خرابی
  • اس منظر کیلیے سانچہ دستیاب نہیں ہے۔ براہ کرم سائٹ کے منتظم سے رابطہ کریں۔

تسبیحات اربعہ

تسبیحات اربعہ

مسئلہ ۲۶۴: نماز کی تیسری اورچوتھی رکعت میں سورہ حمد پڑھ سکتے ہیں یا ایک مرتبہ تسبیحات اربعہ کہہ سکتے ہیں اوراحتیاط مستحب یہ ہے کہ تین مرتبہ کہے:

سُبحٰانَ اللہِ وَ الۡحَمدُ لِلہِ وَ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَ اللہُ اَکبَرُ

خداوند پاک ہےاور سب تعریفیں خداکیلئے ہیں اوراللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اوراللہ توصیف کیے جانے سے بالاتر ہے۔

مسئلہ ۲۶۵: نمازی آخری دو رکعتوں میں ایک میں حمد اوردوسری میں تسبیحات اربعہ بھی پڑھ سکتا ہے۔

قرائت کے احکام

قرائت کے احکام

مسئلہ ۲۶۶: پہلی اوردوسری رکعت میں سورہ حمداور ایک سورہ پڑھی جائے۔

مسئلہ ۲۶۷: ظہر اورعصر کی نماز میں مرد اورعورت ہر دو آہستہ آوازمیں پڑھیں۔ مغرب، عشاء اورفجر کی نماز میں مرد اونچی آواز میں پڑھے اورعورت کی آواز اگر نامحرم نہ سن رہا ہو تو اونچی پڑھ سکتی ہے۔

۲۶۸: اگر کوئی شخص جان بوجھ کر بلند آواز سے پڑھی جانے والی نماز کو آہستہ یا آہستہ پڑھی جانے والی نماز کو بلند آواز سے پڑھے تو نماز باطل ہے لیکن اگر بھولے سے یا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے ایسا کرے تو اس کی نماز صحیح ہے نیز الحمد و سورہ کے دوران اگر متوجہ ہوجائے کہ غلطی ہوئی ہے تو جو حصہ پڑھ چکا ہے اسے دوبارہ پڑھنا ضروری نہیں ہے۔

۲۶۹: اگرنماز میں وہ چار سورتیں کہ جن میں سجدہ واجب ہے جان بوجھ کر پڑھے تو بناءبر احتیاط اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ۲۷۰: عام مستحبی نمازوں میں اور وہ نماز کہ جونذر، عہد یا قسم کی وجہ سے واجب ہو جاتی ہے۔ حمد کے بعد سورہ کا پڑھنا ضروری نہیں ہے ہاں وہ مستحبی نمازیں جن کی کیفیت میں مخصوص سورتوں کا ذکر آیاہے ان کو پڑھا جائے۔ مگر یہ کہ وہ سورتیں شرط کمال ہوں توان کو چھوڑا جاسکتا ہے۔

مسئلہ ۲۷۱: انسان کو چاہیے کہ نماز کو یادکرے تاکہ غلط نہ پڑھے اوراگر کوئی نماز کو صحیح یادنہیں کرسکتا۔ وہ جس طرح سے بھی پڑھے مجزی ہے لیکن احتیاط یہ ہے کہ وہ نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھے۔

مسئلہ ۲۷۲: اگر حمد یا سورۃ میں سے کوئی کلمہ نہ جانتا ہو یا جان بوجھ کر نہ پڑھے، یا کسی حرف کی جگہ دوسرا حرف پڑھ دے یا زبر کی جگہ زیر پڑھ دے یا زیر کی جگہ زبر یا شدّ کو نہ پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے۔

مسئلہ ۲۷۳: اگر انسان کسی لفظ کو صحیح سمجھتا ہو اورنماز میں بھی اسی طرح پڑھے اوربعد میں پتہ چلے کہ وہ غلط پڑھا ہے۔ اگر وہ اس لفظ کو صحیح سمجھنے میں جاہل قاصر تھا تو اس کی نماز صحیح ہے لیکن اگر وہ جاہل مقصر ہو تو ضروری ہے کہ نماز کو دوبارہ پڑھے اوراگروقت گزر گیا ہے تو قضاء بجا لائے۔

مسئلہ ۲۷۴: اگر نماز کی پہلی دو رکعت میں یہ خیال کرے کہ آخری دو رکعت ہیں اورتسبیحات پڑھے پس اگر رکوع کرنے سے پہلے یاد آجائے تو ضروری ہے کہ حمد اورسورہ کو پڑھے لیکن اگر رکوع میں یا رکوع کے بعد یادآجائے تو اس کی نماز صحیح ہے۔ 

مسئلہ ۲۷۵: ہر مرد اورعورت پرواجب ہے کہ نماز کی تیسری اورچوتھی رکعت میں حمد یا تسبیحات اربعہ کو آہستہ پڑھے۔ 

مسئلہ ۲۷۶: اگر نماز کی آخری دو رکعت میں یہ خیال کرے کہ پہلی دو رکعت ہیں اورالحمد پڑھے تو اس کی نماز صحیح ہے۔

