مختصر توضیح المسائل
- تفصیلات
- اشاعت بتاریخ جمعہ, 03 مئی 2013 10:31
- تحریر مدیر
- مشاہدات: 6895
مختصر توضیح المسائل
مطابق با فتاویٰ
سماحۃ آیۃ اللہ سید مظہر علی شیرازی دامت برکاتہ
ناشر: مؤسسہ جواد الائمہ علیہم السلام
مختصر توضیح المسائل
مطابق با فتاویٰ
سماحۃ آیۃ اللہ سید مظہر علی شیرازی دامت برکاتہ
ناشر: مؤسسہ جواد الائمہ علیہم السلام
نام کتاب:مختصر توضیح المسائل
تالیف: فقیہ اہل بیت ؑ آیۃ اللہ سید مظہرعلی شیرازی دامت برکاتہ
پہلا: ذوالحجۃ الحرام ۱۴۳۳ ھ
تعداد: ۲۰۰۰
ناشر: مؤسسہ جواد الائمہ علیہم السلام
رابطہ نمبر: پاکستان: 0308-4198055
0332-4602522
رابطہ نمبر: ایران: 0098-9196650627
ای میل پتہ:This e-mail address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
This e-mail address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
سائٹ: www.aljawaad.com
ملنے کا پتہ دار العلوم محمدیہ بلاک نمبر 19 سرگودھا پنجاب، پاکستان رابطہ نمبر: 0321-6034109 |
جملہ حقوق بحق مؤلف محفوظ ہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ والسلام علی اشرف خلقہ و اکرم بریّتہ محمد وآلہ الذین اذہب اللہ عنہم الرجس و طہّر ہم تطہیراً و لعنۃ اللہ علی أعدائہم من الاولین والآخرین الی یوم الدین۔
عرصہ سے مومنین ہم سے اصرار کر رہے تھے کہ آپ اپنے فتاوی پر مشتمل فقہی کتاب لکھیں لیکن ہم انہیں صبر کی ہی تلقین کرتے رہے لیکن حال میں مومنین کا اصرار بہت شدت پکڑ گیا ہے لہذا ان کے تقاضے کو مدّنظر رکھتے ہوئے ہم نے اپنے فتاویٰ پر مشتمل کتاب بنام مختصر توضیح المسائل کو تحریر کیا ہے جس میں ضروری اورمحل ابتلاء مسائل کو ذکر کیا ہے۔
مومنین، اس رسالہ عملیہ کے مسائل پر عمل کرسکتے ہیں، سب مومنین و مومنات سے دعا کی التماس ہے۔
الحمد للہ اولاً و آخراً و ظاہراً و باطناً۔
و السلام
خادم شریعت
سید مظہر علی شیرازی عفی عنہ و عن والدیہ
حوزہ علمیہ قم المقدسہ
۲۰ شوال ۱۴۳۳ ھ ق
فہرست
تقلید
طہارت کے احکام
نجاسات
مطہرات
وضو
غسل
حیض
استحاضہ
نفاس
۳۔ غسل میّت
میت کا کفن
نماز میت
تیمم
نماز کے احکام
اذان اوراقامت
نماز کے واجبات
تکبیرۃ الاحرام
قیام
قرائت
رکوع
سجدے
تشہد
سلام
سجدہ شکر
مبطلات نماز
شکیات نماز
نماز احتیاط
سجدہ سہو
قضا نماز
نماز جماعت
مسافر کی نماز
نمازآیات
نماز جمعہ
عید کی نماز
روزےکے احکام
مبطلات روزہ
احکام مبطلات روزہ
روزےکی قضا اورکفارہ
مسافر کےروزے کا حکم
زکات فطرہ
زکات
خمس
حج
حج تمتّع
جہاد
امر بالمعروف و نہی عن المنکر کےاحکام
تولّی (تولّا) و تبرّی (تبرّا)
خرید و فروخت کے احکام
نقد اورادھار
معاملہ سلف (پیش خرید)
اجارہ (کرایہ) کے احکام
شراکت کے احکام
جعالہ کے احکام
مضاربہ کے احکام
امانت کے احکام
عاریہ کے احکام
نکاح
وہ عیوب جن کی وجہ سے عقد فسخ کیا جاسکتا ہے
دودھ پلانے کے احکام
دودھ پلانے کی وہ شرائط جو محرم بننے کا سبب بنتی ہیں
طلاق
گرا پڑا مال پانے کے احکام
کھانے کے احکام
وصیت کے احکام
وراثت کے احکام
میاں بیوی کی میراث
بسم اللہ الرحمن الرحیم ولہ الحمد
تقلید
اصول دین میں تقلید جائز نہیں ہے بلکہ ضروری ہے کہ انسان اصول دین کو دلیل اوربرہان کے ساتھ جانے۔ اگرچہ دلیل سادہ ہی کیوں نہ ہو۔ منقول ہے کہ ایک بڑھیا عورت چرخہ کات رہی تھی تو اس سے کسی نے پوچھا تو نے اپنے رب کو کیسے پہچانا ہے تو اس نے کہا میں نے اسے اس چرخہ سے پہچانا ہے جب میں اس کو حرکت دیتی ہوں تو یہ حرکت کرنے لگ جاتا ہےاورجب حرکت نہیں دیتی تو یہ رک جاتا ہے جب یہ معمولی سا آلہ-چرخہ- کسی چلانے والے کے بغیر نہیں چل سکتا تو پوری کائنات کا نظام بغیر کسی چلانے والے کے کیسے چل سکتا ہے جب حضورؐ نے اس بڑھیا کا استدلال سنا تو بہت خوش ہوئے اورفرمایا: علیکم بدین العجائز ، بوڑھی عورتوں والے دین کو لازم پکڑو۔ یعنی دلیل سے اپنا عقیدہ اختیار کرو خواہ وہ دلیل سادہ ہی کیوں نہ ہو۔ خلاصہ یہ کہ اصول دین کو دلیل کے ساتھ جانا جائے اس سلسلے میں علماء حق سے راہنمائی لی جاسکتی ہے۔ بلکہ سزاوار ہے کہ انسان اپنے اعتقادات کو علماء حق کے سامنے پیش کرے۔
مسئلہ ۱: فروع دین یعنی دینی مسائل جو کہ عمل کے ساتھ مربوط ہیں ان میں اگر خودانسان مجتہد ہو یعنی قرآن، سنت، اجماع و عقل کے ذریعہ سے شرعی مسائل کا استنباط کرسکتا ہو تو اس کو اپنے نظریے (فتوے) پر عمل کرنا ہوگا۔ مخفی نہ رہے کہ مجتہد بننا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ہے اجتہاد تک پہنچنے کے لیے کافی مدت درکار اوربہت زحمت کرنا پڑتی ہے۔
جو شخص مجتہد نہیں ہے اس کا وظیفہ ہے کہ کسی جامع الشرائط مجتہد کی تقلید کرے جیسا کہ ہر فن میں لوگ اس فنّ کے ماہر کی طرف رجوع کرتے ہیں اور ان کی باتوں کو مانتے ہیں۔ فقہ کے ماہر فقہاء ہوتے ہیں لذا دینی مسائل میں ان کی طرف رجوع کیا جائے۔
جو شخص مجتہد نہیں ہے وہ احتیاط پر بھی عمل کرسکتا ہے یعنی اپنے اعمال کو اس طریقے سے انجام دے کہ اسے یقین ہوجائے کہ اس نے اپنے حکم کو انجام دے دیاہے۔
لیکن احتیاط پر عمل کرنے کے لیے احتیاط کے موارد اوراحتیاط کے طریقہ کو جاننا ضروری ہے۔
خلاصہ یہ کہ آسان ترین راستہ تقلید ہے۔
سوال: کیا شریعت میں اجتہاد کرنے کی اجازت ہے؟
جواب: شریعت میں اجتہاد کی اجازت ہے جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے بعض صحابیوں کو استنباط کرنے کا طریقہ بھی تعلیم دیاتھا۔([1])
امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں : علینا القاء الاصول و علیکم التفریع، قواعد اوراصول کا بتانا یہ ہمارا کام ہے اور ان سے فرع نکالنا (مسائل کا استنباط کرنا) یہ تمہارا کام ہے۔ چنانچہ امام صادق علیہ السلام سے بھی یہی مضمون منقول ہے۔([2])
نوٹ:اس مسئلے کو ہم نے اپنے تحقیقی رسالہ دفع الشبھات عن الاجتہاد و التقلید میں تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
مخفی نہ رہے کہ جن لوگوں نے امام صادق علیہ السلام کے مقابلے میں فتوی سازی کا سلسلہ شروع کیا تھا اورقیاس اوراستحسان وغیرہ سے کام لیتے تھے وہ اجتہاد اورتقلید، روایات میں باطل اورمذموم بیان کیا گیا ہے۔
لیکن فقہاء شیعہ، قرآن اورمحمد و آل محمد علیہم السلام کی تعلیمات کی روشنی میں جو شرعی استنباط کرتے ہیں یہ اجتہاد صحیح اورفقہ جعفریہ کی ترجمانی کرتا ہے۔
