جاتا ہے اسے حج، اور ان دونوں کے مجموعہ کو حج تمتّع کہتے ہیں۔

مسئلہ ۵۲۷: عمرہ اور حج تمتّع کے اعمال اٹھارہ ہیں جن میں عمرہ کے پانچ اور حج کے تیرہ ہیں۔

 

اجمالاً حج کے اعمال

  1. اجمالاً حج کے اعمال

  2. 1.مکہ سے حج کے لیے احرام باندھنا۔
  3. 2.نویں ذی الحجہ کو ظہر سے غروب تک عرفات میں ٹھہرنا۔

جہاد

جہاد

مسئلہ ۵۲۸:دین اسلام کے ارکان میں سے ایک رکن جہاد ہے۔ جہاد واجب کفائی ہے، جہاد کے وجوب میں درج ذیل شرائط کا ہونا ضروری ہے۔

امر بالمعروف و نہی عن المنکر کےاحکام

امر بالمعروف و نہی عن المنکر کےاحکام

مسئلہ ۵۳۳: مکلف پر اہم ترین واجبات میں سے ایک امر بالمعروف (نیکی کا حکم دینا) اور نہی عن المنکر (برائی سے روکنا) ہے۔ قرآن مجید میں خداوند متعال ا رشاد فرماتا ہے:

{ وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ } (سورہ توبہ، آیت ۷۱)

ترجمہ: اور مومن مرد اور عورتیں، ان میں سے بعض افراد دوسرے بعض کے دوست ہیں یہ امر

تولّی (تولّا) و تبرّی (تبرّا)

تولّی (تولّا) و تبرّی (تبرّا)

ارشاد رب العزت ہے:

{ لا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُولَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الإيمَانَ}

(سورہ مجادلہ ،آیت ۲۲)

تولّا اور تبرّا کو اگرچہ فروع دین میں شمار کیا جاتا ہے اور مشہور بھی یوں ہی ہے لیکن یہ دونوں اصول اعتقاد سے

خرید و فروخت کے احکام

خرید و فروخت کے احکام

ارشاد رب العزت ہے:

{رِجَالٌ لا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالأبْصَارُ لِيَجْزِيَهُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوا وَيَزِيدَهُمْ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ }

(سورہ نور، آیت ۳۷۔ ۳۸)

مسئلہ ۵۳۸:کاروباری شخص کے لیے سزاوار ہے کہ وہ خرید و فروخت کے احکام سیکھ لے ۔ بلکہ جن مقامات پر

ربا (سود)

ربا (سود)

مسئلہ ۵۴۷: سود دینا اور سود لینا حرام ہے۔

نقد اور ادھار

نقد اور ادھار

مسئلہ ۵۵۰:اگر کسی چیز کو نقد فروخت کیا جائے تو خریدار اور فروخت کرنے والا ایک دوسرے

معاملہ سلف (پیش خرید)

معاملہ سلف (پیش خرید)

مسئلہ ۵۵۲:معاملہ سلف یہ ہے کہ خریدار نقد رقم دے اور جنس کو کچھ مدت بعد میں بیچنے والے سے لے۔ یہ سودا

سونے چاندی کو سونے چاندی کے عوض بیچنا

 

سونے چاندی کو سونے چاندی کے عوض بیچنا

 

مسئلہ ۵۵۴:اگر سونے کو سونے سے یا چاندی کو چاندی سے بیچا جائے تو خواہ وہ سکہ دار ہوں یا بے سکہ اگر ان میں

وہ مقامات جہاں انسان معاملہ فسخ (ختم) کرسکتا ہے

وہ مقامات جہاں انسان معاملہ فسخ (ختم) کرسکتا ہے:

مسئلہ ۵۵۹: سودا فسخ کرنے کے حق کو خیار کہتےہیں۔ خریدار اور بیچنے والے کو گیارہ صورتوں میں سودا فسخ کرنے کا

اجارہ (کرایہ) کے احکام

اجارہ (کرایہ) کے احکام

{ قَالَتْ إِحْدَاهُمَا يَا أَبَتِ اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الأمِينُ }