غیبت کبریٰ میں فقہاء شیعہ کی طرف دینی مسائل میں رجوع، واقع میں ائمہ علیہم السلام کی طرف رجوع ہے کیونکہ فقہاء، باب الائمہ علیہم السلام ہیں اورائمہ طاہرین علیہم السلام باب اللہ ہیں۔ آج کل اجتہاد اورتقلید کے خلاف جو پروپیگنڈہ ہو رہا ہے یہ استعماری سازش کا نتیجہ ہے، مومنین ہوشیار رہیں۔
شرائط مجتہد
مسئلہ ۲:جس مجتہد کی تقلید کی جائے اس میں درج ذیل صفات کا ہونا ضروری ہے:
۱۔ مرد ہو، ۲۔ بالغ ہو (بناء بر احتیاط)
۳۔ عاقل ہو ۴۔ شیعہ اثناء عشری ہو
۵۔ حلال زادہ ہو ۶۔ عادل ہو
۷۔ زندہ ہو بنا بر احتیاط
۸۔ خوش عقیدہ (یعنی صحیح العقیدہ) ہو،اوربعض دیگر شرائط
مسئلہ ۳: مجتہد کی پہچان کا طریقہ
۱۔ خودانسان علم رکھتا ہو؛
۲۔ شیاع جو اطمینان کا موجب ہو؛
۳۔ بینہ؛ دو عادل خبر دیں کہ فلاں شخص مجتہد ہے۔ البتہ وہ خبرہ سے ہوں، بشرطیکہ اس کے خلاف دو عادل گواہی نہ دیں بلکہ ایک ثقہ شخص جب کہ وہ خبرہ سے ہواوراس کی بات پر خلاف کا گمان نہ ہو، سے بھی اجتہادثابت ہوجاتا ہے۔
مسئلہ ۴: مجتہد کے فتوی کو لینے کا طریقہ
۱۔ خود مجتہد سے سنے؛
۲۔ دو عادل شخصوں سے فتوی کو سنے؛ بلکہ ایک ثقہ شخص بھی نقل کرےاوراس کی گفتار کے خلاف گمان نہ ہو تو یہ بھی کافی ہے۔
۳۔ مجتہد کے رسالہ عملیہ جس کی صحت کا اطمینان رکھتا ہو اس کا مطالعہ کرنا۔
مسئلہ ۵: جس مجتہد کی تقلید کرتا ہو اگر وہ فوت ہوجائے تو اس کی تقلید پر باقی رہنا جائز ہے۔
مسئلہ ۶: مشہور یہ ہے کہ ابتداءً مردہ مجتہد کی تقلید جائز نہیں ہے لیکن ان کی ادلہ مناقشہ سے خالی نہیں ہیں احوط یہ ہے کہ زندہ مجتہد کی ہی تقلید کی جائے مگر یہ کہ زندہ سے فتوی لینا ممکن نہ ہو اوراحتیاط پر بھی عمل کرنا ممکن نہ ہو تو ان صورتوں میں ابتداءً مردہ مجتہد کی تقلید کی جاسکتی ہے۔
مسئلہ ۷: جس شخص نے تقلید نہیں کی اور اب متوجہ ہوا ہے کہ تقلید کرنا ضروری ہے تو اس کے سابقہ اعمال اگر جاننا ہو کہ واقع کے مطابق تھے یا جس کی تقلید کرنا فعلاً اس کا وظیفہ ہے اس کے فتوی کے مطابق تھے یا اعمال کے انجام دیتے وقت جس کی تقلید اس پر لازم تھی اس کے فتوی کے مطابق تھے۔ ان صورتوں میں اس کے اعمال صحیح ہیں اور ان کی قضاء نہیں ہے۔
طہارت کے احکام
ارشاد ربّ العزت ہے:
{ وَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَآءً طَهُورًا}
(سورہ فرقان، آیت ۴۸)
مسئلہ ۸: پانی یا مطلق ہوتا ہے یا مضاف۔
مضاف پانی وہ ہوتا ہے جسے کسی چیز سے حاصل کیا جائے مثلاً تربوز کا پانی یا گلاب کا عرق یا انار وغیرہ کا پانی۔ اور وہ پانی بھی مضاف کہلاتا ہے جو کسی دوسری چیز سے مل کر اس طرح ہوجائے کہ اسے مطلق پانی نہ کہا جاسکے مثال کے طور پر پانی میں اتنی چینی ملا دیں یا اس میں اتنی مٹی ملا دیں کہ پھر اسے مطلق پانی نہ کہا جاسکے۔
ان کے علاوہ جو پانی ہو اسے مطلق پانی کہتے ہیں۔ بعبارت دیگر مطلق وہ پانی ہے جس میں کسی چیز کی ملاوٹ نہ ہو۔ (یعنی خالص پانی)
مضاف پانی وہ ہوتا ہے جسے کسی چیز سے حاصل کیا جائے مثلاً تربوز کا پانی یا گلاب کا عرق یا انار وغیرہ کا پانی۔ اوروہ پانی بھی مضاف کہلاتا ہے جو کسی دوسری چیز سے مل کر اس طرح ہوجائے کہ اسے مطلق پانی نہ کہا جاسکے مثال کے طور پر پانی میں اتنی چینی ملا دیں یا اس میں اتنی مٹی ملا دیں کہ پھر اسے مطلق پانی نہ کہا جاسکے۔
ان کے علاوہ جو پانی ہو اسے مطلق پانی کہتے ہیں۔ بعبارت دیگر مطلق وہ پانی ہے جس میں کسی چیز کی ملاوٹ نہ ہو۔ (یعنی خالص پانی)
مطلق پانی اورمضاف پانی کے احکام:
مطلق پانی بذات خود بھی پاک ہوتا ہے اورمطھِّر پاک کنندہ بھی ہوتا ہے یعنی مطلق پانی سے وضو، غسل بھی کیا جاسکتا ہے اورناپاک برتن اورکپڑے وغیرے کو بھی اس سے دھویا جائے تو وہ پاک ہوجاتے ہیں۔
مطلق پانی اگر قلیل ہو تو اس میں نجاست گرنے سے نجس ہوجاتا ہے اوراگر کُرّ کی مقدار ہو تو نجاست کے گرنے سے نجس نہیں ہوتا مگر یہ کہ اس کا رنگ یا بو یا ذائقہ تبدیل ہوجائے۔
مضاف پانی خود تو پاک ہوتا ہے لیکن یہ ظاہری نجاست کو رفع نہیں کرتا اورنہ ہی اس سے وضو یا غسل کیا جاسکتا ہے۔
بعبارت دیگر مضاف پانی مطلقاً مطھِّر نہیں ہوتا۔ یعنی حدث کو بھی دور نہیں کرتا، حدث اس باطنی یا معنوی ناپاکی کو کہتے ہیں جو کہ قربت کی نیت کے بغیر دور نہ ہو۔ حدث یا اصغر ہوتا ہے اس کو دور کرنے کے لئے وضو کی ضرورت ہوتی ہے یا حدث اکبر ہوتا ہے اس ناپاکی کو دور کرنے کے لیے غسل کی ضرورت ہوتی ہے۔
تیمم؛ وضو اورغسل کا بدل ہوتا ہے جس کے اپنے خاص احکام ہیں اس میں بھی نیت کرنا ضروری ہوتی ہے۔
مضاف پانی خبث یعنی ظاہری گندگی کو بھی دور نہیں کرتا مثال کے طور پر ہندوانہ کے پانی سے نجس کپڑا اگر دھو بھی دیا جائے پھر بھی وہ نجس ہی رہے گا۔
بعبارت دیگر: حدث اورخبث میں فرق یہ ہے کہ حدث کو دور کرنے کے لیے نیت کی ضرورت ہوتی ہے اورخبث کو دور کرنے کے لیے نیت کرنا ضروری نہیں ہے۔ ہاں اگر نیت قربت کرلے تو ثواب کا مستحق ہوجائے گا۔
مضاف پانی چاہے قلیل ہو یا کثیر ہو نجاست سے ملنے پر نجس ہوجاتا ہے اگرچہ اس حکم کا بعض کثیر تعداد کے مضاف پانیوں کے لیے بھی عام ہونا محل اشکال ہے۔
مسئلہ ۹: مطلق پانی کی پانچ قسمیں ہیں: ۱۔ کُرّ پانی، ۲۔ قلیل پانی،
۳۔ جاری پانی، ۴۔ بارش کا پانی، ۵۔ کنویں کا پانی۔
۱۔ کُرّ پانی
مسئلہ ۱۰:پانی کی وہ مقدار ایک کُرّ ہے جو ایک ایسے برتن کو بھر دے جس کی لمبائی، چوڑائی اورگہرائی تین تین بالشت ہو۔
افضل اوراکمل کُرّ یہ ہے کہ جس کی لمبائی، چوڑائی اورگہرائی ساڑھے تین تین بالشت ہو۔
مسئلہ ۱۱: جو چیز نجس ہوئی ہے جیسے لباس یا برتن، ان کو کُرّ پانی میں ایک مرتبہ دھو لیں تو پاک ہوجائیں گے۔
مسئلہ ۱۲: جو پانی کُرّ کی مقدار ہو پھر اگر اس میں شک ہوجائے کہ پانی کُرّ سے کم ہوا ہے تو یہ پانی کُرّ ہی کا حکم رکھتا ہے۔
اورجو پانی کُرّ کی مقدار سے کم تھا اگر اس مین شک ہو جائے کہ اب کُرّ کی مقدار تک ہوگیا ہے یا کہ نہیں اس کا حکم یہ ہے یہ پانی کُرّ نہیں ہے۔
۲۔ قلیل پانی:
قلیل پانی ، وہ پانی ہے جو زمین سے نہ اُبلے اورجس کی مقدار ایک کُرّ سے کم ہو۔
مسئلہ ۱۳: جب قلیل پانی کسی نجس چیز پر گرے یا کوئی نجس چیز اس سے آملے تو پانی نجس ہوجائے گا۔ البتہ اگر پانی نجس چیز پر زورسے گرے تو اس کا جتنا حصہ اس نجس چیز سے مل جائے گا نجس ہوجائے گا لیکن باقی پاک رہے گا۔
۲۔قلیل پانی:
قلیل پانی ، وہ پانی ہے جو زمین سے نہ اُبلے اورجس کی مقدار ایک کُرّ سے کم ہو۔
مسئلہ ۱۳: جب قلیل پانی کسی نجس چیز پر گرے یا کوئی نجس چیز اس سے آملے تو پانی نجس ہوجائے گا۔ البتہ اگر پانی نجس چیز پر زورسے گرے تو اس کا جتنا حصہ اس نجس چیز سے مل جائے گا نجس ہوجائے گا لیکن باقی پاک رہے گا۔
جاری پانی:
جاری پانی وہ ہے جو زمین سے اُبلےاوربہتا ہو، مثلاً چشمے کا پانی۔
مسئلہ ۱۴: جاری پانی اگرچہ کُر سے کم ہی کیوں نہ ہو نجاست کے آملنے سے جب تک نجاست کی وجہ سے اس کی بو ، رنگ یا ذائقہ نہ بدل جائے پاک ہے۔
بارش کا پانی:
مسئلہ ۱۵: جس نجس چیز میں عین نجاست نہ ہو اگر اس پر ایک مرتبہ بارش ہوجائے تو جہاں جہاں بارش کا پانی پہنچ جائے وہ جگہ پاک ہوجاتی ہے اورقالین و لباس وغیرہ کا نچوڑنا بھی ضروری نہیں ہے لیکن بارش کے دو تین قطرے کافی نہیں ہیں بلکہ اتنی بارش ضروری ہے کہ کہا جائے کہ بارش ہو رہی ہے۔
مسئلہ ۱۶: اگربارش کا پانی ایک گڑھے میں جمع ہوجائےاوراس کی مقدار ایک کُر سے کم ہو توبارش رکنے کے بعد نجاست کی آمیزش سے وہ نجس ہوجائے گا۔
کنویں کا پانی:
مسئلہ ۱۷: ایک ایسے کنویں کا پانی جو زمین سے اُبلتا ہو اگرچہ مقدار میں ایک کُر سے کم ہو نجاست پڑنے پر جب تک اس نجاست کی وجہ سے اس کی بو، رنگ یا ذائقہ تبدیل نہ ہوجائے پاک ہے لیکن مستحب ہے کہ بعض نجاستوں کے گرنے پر کنویں سے تفصیلی کتابوں میں درج شدہ مقدار کے مطابق پانی نکال دیاجائے۔
مسئلہ ۱۸: کتے، سور اورغیر کتابی کا جھوٹا نجس ہےاور اس کا کھانا اورپینا حرام ہے مگر حرام گوشت جانوروں کا جھوٹا پاک ہے، بلی کے علاوہ اس قسم کے باقی سب جانوروں کا جھوٹا کھانا اورپینا مکروہ ہے۔
مسئلہ ۱۹: مؤمن کا جھوٹا (نیم خوردہ) شفا ہے بلکہ روایات معصومین علیہم السلام میں ہے کہ ستر بیماریوں کی شفا ہے۔
بیت الخلاء کے احکام
مسئلہ ۲۰: انسان پرواجب ہے کہ پیشاب اورپاخانہ کرتے وقت اوردوسرے مواقع پر اپنی شرمگاہ کو ان لوگوں سے جو اچھےاوربرے کی تمیز رکھتے ہیں خواہ وہ اس کے محرم ہی کیوں نہ ہوں چاہے مکلف ہوں یا نہ ہوں چھپا کر رکھے لیکن بیوی اورشوہر کے لیےاوران لوگوں کے لیے جو بیوی اورشوہر کے حکم میں آتے ہیں مثلاً کنیزاوراس کے مالک کے لیے، اپنی شرمگاہوں کو ایک دوسرے چھپانا ضروری نہیں۔
مسئلہ ۲۱: پیشاب یا پاخانہ کرتے وقت ضروری ہے کہ بدن کا اگلا حصہ یعنی پیٹ اورسینہ رو بہ قبلہ یا پشت بقبلہ نہ ہو۔
مسئلہ ۲۲: اگرپیشاب یا پاخانہ کرتے وقت کسی شخص کے بدن کا اگلا حصہ رو بہ قبلہ ہواوروہ اپنی شرمگاہ کو قبلے کی طرف سے موڑ لے تو یہ کافی نہیں۔
تذکر: اپنا مکان بنواتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ لیٹرین کا ظرف رو بہ قبلہ یا پشت بہ قبلہ قرار نہ پائے۔ اورجن گھروں میں وہ رو بہ قبلہ یا پشت بہ قبلہ ہیں ان کی اصلاح ضرور کرنی چاہیے۔
مسئلہ ۲۳: چار مقام پر رفع حاجت حرام ہے:
۱۔ بند گلیوں میں جب کہ گلی والوں نے اس کی اجازت نہ دی ہو۔
۲۔ کسی ایسے شخص کی زمین میں جس نے رفع حاجت کی اجازت نہ دی ہو۔
۳۔ ان جگہوں میں جو مخصوص افرادکے لیے وقف ہوں مثلاً بعض مدرسے۔
۴۔ ہر اس مقام میں جہاں، رفع حاجت کسی مومن کی بے حرمتی یا دین یا مذہب کی کسی مقدس چیز کی توہین کا باعث ہو۔
مسئلہ ۲۴: پیشاب کا مخرج پانی کے علاوہ کسی چیز سے پاک نہیں ہوتا اوراسے کُر یا جاری پانی سے ایک مرتبہ دھونا کافی ہے (اورجو ٹونٹیاں ان سے متصل ہیں ان کا بھی یہی حکم ہے)
قلیل پانی سے دو مرتبہ دھونا ضروری ہے۔
مسئلہ ۲۵: پاخانہ کے مخرج کو پانی سے دھویا جائے تو ضروری ہے کہ اس میں پاخانے کا کوئی ذرہ باقی نہ رہے البتہ رنگ یا بو باقی رہ جانے میں کوئی حرج نہیں اوراگر پہلی بارہی وہ مقام یوں دھل جائے کہ پاخانے کا کوئی ذرہ اس میں باقی نہ رہے تو باقی دھونا ضروری نہیں ہے۔
مسئلہ ۲۶: پتھر، ڈھیلا یا کپڑا یا انہی جیسی دوسری چیزیں اگر خشک اور پاک ہوں تو ان سے پاخانہ خارج ہونے کے مقام کو پاک کیا جاسکتا ہے۔
مسئلہ ۲۷: تین صورتوں میں پاخانہ خارج ہونے کا مقام (مقعد) صرف پانی سے پاک ہوگا:
۱۔ پاخانے کے ساتھ کوئی اورنجاست باہر آئی ہو، جیسے خون۔
۲۔ کوئی بیرونی نجاست پاخانے کے مخرج پر لگ گئی ہو۔
۳۔ پاخانے کے مخرج کے اطرف معمول سےزیادہ آلودہ ہوگئے ہوں۔
مسئلہ ۲۸: نماز سے پہلے، سونے سے پہلے، مباشرت کرنے سے پہلے اورمنی خارج ہونے کے بعدپیشاب کرنا مستحب ہے۔
استبراء
استبراء ایک ایسا عمل ہے جو مرد پیشاب کرچکنے کے بعد اس غرض سے انجام دیتے ہیں کہ اس کے بعد آلہ تناسل سے نکلنے والی رطوبتوں پرپیشاب کا حکم نہ لگے اس کی کئی ترکیبیں ہیں جن میں بہترین یہ ہے کہ پیشاب آنابند ہوجانے کے بعد تین دفعہ بائیں ہاتھ کی درمیانی انگلی کے ساتھ مقعد سے لے کر عضو تناسل کی جڑ تک سونتےاور اس کے بعد انگوٹھے کو عضو تناسل کے اوپر اورانگوٹھے کے ساتھ والی انگلی کو اس کے نیچے رکھے اورتین بارختنے کی جگہ تک سونتے اورپھر تین دفعہ حشفہ کو دبائے۔
استبراء کرنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اگرانسان پیشاب کے بعد استبراء کرے اورپھر کوئی ایسی رطوبت خارج ہو جس کے بارے میں شک ہوجائے کہ پیشاب ہے یا منی کے علاوہ کوئی اوررطوبت ہے تو اس رطوبت کو پاک سمجھے۔
مسئلہ ۲۹: عورت کے لیےپیشاب کے بعد استبراء نہیں ہے اگر کوئی رطوبت خارج ہو اورشک ہو کہ یہ پیشاب ہے یا نہیں تو وہ رطوبت پاک ہوگی اور اس سے وضو یا غسل بھی باطل نہیں ہوگا۔
نجاسات
مسئلہ ۳۰: دس چیزیں نجس ہیں:
۱۔ پیشاب ۲۔ پاخانہ ۳۔ منی ۴۔ مردار ۵۔ خون
۶۔ کُتا ۷۔ سور ۸۔ شراب ۹۔ فقاع (جو کی شراب)
۱۰۔ کافر
۱، ۲۔ پیشاب اورپاخانہ
مسئلہ ۳۱:انسان اورخون جہندہ رکھنے والے، یعنی اگر اس کی رگ کاٹی جائے تو خون اُچھل کر نکلےاور ہر حرام گوشت حیوان کاپیشاب اورپاخانہ نجس ہے اورخون جہندہ نہ رکھنے والے حرام گوشت جانور مثلاً حرام مچھلی کا پاخانہ، اسی طرح گوشت نہ رکھنے والے چھوٹے حیوانوں مثلاً مچھر اورمکھی کا فضلہ پاک ہے۔
مسئلہ ۳۲: جن پرندوں کا گوشت حرام ہے ان کاپیشاب اورفضلہ پاک ہے لیکن ان سے پرہیز احوط ہے۔
۳۔منی
مسئلہ ۳۳: انسان کی اور ہر خون جہندہ رکھنے والے جانور کی منی نجس ہے خواہ وہ جانور ہو کہ جس کا گوشت کھایا جاتا ہو اورجو خون جہندہ نہیں رکھتا اس کی منی پاک ہے۔
۴۔مردار
مسئلہ ۳۴: انسان کی اورخون جہندہ رکھنے والے ہر حیوان کی لاش نجس ہے خواہ وہ خود مرا ہو یا اسے شریعت کے مقرر کردہ طریقے کے علاوہ کسی طریقہ سے مارا گیا ہو۔
مچھلی چونکہ خون جہندہ نہیں رکھتی اس لیے پانی میں بھی مرجائے تو پاک ہے۔
مسئلہ ۳۵: اگر کسی انسان یا خون جہندہ رکھنے والے حیوان کے بدن سے اس کی زندگی میں ہی گوشت یا کوئی دوسرا ایسا حصہ جس میں جان ہو، جدا کر دیا جائے تو نجس ہے۔
۵۔ خون