(سورہ قصص، آیت ۲۶)

مسئلہ ۵۶۰:کوئی چیز کرایہ پر دینے اور کرایہ پر لینے کے لیے ضروری ہے کہ بالغ اور عاقل ہوں اور کرایہ لینے

اجارہ کے مسائل

اجارہ کے مسائل

مسئلہ ۵۶۴:اگر مکان یا دوکان کو کرایہ پر لے اور مالک یہ شرط لگائے کہ وہ خود اس سے استفادہ کرے تو مستاجر (کرایہ

شراکت کے احکام

شراکت کے احکام

ربّ العزت کا ارشاد ہے:

{ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً رَجُلا فِيهِ شُرَكَاءُ مُتَشَاكِسُونَ}

(سورہ زمر، آیت ۲۹)

مسئلہ ۵۶۷:شراکت یہ ہے کہ ایک مال کے چاہے وہ مال عین ہو یا ذمہ مشاع طور پر نصف، ثلث یا اس طرح کی

جعالہ کے احکام

جعالہ کے احکام

 ربّ العزت کا ارشاد ہے:

{ قَالُوا نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِكِ وَلِمَنْ جَاءَ بِهِ حِمْلُ بَعِيرٍ وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌ}

(سورہ یوسف، آیت ۷۲)

مسئلہ ۵۷۳:جعالہ سے مراد یہ ہے کہ انسان وعدہ کرے کہ اگر ایک کام اس کے لیے انجام دیا جائے گا تو وہ

مضاربہ کے احکام

مضاربہ کے احکام

ربّ العزت کا ار شاد ہے:

{ وَآخَرُونَ يَضْرِبُونَ فِي الأرْضِ يَبْتَغُونَ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ }

(سورہ مزمل، آیت ۲۰)

مضاربہ سے مراد یہ ہے کہ ایک شخص کسی دوسرے کو کوئی مال دے کہ وہ اس مال سے تجارت کرے اور اس

امانت کے احکام

امانت کے احکام

ربّ العزت کا ارشاد ہے:

{ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الأمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا }

(سورہ نساء، آیت ۵۸)

 مسئلہ ۵۸۸:امانت دار اور وہ شخص جو مال بطور امانت دے دونوں عاقل ہونے چاہئیں لہذا اگر کوئی شخص

عاریہ کے احکام

عاریہ کے احکام

 ربّ العزت کا ارشاد ہے:

{ وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى}

(سورہ مائدہ، آیت ۲)

مسئلہ ۵۹۲: عاریہ سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنا مال دوسرے کو دے تاکہ وہ اس مال سے استفادہ کرے اور اس

نکاح

نکاح

ارشاد ربّ العزت ہے:

{ وَأَنْكِحُوا الأيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَآءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ}

(سورہ نور، آیت ۳۲)

مسئلہ ۵۹۷: نکاح کرنا مستحب ہے اور جو شخص زوجہ کے نہ ہونے کی وجہ سے خوف رکھتا ہو کہ حرام میں پڑھ جائے گا

نکاح کے احکام

نکاح کے احکام

مسئلہ ۵۹۸:نکاح خواہ دائمی ہو یا موقت (متعہ) صیغہ کا پڑھنا ضروری ہے صرف مرد اور عورت کا راضی ہونا کافی نہیں ہے اگر چاہیں تو خود بھی پڑھ سکتے ہیں یا کسی اور کو وکیل بناسکتے ہیں جو ان کی طرف سے پڑھے۔ البتہ اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ صیغہ پڑھنے والا، صیغہ پڑھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

مسئلہ ۵۹۹: وکیل کا مرد ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ عورت بھی عقد کا صیغہ پڑھنے کے لیے کسی دوسرے کی جانب سے وکیل ہوسکتی ہے۔

مسئلہ ۶۰۰: اگر عورت مطلقہ یا جس کا شوہر فوت ہوگیا ہو پھر کسی سے شادی کرنا چاہے تو ولی شرعی (باپ، دادا) کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔

مسئلہ ۶۰۱: جو لڑکی بالغ ہوچکی ہو ، باکرہ (کنواری) اور رشیدہ ہو، یعنی اپنی مصلحت کی پہچان رکھتی ہو اگرشادی کرنا چاہے تو اس کو چاہیے کہ اپنے باپ یا دادا سے اجازت لے۔

مسئلہ ۶۰۲: باپ اور دادا اپنے نابالغ فرزند کا یا دیوانے فرزند کا جو دیوانگی کی حالت میں بالغ ہوا ہو عقد کرسکتے ہیں اور بچہ، بالغ ہونے کے بعد، جب کہ پاگل، عاقل ہونے کے بعد اگر اس عقد جو اس کے لیے کیا گیا تھا اس میں کوئی مفسدہ نہ پائے تو اس نکاح کو ختم نہیں کرسکتا اور اگر اس نکاح میں مفسدہ (خرابی) پائے تو اسے اس عقد کو برقرار رکھنے یا ختم کرنے کا اختیار ہے۔

اگر نابالغ لڑکے اور لڑکی کا باپ ان کا ایک دوسرے سے نکاح کردیں اور اس عقد میں کوئی مفسدہ بھی نہ پایا جاتا ہو تو یہ نکاح صحیح بھی ہے اور لازم بھی یعنی بالغ ہونے کے بعد اس عقد کو فسخ کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔ اگر ایک دوسرے سے جدا ہونا چاہئیں تو مرد، طلاق دے۔

مسئلہ ۶۰۳: اگر کوئی شخص کسی ایسی عورت سے عقد کرے جو دوسرے کی عدت میں ہو تو اگر مرد اور عورت دونوں یا ان میں سے کوئی ایک جانتا ہو کہ عورت کی عدت ختم نہیں ہوئی ہے اور یہ بھی جانتے ہوں کہ عدّت کے دوران عورت سے عقد کرنا حرام ہے تو اگرچہ مرد نے عقد کے بعد اس عورت سے مجامعت نہ بھی کی ہو وہ عورت ہمیشہ کے لیے اس پر حرام ہوجائے گی۔

مسئلہ ۶۰۴: اگر کوئی شخص کسی ایسی عورت سے عقد کرے جو دوسرے کی عدت میں ہو اور اس سے مجامعت کرے تو خواہ اسے یہ علم نہ ہو کہ وہ عورت عدت میں ہے یا نہ جانتا ہو کہ عدت کے دوران میں عورت سے عقد حرام ہے، وہ عورت ہمیشہ کے لیے اس پر حرام ہوجائے گی۔

مسئلہ ۶۰۵: جس شخص نے کسی لڑکے کے ساتھ لواطہ کیا ہو اگر وہ لواط کرنے والا بالغ ہو اس لڑکے کی ماں(جس میں ماں کی ماں اور اس سے اوپر بھی شامل ہیں)، بہن اور بیٹی (اور بیٹی کی بیٹی) لواط کرنے والے پر حرام ہیں۔ لیکن نکاح کے بعد یہ بدفعلی حرمت کا موجب نہیں ہے۔ اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ ایسی عورت سے بھی اجتناب کرے یعنی طلاق کے ذریعے سے علیحدگی اختیار کرے۔ اگر اغلام کرنے والا اپنی بیوی کو طلاق دے دے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ دوبارہ اس سے ا زدواج نہ کرے۔ اگر لواط کرنے والا بچہ ہو یا لواطہ کروانے والا بڑا ہو تو ان صورتوں میں بھی احتیاط واجب یہ ہے کہ اپنی زوجہ سے طلاق کے ذریعہ علیحدگی اختیار کرے۔

مسئلہ ۶۰۶: اگر کوئی شخص کسی شوہر دار عورت سے زنا کرے یا ایسی عورت سے زنا کرے جو عدت رجعی میں ہو تو وہ عورت اس مرد پر بناء پر احتیاط ہمیشہ کے لیے حرام ہوجائے گی۔

مسئلہ ۶۰۷: اگر کوئی شخص یہ جانتے ہوئے کہ عورت شوہر دار ہے اور اس سے عقد کرنا حرام ہے اس سے شادی کرے تو ضروری ہے کہ اس سے علیحدگی اختیار کرلے بعد میں بھی اس سے نکاح نہ کرے۔