مسئلہ ۳۶: انسان اورخون جہندہ رکھنے والے ہر حیوان یعنی وہ حیوان جس کی رگ کاٹی جائے تو اس میں سے خون اچھل کر نکلے، کا خون نجس ہے پس ایسے جانوروں مثلاً مچھلی اورمچھر کہ جو اچھلنے والا خون نہیں رکھتے کا خون پاک ہے۔
مسئلہ ۳۷: حلال گوشت جانور کو اگرشریعت کے مقرر کردہ قواعد کے مطابق ذبح کیا جائے اورمعمول کے مطابق اس کا خون خارج ہوجائے تو جو خون بدن میں باقی رہ جائے وہ پاک ہے لیکن اگر جانور کے سانس لینے سے یا اس کا سر اونچی جگہ ہونے کی وجہ سے بدن میں واپس پلٹ جائے تو وہ خون نجس ہوگا۔
مسئلہ ۳۸: اگرانڈے میں خون ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر نجس ہے۔
مسئلہ ۳۹: وہ خون کہ جو بعض اوقات دودھ دوھتے وقت نظرآتا ہے نجس ہے ور دودھ کو نجس کر دیتا ہے۔
۶، ۷۔ کتا اورسور
مسئلہ ۴۰: وہ کتا اورسور جو خشکی میں رہتے ہیں نجس ہیں حتیٰ کہ ان کے بال، ہڈیاں، ناخن اوررطوبتیں بھی نجس ہیں۔
۸۔ شراب
مسئلہ ۴۱: شراب اورنبیذ جو کہ مست کردیتی ہیں جب وہ مایع بالاصالہ یعنی بہنے والی چیزوں سے ہوں وہ نجس ہیں اوراحتیاط کی بناء پر ہر وہ چیز جو کہ انسان کو مست کردیتی ہے چنانچہ خود بخودروان اورجاری ہو وہ بھی نجس ہے۔ اوراگر بھنگ، حشیش (چرس) وغیرہ جو کہ بہنے والی نہیں ہوتیں پاک ہیں اگرچہ اس میں کوئی چیز ڈالی جائے جس سے وہ بہہ نکلے، لیکن اس کا پینا حرام ہے۔
مسئلہ ۴۲: اسپرٹ جو کہ اخشاب یا دوسرے اجسام سے بنایا جاتا ہےظاہر یہ ہے کہ اس کی سب اقسام پاک ہیں۔
مسئلہ ۴۳: فقاع وہ شراب ہے جو کہ جَو سے بنائی جاتی ہے نجس ہے لیکن ماء الشعیر جس کو طبیب خاص طریقے سے بناتے ہیں اورعلاج میں استعمال کرتے ہیں وہ پاک ہے۔
مسئلہ ۴۴: کھجور، منقیٰ اورکشمش کو غذا میں ڈالا جاسکتا ہے خواہ ان کو اس میں اُبال بھی آجائے یہ پاک اور ان کا کھانا حلال ہے۔
۱۰۔ کافر
مسئلہ ۴۵: کافر یعنی وہ شخص جو خدا یا حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کی رسالت یا قیامت کا منکر ہو یا خدااوررسول ؐ میں شک رکھتا ہو، یا کسی کو خداکا شریک گردانتا ہو یا خداکے ایک ہونے کے بارے میں مشکوک ہو، نجس ہے۔
اسی طرح خوارج یعنی وہ افراد جو امام معصوم علیہ السلام کےخلاف خروج کریں، غلات یعنی وہ افرادجو کسی بھی امام علیہ السلام کی خدائی کے قائل ہوں یا یہ کہتےہوں کہ خدا ان میں حلول کر گیا ہے اورنواصب یعنی ہر وہ فرد جو کسی بھی امام علیہ السلام یا جناب سیدہ حضرت فاطہ زہرا علیہا السلام کا دشمن ہو نجس ہیں اور(اسی طرح) ہر وہ فرد جو ضروریات دین مثلاً نماز اورروزےمیں سے کسی کا یہ جاننے کے باوجود کہ ضروریات دین میں سے ہے، منکر ہوجائے نجس ہے۔
مسئلہ ۴۶: اہل کتاب یعنی یہودی اورعیسائی بعید نہیں ہے کہ پاک ہوں لیکن احوط یہ ہے کہ ضرورت نہ ہونے کی صورت میں ان سے اجتناب کیا جائے۔
نجاست ثابت ہونے کا طریقہ
مسئلہ ۴۷: کسی بھی چیز کی نجاست تین طریقوں سےثابت ہوتی ہے:
۱۔ خودانسان کو علم ہوجائے کہ فلاں چیز نجس ہے اوراگر کسی چیز کے متعلق گمان ہو کہ نجس ہے تو اس سے پرہیز کرنا ضروری نہیں ہے۔
۲۔ جس شخص کے اختیار میں کوئی چیز ہو وہ اس کے بارے میں کہے کہ نجس ہے جب کہ وہ جھوٹا نہ سمجھا جاتا ہو مثلاً کسی شخص کی بیوی یا نوکر یا ملازمہ جب کہ وہ جھوٹ بولنے میں متھم نہ ہوں کہیں کہ برتن یا کوئی دوسری چیز جو ان کے اختیار میں ہے نجس ہے۔
۳۔ دو عادل مرد جس چیز کی نجاست پر گواہی دیں بلکہ ایک عادل شخص یا ایک قابل اعتماد جو خوادہ عادل نہ بھی ہو کسی چیز کے بارے میں کہے کہ نجس ہےاوراس کی بات کے برخلاف بات کا گمان بھی نہ ہو تو اس چیز سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔
مطہرات
مسئلہ ۴۸: بارہ چیزیں نجاست کو پاک کرتی ہیں اورانہیں مطہرات کہا جاتا ہے:
۱۔ پانی ۲۔ زمین ۳۔ سورج
۴۔ استحالہ ۵۔ انقلاب ۶۔ انتقال
۷۔ اسلام ۸۔ تبعیت ۹۔ عین نجاست کا زائل ہونا
۱۰۔ نجاست خور جانور کا استبراء ۱۱۔ مسلمان کا غائب ہوجانا ۱۲۔ ذبح کیے گئے جانور کے بدن سے معمول کے مطابق خون کا نکل جانا۔
۱۔پانی
مسئلہ ۴۹: پانی چار شرطوں کے ساتھ نجس چیز کو پاک کرتا ہے (البتہ وہ شی پاک ہونے کی قابلیت رکھتی ہو)
۱۔ پانی مطلق (یعنی خالص) ہو کیونکہ مضاف پانی، نجس چیز کو پاک نہیں کرتا جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔
۲۔ پانی پاک ہو۔
۳۔ نجس چیز کو دھونے کےدوران پانی مضاف نہ بن جائے اورجس دھونے کے بعدمزید دھونا ضروری نہ ہو تو یہ بھی ضروری ہے کہ پانی کی بو، رنگ یا ذائقہ نجاست کی وجہ سے بدل نہ جائے لیکن آخری دھونا نہ ہونے کی صورت میں پانی کے بدل جانے میں کوئی حرج نہیں مثلاً اگر کسی چیز کو دو مرتبہ دھونا ضروری ہو تو خواہ پانی کا رنگ ، بو یا ذائقہ پہلی مرتبہ دھونے کے وقت بدل جائے لیکن دوسری مرتبہ استعمال کیے کیے جانے والے پانی میں ایسی کوئی تبدیلی رونما نہ ہو تو چیز پاک ہوجائے گی۔
۴۔ نجس چیز کو پاک کرنے کے بعد اس میں عین نجاست کےذرات باقی نہ رہیں۔
مسئلہ ۵۰: نجس برتن کو قلیل پانی سے تین باردھونا ضروری ہے کُر اورجاری پانی میں ایک مرتبہ دھونا کافی ہے لیکن وہ برتن جس میں کتے نے کوئی بہنے والی چیز پی لی ہو پہلے اس میں مٹی اور اس پر کچھ پانی ڈالا جائے جس کے ساتھ اس کو مانجھ لیا جائے۔ احتیاط کی بناء پر مٹی پاک ہو۔ پھر اس پر پانی ڈالا جائے کہ مٹی زائل ہوجائے پھر اس کو کُر پانی یا جاری پانی میں ایک مرتبہ دھو لیا جائے قلیل (تھوڑے) پانی سے دو مرتبہ دھویا جائے۔ کتے کے چاٹے ہوئے برتن کو پاک کرنے کے لیے بھی احتیاط واجب کی بناء پر برتن دھونے سے پہلے مٹی سے مانجھا جائے۔ اوراگر اس کی رالیں برتن میں گری ہوں تو مانجھنا ضروری نہیں ہے (صرف دھونا کافی ہے)
مسئلہ ۵۱: جس برتن میں سور نے کوئی بہنے والی چیز پی ہو یا اس کو چاٹا ہو یا اس میں صحرائی چوہا مرگیا ہو اسے سات مرتبہ دھونا ضروری ہے خواہ پانی قلیل ہو یا کُر یا جاری ہو۔
مسئلہ ۵۲: شراب سے نجس شدہ برتن کو تین مرتبہ دھونا ضروری ہے اس میں قلیل ، کُر اورجاری پانی میں کوئی فرق نہیں ہے اوراحتیاط مستحب یہ ہے کہ سات مرتبہ دھوئے۔
مسئلہ ۵۳: نجس برتن کو قلیل پانی سے دو طریقے سے دھویا جاسکتا ہے:
۱۔ برتن کو تین بارپانی سے بھرا جائےاورہر مرتبہ خالی کردیا جائے
۲۔ برتن میں تین بارمناسب مقدار میں پانی ڈالیں اور ہر بارپانی کو اس میں یوں گھمائیں کہ وہ تمام نجس جگہوں تک پہنچ جائے اورپھر اسے پھینک دیں۔