اور اگر اس شخص کو علم نہ ہو کہ یہ عورت شوہر دار ہے لیکن اس سے عقد کے بعد اسے مجامعت کی ہو تب بھی یہی حکم ہے۔

مسئلہ ۶۰۸: اگر کوئی شخص احرام کی حالت میں کسی عورت سے عقد کرے اگر وہ ایسے عقد کی حرمت کو جانتا تھا تو وہ عورت اس پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوجائے گی اور اگر نہیں جانتا تھا تو یہ عقد باطل ہے اور وہ اس پر ہمیشہ کے لیے حرام نہیں ہے۔

مسئلہ ۶۰۹: اگر مرد طواف النساء کو جو حج اور عمرہ مفردہ کے اعمال میں سے ایک عمل ہے بجا نہ لائے تو اس کی بیوی اور دوسری عورتیں جو احرام کے سبب اس پر حرام ہوئیں تھیں اس کے لیے حلال نہیں ہوں گی (یعنی پوری زندگی کسی عورت سے شادی نہیں کرسکتا) اسی طرح اگر عورت طواف النساء نہ کرے تو مرد اس کے لیے حلال نہیں ہوگا لیکن اگر یہ لوگ بعد میں طواف النساء انجام دے دیں تو حلال ہو جائیں گے۔

مسئلہ ۶۱۰: اگر کوئی شخص اپنی زوجہ کو تین طلاق دے تو تیسری طلاق کے بعد اس کی طرف رجوع نہیں کرسکتا نیز اس کی عدت گزرنے کے بعد اس سے دوبارہ نکاح بھی نہیں کرسکتا ہاں اگر وہ عورت تیسری طلاق کی عدت گزارنے کے بعد کسی دوسرے شخص سے نکاح کرلے اور وہ شخص اس عورت کے ساتھ جماع کرنے کے بعد مر جائے یا اسے طلاق دے دے اور اس کی عدت بھی گزر جائے تو پھر پہلا شوہر اس عورت سے شادی کرسکتا ہے تین طلاقوں میں شرط یہ ہے کہ ایک ہی خاوند اپنی بیوی کو مسلسل تین بار طلاق دے، درمیان میں کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرے۔

مثال کے طور پر عورت کو پہلی مرتبہ طلاق دے، پھر عدت کے دوران اس کی طرف رجوع کرلے یا عدت گزر جانے کے بعد پھر اس سے عقد جدید کرلے۔ پھر دوسری مرتبہ اس کو طلاق دے پھر عدت کے دوران رجوع کرلے یا عدت گزرنے کے بعد عقد جدید کرلے ۔ پھر تیسری مرتبہ طلاق دے تو اب تین طلاقیں شمار ہوں گی۔

اسی طرح تیسری اور چھٹی کے بعد محلل کی صورت میں دوسرے آدمی سے نکاح اور طلاق کے بعد پہلے شخص سے نکاح ہوجائے گا لیکن نویں طلاق کے بعد وہ ہمیشہ کے لیے حرام ہوجائے گی۔

مسئلہ ۶۱۱: جس نابالغ لڑکی سے عقد کیا گیا ہو اس کے نو (۹) سال پورے ہونے سے پہلے اس سے نزدیکی کی وجہ سے افضاء ہوجائے تو وہ اس مرد پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوجائے گی لیکن اس کے باوجود زوجہ کے احکام اس پر لاگو ہوں گے یعنی جب تک وہ زندہ رہے اس کا نفقہ وغیرہ اس کے شوہر پر واجب ہوگا خواہ وہ ناشزہ ہو یا اس کو طلاق دے دی جائے۔ بلکہ بناء بر احتیاط خواہ وہ کسی اور سے شادی بھی کرلے۔ اگر نو سال کے بعد اس کا افضاء ہوا ہو تو وہ مرد پر حرام نہیں ہوگی۔ افضا کا معنی بعد والے مسئلہ میں آئے گا۔