مسئلہ ۵۴: پیشاب سے نجس شدہ چیز کو اگر قلیل پانی سے دھونا مقصود ہو تو جب اس پر ایک مرتبہ پانی ڈالا جائےاور وہ اس سے جداہوجائے اس طرح کہ پیشاب اس چیز کے اندر باقی نہ رہے تو دوسری مرتبہ اس کے اوپر پانی ڈالنے سے وہ چیز پاک ہوجائے گی لیکن لباس اورقالین وغیرہ میں ضروری ہے کہ ہر بارنچوڑنے یا ایسے ہی کسی طریقے سے اس کا غسالہ نکالا جائے۔ (غسالہ یا دھون اس پانی کو کہتے ہیں جو کسی دھوئی جانے والی چیز سے دھلنے کےدوران یا دھل جانے کے بعد خود بخود یا نچوڑنے یا اس جیسے کسی طریقے سے نکلتا ہے)
مسئلہ ۵۵: جو چیز ایسے شیر خوار بچے (جب کہ وہ بیٹا ہو نہ کہ بیٹی) کے پیشاب سے جس نے کوئی غذا کھانا شروع نہ کی ہو، نجس ہوجائے اگر اس پر ایک مرتبہ اس طرح پانی ڈالا جائے کہ نجس جگہوں تک پہنچ جائے تو وہ چیز پاک ہو جائے لیکن مستحب یہ ہے کہ مزید ایک بار اس پر پانی ڈالا جائے اورلباس و قالین وغیرہ کو نچوڑنا ضروری نہیں۔
مسئلہ ۵۶: جو چیزپیشاب کے علاوہ اورچیز سے نجس ہوجائے اسے قلیل پانی سے پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ عین نجاست زائل کرنے کے بعد اس پر ایک مرتبہ پانی ڈال دیں جو اس چیز سے نکل جائے تو وہ پاک ہو جائے گی لیکن لباس جیسی چیزوں کو نچوڑیں تاکہ اس کا غسالہ نکل جائے۔
مسئلہ ۵۷: اگر کُر یا جاری پانی میں بدن کی نجاست کودور کیا جائے تو بدن پاک ہو جاتا ہے پھر پانی سےباہر آنا اوردوبارہ پانی میں جانا ضروری نہیں ہے۔
مسئلہ ۵۸: جس نجس لباس کو نیل یا اس جیسی کسی چیز سے رنگا گیا ہو، اگر کُر یا جاری پانی میں ڈبو دیاجائے یا قلیل پانی سے دھویا جائے اورنچوڑتے وقت اس سے مضاف پانی نہ نکلے تو پاک ہوجائے گا۔
مسئلہ ۵۹: پیشاب سے نجس شدہ تنور میں اگر اوپر سے اس طرح پانی ڈالا جائے کہ اس کی تمام نجس اطراف تک پہنچ جائے تو تنور پاک ہوجائے گا اوراگر تنور پیشاب کے علاوہ کسی اورچیز سے نجس ہو تو نجاست دورکرنے کے ساتھ مذکورہ طریقے کے مطابق اس میں ایک بارپانی ڈالنا کافی ہے۔
اوربہتر یہ ہے کہ تنور کی تہہ میں ایک گڑھا کھود لیا جائے جس میں پانی جمع ہوسکے پھر اس پانی کو نکال لیا جائے اورگڑھے کو پاک مٹی سے پُر کردیا جائے۔
۲۔زمین
مسئلہ ۶۰: زمین تین شرائط کے ساتھ پاؤں کے نچلے حصے اورجوتے کے تلوے جو کہ نجس زمین پر چلنے یا پاؤں رکھنے کی وجہ سے نجس ہوگئے ہوں پاک کرتی ہے۔
۱۔ زمین پاک ہو
۲۔ خشک ہو
۳۔ عین نجاست مثلاً خون اورپیشاب یا نجس شدہ چیز مثلاً نجس کیچڑ جوپاؤں یا جوتے کے تلوے میں لگا ہوا ہو زمین پر چلنے یا زمین پر رگڑنے کی وجہ سے ہٹ جائے۔ زمین میں یہ بھی ضروری ہے کہ یا مٹی ہو یا پتھر، اینٹ یا اس جیسی چیزوں سے بنی ہو۔ قالین، گھاس، چٹائی یا ان جیسی کسی چیز پر چلنے سےپاؤں اورجوتے کے تلوے پاک نہیں ہوتے۔
مسئلہ ۶۱: پاؤں کا تلوا یا جوتے کا نجس تلوا، پکی سڑک (اسفالٹ) پر چلنے سے پاک ہونا محل اشکال ہے۔
مسئلہ ۶۲: پاؤں یا جوتے کے تلوے کو پاک کرنے کے لیے بہتر ہے کہ پندرہ ہاتھ یا اس سےزیادہ فاصلہ زمین پر چلے خواہ پندرہ ہاتھ سے کم چلنے یا پاؤں زمین پر رگڑنے سے نجاست دورہوگئی ہو۔
مسئلہ ۶۳: پاک ہونے کے لیےپاؤں یا جوتے کے نجس تلوے کا تر ہونا ضروری نہیں بلکہ خشک بھی ہوں تو زمین پر چلنے سے پاک ہوجاتے ہیں ۔
مسئلہ ۶۴: جب پاؤں یا جوتے کا نجس تلوا زمین پر چلنے سے پاک ہوجاتے ہیں تو اس کے اطراف کے اتنے حصے بھی جنہیں عموماً کیچڑ لگ جاتی ہے پاک ہوجاتے ہیں۔
مسئلہ ۶۵: اگر کسی ایسے شخص کے ہاتھ کی ہتھیلی یا گھٹنا نجس ہو جائے جو ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل چلتا ہو تو اس کے راستے چلنے سے اس کی ہتھیلی یا گھٹنے کا پاک ہونا محل اشکال ہے یہی صورت لاٹھی اورمصنوعی ٹانگ کے نچلے حصے، چوپائے کے نعل، موٹر گاڑیوں اورٹانگے وغیرہ کے پہیوں کی ہے (یعنی ان کا پاک ہونا محل اشکال ہے)
مسئلہ ۶۶: اگر زمین پر چلنے کے بعد نجاست کی بو یا رنگ یا باریک ذرےجو نظر نہیں آتے، پاؤں یا جوتے کے تلوے سے لگے ہوں تو کوئی حرج نہیں اگرچہ احتیاط مستحب ہے کہ زمین پر اس قدر چلا جائے کہ وہ بھی زائل ہوجائیں۔
مسئلہ ۶۷: جوتے کا اندرونی حصہ زمین پر چلنے سے پاک نہیں ہوتا اورزمین پر چلنے سے جوراب (موزے) کے نچلے حصے کا پاک ہونا محل اشکال ہے۔
۳۔ سورج
مسئلہ ۶۸: زمین عمارت اوردروازہ و کھڑکی کی طرح وہ چیزیں جو عمارتوں میں استعمال ہوتی ہیں اوراسی طرح دیوار کے اندر ٹھونکی ہوئی کیل کو پانچ شرطوں کے ساتھ پا ک کرتا ہے۔
۱۔ نجس چیز گیلی ہو ، اگر خشک ہو تو ضروری ہے کہ اسے کسی طرح تر کرلیا جائے تاکہ سورج اسے خشک کرے۔
۲۔ اگر اس چیز میں عین نجاست ہو تو اس سے پہلے کہ وہ جگہ سورج کے ذریعے خشک ہو عین نجاست کو ہٹادیا جائے۔
۳۔ کوئی چیز دھوپ ٹھہرنے میں رکاوٹ نہ ڈالے پس اگر دھوپ پردے، بادل یا ایسی ہی چیز کے پیچھے سے نجس چیز پر پڑے اوراسے خشک کردے تو وہ چیز پاک نہیں ہوگی، البتہ اگر رکاوٹ اتنی نازک ہو کہ دھوپ کو نہ روکے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
۴۔ سورج اکیلا ہی نجس چیز کو خشک کرے لہذا مثال کے طور پر اگر نجس چیز ہوا اوردھوپ سے خشک ہو تو پاک نہیں ہوتی ہاں، اگر ہوا اتنی ہلکی ہو کہ یہ نہ کہا جاسکے کہ نجس چیز کو خشک کرنے میں اس نے بھی کوئی مدد کی ہے تو پھر کوئی حرج نہیں۔
۵۔ عمارت کے جتنے حصے میں نجاست سرایت کر گئی ہے دھوپ اسے ایک ہی مرتبہ میں خشک کردے، پس اگر ایک مرتبہ دھوپ نجس زمین اورعمارت پر پڑےاوراس کا سامنے والا حصہ خشک کرے اوردوسری مرتبہ نچلے حصے کو خشک کرے تو اس کا سامنے والا حصہ پاک ہوجائے گا اورنچلا حصہ نجس رہے گا۔
مسئلہ ۶۹: سورج سے نجس چٹائی کا پاک ہونا محل اشکال بلکہ ممنوع ہے لیکن زمین میں اُگے ہوئے درخت، گھاس، کاٹنے سے پہلے سورج کی وجہ سے پاک ہوجاتےہیں۔
۴۔ استحالہ
مسئلہ ۷۰: اگر کوئی نجس چیز پاک چیز کی صورت میں یوں تبدیل ہوجائے کہ (عرف کی نگاہوں میں) اس کی حقیقت ہی بدل جائے تو وہ پاک ہوجاتی ہے مثال کے طور پر لکڑی جل کر راکھ ہوجائے یا کتا نمک کی کان میں گر کر نمک بن جائے۔
لیکن اگر اس چیز کی حقیقت نہ بدلے مثلاً گندم کو پیس کرآٹا بنا لیا جائے یا روٹی پکالی جائے تو وہ پاک نہیں ہوگا۔
مسئلہ ۷۱: مٹی کا کوزہ اوردوسری چیزیں جو نجس مٹی سے بنائی جائیں نجس ہیں اور وہ کوئلہ جسے نجس لکڑی سے تیار کیا گیا ہو نجس ہے۔
مسئلہ ۷۲: ایسی نجس چیز جس کے متعلق علم نہ ہو کہ آیا اس کا استحال ہوا ہے یا کہ نہیں وہ نجس ہے۔
۵۔انقلاب
مسئلہ ۷۳: اگر شراب خود بخود یا کوئی چیز مثلاً سرکہ یا نمک ملانے سے سرکہ بن جائے تو پاک ہوجاتی ہے۔
مسئلہ ۷۴: وہ سرکہ جو نجس انگور ، کشمش یا کھجور سے تیار کیا جائے نجس ہے۔
مسئلہ ۷۵: اگر انگور یا کھجور کےباریک چھلکے بھی ساتھ ہوں اور ان میں سرکہ ڈال دیاجاٹے تو کوئی حرج نہیں بلکہ اس میں کھیرے اوربینگن وغیرہ ڈالنے میں بھی اشکال نہیں ہے خواہ انگور یا کھجور کے سرکہ بننے سے پہلے ہی ڈالے جائیں سوائے اس کے سرکہ بننے سے پہلے یہ نشہ اورہوچکے ہوں۔
مسئلہ ۷۶: اگر انگور کے رس میں آگ پر رکھنے سے ابال آجائے تو وہ حرام ہوجاتا ہے اوراگر وہ اتنا ابل جائے کہ اس کا دو تہائی حصہ ختم ہوجائےاورایک تہائی باقی رہ جائے تو حلال ہوجاتا ہے۔
مسئلہ ۷۷: اگر انگور کا ایک دانہ کسی ایسی چیز میں گر جائے جو آگ پر ابل رہی ہواوروہ بھی ابلنے لگے لیکن وہ اس چیز میں حل نہ ہو تو صرف اس دانے کا کھانا حرام ہے۔
مسئلہ ۷۸: جس چیز کے بارے میں معلوم نہ ہو کہ یہ کچا انگور ہے یا پکا اگر اس میں ابال آجائے تو حلال ہے۔
۶۔انتقال
مسئلہ ۷۹: اگرانسان یا خون جہندہ رکھنے والے حیوان کے بدن کا خون ایسے حیوان کے بدن میں چلا جائے جو خون جہندہ نہ رکھتا ہواوراس کے بدن کا حصہ سمجھا جانے لگے تو وہ خون پاک ہوجائے گا اس کو انتقال کہتے ہیں۔
اسی طرح باقی سب نجاستیں بھی اگر اس حیوان کے بدن کا حصہ بن جائیں جس کے بدن میں منتقل ہوئی ہیں تو اسی حیوان کے اجزاء کا حکم ان پر جاری ہوگا، لیکن اگر حیوان کے بدن کا حصہ نہ بنیں بلکہ حیوان اس نجاست کے لیے ظرف کی طرح بن جائے تو نجس ہیں، اسی لیے وہ خون جو جونک انسان کے بدن سے چوستی ہے چونکہ وہ جونک کا خون نہیں کہلاتا بلکہ اسےانسان کا خون کہتے ہیں، نجس ہے۔
مسئلہ ۸۰: اگر کوئی شخص اپنے بدن پر بیٹھے ہوئے مچھر کو مار دے اورنہ جانتا ہو کہ اس مچھر سے نکلا ہوا خون مچھر ہی کا ہے یا اس کا اپنا چوسا جانے والا خون ہے، پاک ہے اوریہی حکم اس وقت ہے جب انسان جانتا ہو کہ اگرچہ یہ خون اس سے چوسا گیا ہے لیکن مچھر کے بدن کا حصہ بن چکا ہے ہاں اگر خون چوسے جانے اورمچھر مارنے کے درمیان فاصلہ اتنا کم ہو کہ اسےانسان کا ہی خون کہا جائے یا معلوم نہ ہوسکے کہ اسے مچھر کا خون کہا جائے گا یا انسان کا تو وہ خون نجس شمار ہوگا۔
۷۔اسلام
مسئلہ ۸۱: اگر کوئی کافر کسی بھی زبان میں خداکی وحدانیت اورخاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کی نبوت کی گواہی دے دے تو مسلمان ہو جاتا ہے اوراگرچہ وہ مسلمان ہونے سے پہلے نجس کے حکم میں تھا لیکن مسلمان ہوجانے کے بعد اس کا بدن تھوک، ناک کا پانی اورپسینہ پاک ہو جاتا ہے، ہاں مسلمان ہونے کے وقت اگر اس کے بدن پر کوئی عین نجاست ہو تو ضروری ہے کہ اسے دورکرےاوراس جگہ کو دھولے بلکہ اگر مسلمان ہونے سے پہلے ہی عین نجاست دورہوچکی ہو تب بھی احتیاط واجب یہ ہے کہ اس مقام کو دھولے۔
مسئلہ ۸۲: اگر کافر کے مسلمان ہونے سے پہلے اس کا لباس اس کی رطوبت سے اس کے بدن سے مس ہوا ہواور اس کے مسلمان ہوتے وقت وہ لباس اس کے بدن پر نہ ہو نجس ہے بلکہ اگر وہ لباس اس کے بدن پر ہو تب بھی احتیاط واجب کی بناء پر ضروری ہے کہ اس سے اجتناب کرے۔
مسئلہ ۸۳: اگر کافر شہادتین پڑھ لے اوریہ معلوم نہ ہو کہ وہ دل سے مسلمان ہوا ہے یا نہیں تو وہ پاک ہے اسی طرح اگر یہ علم ہو بھی کہ وہ دل سے مسلمان نہیں ہوا لیکن ایسی کوئی بات اس سےظاہر نہ ہوئی ہو جو توحیداور رسالت کی گواہی کے منافی ہو توہ (بحسب ظاہر) پاک ہے۔
۸۔ تبعیت
مسئلہ ۸۴: تبعیت کا مطلب یہ ہے کہ کوئی نجس چیز، کسی دوسری چیز کے پاک ہونے کی وجہ سے پاک ہوجائے۔
مسئلہ ۸۵: اگر شراب سرکہ بن جائے تو اس کا برتن بھی اس جگہ تک جہاں تک شراب اُبل کر پہنچی ہو پاک ہوجاتا ہے اوراگر کپڑا یا کوئی دوسری چیز بھی نجس ہوئی ہو جو عموماً اس پر رکھی جاتی ہے وہ بھی پاک ہوجاتی ہے لیکن اگر برتن کی بیرونی سطح اس شراب سے آلودہ ہوجائے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ شراب کے سرکہ بن جانے کے بعد اس سے پرہیز کیا جائے۔
مسئلہ ۸۶: کافر کا بچہ تبعیت کے ذریعے دو صورتوں میں پاک ہوجاتا ہے :
۱۔ جو کافر مرد مسلمان ہوجائے اس کا بچہ طہارت میں اسی کے تابع ہے اوراسی طرح بچے کادادا یا بچے کی ماں یا دادی مسلمان ہوجائیں تب بھی یہی حکم ہے۔
۲۔ کافر کا بچہ کسی مسلمان کے ہاتھوں قیدی بنا ہواوراس کے با پ یا جداد میں سے کوئی اس بچے کے ساتھ نہ ہو اور ان دونوں صورتوں میں بچے کےتبعیت کی بنا پر پاک ہونے کی شرط یہ ہے کہ وہ ممیز ہونے کی صورت میں کفر کا اظہار نہ کرے۔
مسئلہ ۸۷: وہ تختہ یا سل جس پر میت کو غسل دیاجائےاور وہ کپڑا جس سے میت کی شرمگاہ ڈھانپی جائے نیز غسال (غسل دینے والے) کے ہاتھ یہ تمام چیزیں جو میت کے ساتھ ہی دھل گئی ہیں غسل مکمل ہونے کے بعد پاک ہوجاتی ہیں۔
مسئلہ ۸۸: غسل دینے والے کے ہاتھ کے علاوہ باقی بدن اور اس کا لباس اورغسل میں استعمال ہونے والے دوسرے آلات کا میت کو غسل دینے کے ساتھ پاک ہونا محل اشکال ہے۔
مسئلہ ۸۹: اگر کوئی شخص کسی چیز کو پانی سے دھوئے تو اس چیز کے پاک ہونے پر اس شخص کا وہ ہاتھ بھی جو اس چیز کے ساتھ ہی دھل چکا ہے، پاک ہوجاتا ہے۔
مسئلہ ۹۰: اگر لباس یا اس جیسی چیز کو قلیل پانی سے دھویا جائے اورمعمول کے مطابق نچوڑدیا جائے تاکہ جس پانی سے اسے دھویا گیا ہے وہ نکل جائے تو جو پانی اس میں رہ جائے وہ پاک ہے (البتہ مخفی نہ رہے کہ کسی چیز کی نجاست برطرف ہونے کے بعد کبھی ایک مرتبہ اسے دھونا ہوگا تو اس صورت میں اس سے جداہونے والا پانی پاک ہے جب اس میں عین نجاست نہ ہو۔ اورکبھی بعض نجاسات کی وجہ سے اسے قلیل پانی سے دو مرتبہ دھونا ضروری ہوتا ہے نجاست کے برطرف ہونے کے بعد پہلی مرتبہ کے غسالہ سے بناء بر احتیاط واجب، اجتناب کرنا ضروری ہے اوردوسری مرتبہ دھونے کا غسالہ پاک ہے)
مسئلہ ۹۱: جب نجس برتن کو قلیل پانی سے دھویا جائے تو جو پانی برتن کو پاک کرنے کے لیے اس پر ڈالا جائے اس کے بہہ جانے کے بعد جو پانی معمول کے مطابق اس میں باقی رہ جائے پاک ہےاوروہ پانی جو اس سے جداہو اس کا حکم اوپر والے مسئلہ میں بیان ہوچکا ہے۔
۹۔ عین نجاست کا دورہونا
مسئلہ ۹۲: اگر کسی حیوان کا بدن عین نجاست مثلاً خون یا نجس شدہ چیز مثلاً نجس پانی سے آلودہ ہوجائے تو اس نجاست کے دورہوتے ہی حیوان کا بدن پاک ہوجاتا ہے۔ یہی صورت انسانی بدن کے اندرونی حصوں مثلاً منہ اور ناک کے اندر کی ہے مثال کے طور پر اگر مسوڑھوں سے خون نکلے اورلعاب دہن میں گھل کر ختم ہوجائے تو منہ کے اندرونی حصے کو پاک کرنا ضروری نہیں ہے لیکن اگر عاریہ یا مصنوعی دانتوں سے منہ کا خون لگ جائے تو انہیں پاک کرنا ضروری ہے۔
مسئلہ ۹۳: اگر نجس گرد و غبار خشک کپڑے، قالین یا ایسی ہی کسی چیز پر بیٹھ جائے چنانچہ کپڑے وغیرہ کو یوں جھاڑ لیا جائے کہ نجس مٹی یا خاک اس سے الگ ہوجائے تو س کے بعد اگر کوئی تر چیز کپڑے وغیرہ کو مس ہوجائے تو وہ نجس نہیں ہوگی۔
۱۰۔ نجاست کھانے والے حیوان کا استبراء
مسئلہ ۹۴: جس حیوان کو انسانی نجاست کھانے کی عادت پڑ گئی ہو اس کاپیشاب اورپاخانہ نجس ہے اوراگر اسے پاک کرنا چاہئیں تو ضروری ہے کہ اس کا استبراء کیا جائے یعنی اتنے عرصے تک اسے نجاست نہ کھانے دیں ، اسے پاک غذا دیں کہ پھر اسے نجاست کھانے والا نہ کہا جاسکے۔
ہاں احتیاط واجب یہ ہے کہ نجاست کھانے والےاونٹ کے ساتھ چالیس، گائے کے ساتھ بیس، بھیڑ کے ساتھ دس، مرغابی کے ساتھ پانچ، بہتر یہ ہے کہ سات اورگھریلو مرغی کے ساتھ تین دن اس طریقے پر عمل کیا جائے اوراگر مقررہ مدت گزرنے کے بعد بھی انہیں نجاست خور کہا جائے تو مزیداتنے عرصے تک مذکورہ طریقے پر عمل ضروری ہے کہ پھر انہیں نجاست خور نہ کہا جائے۔
۱۱۔ مسلمان کا غائب ہونا
مسئلہ ۹۵: اگر کسی مسلمان کے بدن یا لباس یا دوسری اشیاء کے بارے میں جو اس کے اختیار میں ہوں مثلاً برتن، قالین وغیرہ، نجاست کا یقین ہوجائے اورپھر وہ مسلمان وہاں سے غیر حاضر ہوجائے تو یہ اشیاء اس شرط کے ساتھ پاک ہیں کہ انسان احتمال دے کہ اس شخص نے ان اشیاء کو پاک کرلیا ہوگا۔ البتہ ا س شرط کے ساتھ کہ وہ چیز ایسی چیزوں سے ہو جس میں طہارت شرط ہے جیسے لباس کہ جس میں وہ نماز پڑھتا ہو یا غذا اوربرتن۔
مسئلہ ۹۶: اگر کسی انسان کو یقین یا اطمینان ہوجائے کہ جو چیز نجس ہوگئی تھی اب وہ پاک ہوگئی ہے یا دو عادل یا ایک عادل شخص اس کے پاک ہونے کی خبر دے اسی طرح اگر ایک قابل اعتماد شخص جس کی کہی ہوئی بات کے برخلاف بات کا گمان نہ ہو کسی چیز کے پاک ہونے کی خبر دے تو وہ چیز پاک ہے۔
اوریہی حکم اس نجس چیز کے بارے میں ہے جو کسی شخص کے اختیار میں ہواوروہ اس کے پاک ہونے کی خبر دے جب کہ وہ شخص نجاست و طہارت کے مسئلے میں لاپرواہ نہ سمجھا جاتا ہو یا کسی مسلمان نے نجس چیز کو پاک کرلیا ہو اگرچہ معلوم نہ ہو کہ صحیح طرح پاک کیا ہے یا نہیں ۔
مسئلہ ۹۷: اگر کسی شخص کی یہ حالت ہوجائے کہ اسے کوئی نجس چیز دھوتے وقت یقین یا اطمینان ہی نہ آتاہو (جیسے وسواسی لوگ) تو وہ طہارت کے مسئلے میں عام افرادکے درمیان رائج طریقے پر اکتفاء کرسکتا ہے۔
۱۲۔ معمول کے مطابق ذبیحہ کے خون کا بہہ جانا
مسئلہ ۹۸: جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ جب کسی جانور کو شرعی طریقہ سے ذبح کرنے کے بعد ان کے بدن سے معمول کے مطابق خون نکل جائے تو اس کے بدن کے اندر باقی رہ جانے والا خون پاک ہے۔
مسئلہ ۹۹: مذکورہ بالا حکم صرف حلال گوشت جانوروں کے بارے میں ہے اورحرام گوشت جانوروں میں جاری نہیں ہوگا۔
برتنوں کے احکام
مسئلہ ۱۰۰: سونے چاندی کے برتنوں کو کھانے پینے میں استعمال کرنا حرام ہے۔ بلکہ احتیاط واجب کی بناء پر ان برتنوں کو حدث اورخبث سے طہارت میں بھی استعمال کرنا حرام ہے۔ بناء بر احتیاط واجب سونے اورچاندی کے برتنوں سے کمرے کو زینب بھی نہ دی جائے۔
مسئلہ ۱۰۱: سونے چاندی کے برتنوں کا استعمال کی غرض سے بنانااوراس غرض سے اس کی خرید و فروش جائز نہیں ہے اوربنانے کی اجرت لینا حرام ہے۔
مسئلہ ۱۰۲: ایسے برتن کے استعمال میں کوئی حرج نہیں جس کے بارے میں معلوم نہ ہو کہ یہ سونے چاندی کا ہے یا کسی اورچیز سے بنا ہوا ہے۔
وضو
ارشاد رب العزت ہے:
{ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِق ِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ}
(سورہ مائدہ آیت۶)
نمازی کے لیے ضروری ہے کہ نماز پڑھنے سے پہلے وضو کرے اوراپنےآپ کو اس بڑی عبادت کے لیے تیار کرے، کیونکہ نماز ایک اہم عبادت ہے، وضو کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکیزگی حاصل ہوجائےاوراس طہارت اورپاکیزگی کے ساتھ نمازادا کرے۔ جسمانی طہارت اور سب سےبڑی بات یہ ہے کہ روح کی طہارت کے ساتھ اپنے خداکے سامنےراز و نیاز کرے۔
نمازی کیونکہ خداوندمتعال کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اس لیے اسے چاہیے کہ وہ پاک اورپاکیزہ ہو۔ اوراپنےآپ کو تمام جسمانی اورروحانی آلودگیوں سے پاک کرے۔
اسی بنا پر گناہ سے پرہیز اورمعنوی طہارت حاصل کرنا خداوند متعال کے قریب ہونے کے لیے ضروری ہے۔
وضو اوراس کے اعمال
مسئلہ ۱۰۳: وضو کے دو طریقے ہیں:
۱۔ ترتیبی وضو ۲۔ ارتماسی وضو
ترتیبی وضو
ترتیبی وضو میں ضروری ہے کہ نیت کے ساتھ پہلے منہ کو دھوے اورپھردایاں ہاتھ اوراس کے بعدبایاں ہاتھ، ان کے دھونے کے بعد پانی کی وہ رطوبت جو ہاتھ پر باقی رہ جاتی ہے، اپنے سر کے اگلے حصے کا مسح کرے۔ یعنی: اپنے ہاتھ کو سر کے اوپر رکھ کر کھینچے، اورپھر دائیں پاؤں کا مسح کرے اورآخر میں بائیں پاؤں کا مسح کرے۔
مسئلہ ۱۰۴: وضو میں جن چیزوں کا دھونا ضروری ہے وہ منہ اورہاتھ ہیں ان کے دھونے کا طریقہ یہ ہے کہ
۱۔ منہ کا دھونا
وہ جگہ کہ جہاں سے سر کے بال اُگتے ہیں وہاں سے لیکر نیچے ٹھوڑی تک (لمبائی میں) اورچوڑائی میں جتنا فاصلہ درمیان والی انگلی اورانگوٹھے کے درمیان ہے اتنی مقدار میں منہ کا دھونا ضروری ہے ا ور اتنی مقدار دھل جانے کا یقین حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس مقدار کی اطراف سے بھی کچھ دھوئے۔
۲۔ ہاتھوں کا دھونا
کہنیوں سے لیکر انگلیوں کے سروں تک دھونا ضروری ہے ۔ کہنی کے مکمل دھل جانے کا یقین حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ کہنی سے اوپر کی کچھ مقدار بھی دھوئے۔
مسح کرنا
۱۔ سر کا مسح کرنا: پیشانی کے اوپر سر کے سامنے والے حصے کا مسح کرے۔
۲۔ پاؤں کا مسح کرنا: اس کی واجب مقدارپاؤں کے اوپری حصے میں پاؤں کی ایک انگلی سے لے کر گٹوں کے ابھار تک ہے اوراحتیاط واجب پاؤں کے جوڑ تک ہے۔
مسئلہ ۱۰۵: پاؤں پر مسح کی چوڑائی جتنی بھی ہو کافی ہے لیکن بہتر ہے کہ پاؤں کے پورے اوپری حصے کا مسح پوری ہتھیلی سے کیا جائے۔
مسئلہ ۱۰۶: وضو میں منہ اورہاتھوں کو ایک مرتبہ دھونا واجب ہے اوردوسری مرتبہ دھونا مستحب ہے اورتیسری مرتبہ اوراس سےزیادہ دھونا حرام ہے۔
مسئلہ ۱۰۷: سر کا اگلا حصہ جو پیشانی کے اوپر ہے ، مسح کی جگہ ہے۔مسح کی واجب مقدار جتنی بھی ہو کافی ہے لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ لمبائی میں ایک انگلی کی لمبائی کے برابر ہو اورچوڑائی میں تین جڑی ہوئی انگلیوں کے برابر ہو۔
مسئلہ ۱۰۸: سر کا مسح احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ دائیں ہاتھ سے کیا جائے۔
مسئلہ ۱۰۹: ضروری نہیں ہے کہ مسح سر کی جلد کے اوپر کیا جائے بلکہ بالوں پر بھی صحیح ہے لیکن اگر سر کے بال اتنے بڑے ہوں کہ کنگھی کرتے وقت منہ کے اوپر آجائیں تو ضروری ہے کہ سر کی جلد پر یا بالوں کی جڑوں پر مسح کرے۔
مسئلہ ۱۱۰: احتیاط واجب یہ ہے کہ ہاتھ کو انگلیوں کے سرے پر رکھے اورپیچھے کی طرف کھینچے (یعنی پاؤں کے ابھار کی جانب کھینچے) نہ یہ کہ پورے ہاتھ کوپاؤں پر رکھے اورتھوڑا سا کھینچے۔
۱۱۱: پاؤں کے مسح میں احتیاط واجب یہ ہے کہ دائیں پاؤں کا مسح دائیں ہاتھ سے پھر بائیں پاؤں کا مسح بائیں ہاتھ سے کیا جائے۔
مسئلہ ۱۱۲:
مسح میں ضروری ہے کہ ہاتھ کو سر اورپاؤں کے اوپر کھینچے اوراگر ہاتھ کو نہ ہلائے اورسر اورپاؤں کو کھینچے تو وضو باطل ہے لیکن اگر مسح کرتے وقت سر اورپاؤں تھوڑی سی حرکت کریں تو باطل نہیں ہے۔
مسئلہ ۱۱۳:
اگر مسح کے لیے رطوبت ہاتھوں پر باقی نہ رہے تو اضافی پانی سے تر نہیں کرنا چاہیے بلکہ ضروری ہے کہ ریش (داڑھی) سے رطوبت لے کر مسح کرے۔
مسئلہ ۱۱۴:
سر اورپاؤں کے مسح کی جگہ خشک ہونی چاہیے اوراگر مسح کی جگہ تر ہو تو اس کو خشک کیا جائے اوراگر وہ رطوبت اتنی کم مقدار میں ہے کہ ہاتھ کی رطوبت اس پر غالب آجائے تو پھر مسح صحیح ہے۔
مسئلہ ۱۱۵: جوراب اورجوتے کے اوپر مسح کرنا باطل ہے (لیکن تقیہ کی حالت میں کرسکتے ہیں ) لیکن اگر کوئی اورمجبوری ہو مثلاً شدید سردی کی وجہ سے جوراب یا جوتا اتارنامشکل ہو تو اس صورت میں جوراب یا جوتے پر مسح کرے نیز تیمم بھی کرے۔
مسئلہ ۱۱۶: ضروری ہے کہ مسح کی جگہ پاک ہو اوراگر نجس ہواوراس کو پاک بھی نہ کرسکتا ہو تو ضروری ہے کہ تیمم کرے۔
وضو کی شرطیں
مسئلہ ۱۱۷: صحیح وضو کی چند شرطیں ہیں:
۱۔ وضو کے برتن اورپانی کی شرطیں
وضو کا پانی پاک ہو (نجس نہ ہو) وضو کا پانی مباح ہو (غصبی نہ ہو)
وضو کا پانی مطلق ہو (مضاف نہ ہو) وضو کے پانی کا برتن مباح ہو اورسونے اورچاندی کا بنا ہوا نہ ہو۔
۲۔ وضو کے اعضا کی شرطیں
وہ پاک ہونے چاہئیں اور ان پر ایسی چیز نہ لگی ہو کہ جو پانی کے پہنچنے میں رکاوٹ ڈالے۔
۳۔ وضو کی کیفیت کی شرطیں
وضو کے اعمال میں ترتیب ضروری ہے ترتیب کے علاوہ موالات بھی ضروری ہے یعنی وضو کے اعمال میں فاصلہ نہیں ہونا چاہیے۔
۴۔ وضو کرنے کی شرطیں
وضو خود کرے دوسرے سے مدد نہ لے، پانی کا استعمال اس کے لیے نقصان دہ نہ ہو۔ قربت کی نیت سے وضو کرے ، وضو اورنماز کے لیے کافی وقت ہو۔
وضو خود کرے دوسرے سے مدد نہ لے، پانی کا استعمال اس کے لیے نقصان دہ نہ ہو۔ قربت کی نیت سے وضو کرے ، وضو اورنماز کے لیے کافی وقت ہو۔
۱۔ وضو کے برتن اورپانی کی شرطیں
۱۔ نجس اورمضاف پانی سے وضو باطل ہے خواہ وہ جانتا ہو کہ وہ آب نجس یا مضاف ہے یا نہ جانتا ہو یا بھول گیا ہو۔
۲۔ وضو کا پانی ضروری ہے کہ مباح ہو۔ پس درج ذیل موارد میں وضو باطل ہے:
(الف) اس پانی کے بارے میں معلوم ہو کہ اس کا مالک راضی نہیں ہے۔
(ب) وہ پانی کہ جس کے بارے میں معلوم نہ ہو کہ اس کا مالک راضی ہے یا نہیں۔
(ج) وہ پانی کہ جو خاص لوگوں کے لیے وقف ہے مثلاً بعض مدرسوں کا حوض اوربعض ہوٹلوں اورمسافر خانوں کا وضو خانہ۔
۳۔ اگرانسان نہ جانتا ہو کہ بڑی نہروں کا مالک وضو کرنے پر راضی ہے یا نہیں تو وضو صحیح ہے اوراگر ان کا مالک وضو کرنے سے روکے تو پھر اس پانی سے وضو نہ کیا جائے۔
۴۔ وضو کا پانی اگر غصبی برتن میں ہو یا سونے اورچاندی کے برتن میں تو اس سے وضو نہ کیا جائے۔
۲۔ وضو کے اعضا کی شرطیں
وہی ہیں جو پہلے ذکر ہوچکی ہیں۔
۳۔ وضو کی کیفیت کی شرطیں
۱۔ ترتیب: پہلے منہ دھوئے، پھردایاں ہاتھ، اس کے بعدبایاں ہاتھ پھر سر کا مسح پھر بناء بر احتیاط واجب دائیں پاؤں کا مسح پھر بائیں پاؤں کا مسح۔
مسئلہ ۱۱۸: اگر وضو کے اعمال ترتیب سے انجام نہ دیئے جائیں تو وضو باطل ہے۔
۲۔ موالات : یعنی وضو کے اعمال کو بغیر فاصلے کے انجام دینا
۱۔ اگر وضو کے اعمال میں اتنا فاصلہ ہوجائے کہ جس وقت کسی عضو کو دھوئے یا مسح کرے تو اس سے پہلے دھوئے ہوئے اعضاء خشک ہوجائیں اس صورت میں وضو باطل ہے۔
۲۔ اگر وضو کے اعمال کو بلا فاصلہ انجام دیاجائے لیکن ہوا کی گرمی یا بدن کی حرات کی وجہ سے رطوبت خشک ہوجائے تو اس کا وضو صحیح ہے۔
۳۔ وضو کے درمیان چند قدم چلنے سے وضو باطل نہیں ہوتا۔ پس اگر منہ اورہاتھوں کے دھونے کے بعد چند قدم چلے اورپھر سر اورپاؤں کا مسح کرے تو اس کا وضو صحیح ہے۔
۴۔ وضو کرنے والے کی شرطیں
۱۔ ضروری ہے کہ وضو قربۃ الی اللہ انجام دیاجائے۔
۲۔ وضو کرنے کی نیت ضروری نہیں ہے کہ زبان سے کرے یا دل میں دھرائے بلکہ یہی کہ وہ جانتا ہے کہ یہ خداکے فرمان کو انجام دینے کے لیے وضو کر رہا ہے کافی ہے۔
۳۔ اگر کوئی شخص وضو کے اعمال کو خود انجام دے سکتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ دوسروں سے مدد نہ لے اگر ایسا کرے گا تو اس کا و ضو باطل ہوگا۔
۴۔ جو شخص خود وضو نہیں کرسکتا ضروری ہے کہ کسی کو اپنانائب بنائےاوروہ اس کو وضو کروائے۔ اگرچہ وہ اس کام کی مزدوری ہی کیوں نہ لے۔ لیکن وضو کی نیت وہ شخص (منوب) خود انجام دے اوربناء بر احتیاط نائب بھی وضو کی نیت کرے۔ جس کو وضو کروایا جا رہا ہے وہ مسح خود کرے اوراگر خود مسح نہ کرسکتا ہو تونائب مسح کی جگہوں پر اس کا ہاتھ کھینچے اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تونائب اس کے ہاتھ سے رطوبت لے کر اس کے سر اورپاؤں کا مسح کرے۔
۵۔ اگر کوئی شخص یہ جانتا ہو کہ اگر وضو کرے گا تو وہ مریض ہوجائے گا۔ یا اگر اس پانی سے وضو کرے گا تو پیاسا رہ جائے گا تو ایسا شخص وضو نہ کرے بلکہ تیمم کرے ۔ لیکن اگر وہ نہ جانتا ہو کہ پانی اس کو نقصان دے گااوروہ وضو کرلے اوربعد میں اسے پتہ چل جائے کہ نقصان دہ تھا تو اس کا وضو صحیح ہے۔
۶۔ اگر نماز کا وقت اتنا تنگ ہو کہ اگر وضو کرے گا تو پوری نماز یا نماز کا کچھ حصہ وقت سے باہرانجام پائے گا تو ضروری ہے کہ وہ شخص تیمم کرے۔
۲۔ ارتماسی وضو
۱۔ وہ ہے کہ انسان اپنا منہ اورہاتھوں کو وضو کی نیت سے پانی کے اندر لے جائے اوروضو کی نیت سے باہر لے آئے۔
۲۔ ارتماسی وضو میں ضروری ہے کہ منہ اورہاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف پانی میں ڈبوئے۔
۳۔ اگر وضو میں بعض اعضاء کو ارتماسی اوربعض کو غیر ارتماسی انجام دے تو اس کا وضو صحیح ہے۔