مسئلہ ۲۷۷: اگر تیسری یا چوتھی رکعت میں حمد پڑھنا چاہتا تھا لیکن تسبیحات اس کی زبان پر آجائیں، یا تسبیحات پڑھنا چاہتا تھا لیکن حمد اس کی زبان پر آجائے تو ضروری ہے کہ ان کو چھوڑ دے اوردوبارہ حمد یا تسبیحات کو پڑھے لیکن اس کی عادت وہی کچھ پڑھنے کی ہو جو اس کی زبان پر آیاہے تو وہ اسی کو تمام کرسکتا ہے اس کی نماز صحیح ہے۔

قرائت کے کچھ مستحبات

قرائت کے کچھ مستحبات

مسئلہ ۲۷۸: پہلی رکعت میں حمد سے پہلے "اَعُوذُ باللہ مِنَ الشَّیطَانِ الرَّجِیۡم" پڑھے۔

مسئلہ ۲۷۹: ظہر اورعصر کی نماز کی پہلی اوردوسری رکعت میں "بسم اللہ الرحمن الرحیم" کو اونچی آواز میں پڑھے۔

مسئلہ ۲۸۰: حمد اورسورہ کو واضح کرتے ہوئے پڑھے اورہر آیت کے آخر میں وقف کرے یعنی اسے بعد والی آیت کے ساتھ نہ ملائے۔

مسئلہ ۲۸۱: الحمد اورسورہ پرھتے وقت آیات کے معنوں پر توجہ رکھے۔

مسئلہ ۲۸۲: اگر جماعت سے نماز پڑھ رہا ہو تو امام جماعت کے سوہ الحمد ختم کرنے کے بعد اوراگر فرادی نماز پڑھ رہا تو خود کی سورہ الحمد مکمل کرنے کے بعد۔ اَلۡحَمۡدُ للہ رَبِّ الۡعَالَمِیۡن، کہے سورہ قل ہو اللہ احد، پڑھنے کے بعد ایک یا دو تین دفعہ کَذَلِکَ اللہُ رَبّی یا تین دفعہ کَذَالِکَ اللہ ُرَبُّنَا کہے۔

مسئلہ ۲۸۳: مستحب ہے کہ نمازوں کی پہلی رکعت میں الحمد کے بعد سورہ "انا انزلناہ" اوردوسری رکعت میں الحمد کے بعد سورہ "قل ھو اللہ احد" کو پڑھے۔

رکوع

رکوع

مسئلہ ۲۸۴: ضروری ہے کہ ہر رکعت میں قرائت کے بعد اس قدر جھکے کے انگلیوں کے سرے گھٹنوں تک پہنچ جائیں ۔ اس عمل کو "رکوع" کہتےہیں۔

رکوع کے واجبات

رکوع کے واجبات

مسئلہ ۲۸۵:

  1. 1.اتنا جھکنا کہ جو بیان کیا جا چکا ہے۔
  2. 2.ذکر کا پڑھنا۔
  3. 3.رکوع کی حالت میں ذکر پڑھتے ہوئے جسم حرکت نہ کرے۔
  4. 4.رکوع کے بعد کھڑا ہونا۔
  5. 5.رکوع کرنے کے بعد جسم حرکت نہ کرے۔

رکوع کا ذکر

رکوع کا ذکر

 

مسئلہ ۲۸۶: رکوع میں تین مرتبہ "سُبۡحَانَ اللہِ" یا ایک مرتبہ "سُبۡحَانَ رَّبِّیَ الۡعَظِیۡمِ وَ بِحَمۡدِہٖ" یا کوئی بھی ذکر جو اتنی مقدار میں ہو پڑھے۔  لیکن اگر وقت تنگ ہو یاکوئی اورمجبوری ہو توایک مرتبہ "سُبۡحَانَ اللہِ" کہنا کافی ہے۔

مسئلہ ۲۸۷: ذکر رکوع مسلسل اورصحیح عربی میں پڑھنا ضروری ہے اورمستحب ہے کہ تین یا پانچ یا سات دفعہ بلکہ اس سے بھی زیادہ پڑھا جائے۔

 

 

مسئلہ ۲۸۶: رکوع میں تین مرتبہ "سُبۡحَانَ اللہِ" یا ایک مرتبہ "سُبۡحَانَ رَّبِّیَ الۡعَظِیۡمِ وَ بِحَمۡدِہٖ" یا کوئی بھی ذکر جو اتنی مقدار میں ہو پڑھے۔  لیکن اگر وقت تنگ ہو یاکوئی اورمجبوری ہو توایک مرتبہ "سُبۡحَانَ اللہِ" کہنا کافی ہے۔

مسئلہ ۲۸۷: ذکر رکوع مسلسل اورصحیح عربی میں پڑھنا ضروری ہے اورمستحب ہے کہ تین یا پانچ یا سات دفعہ بلکہ اس سے بھی زیادہ پڑھا جائے۔

رکوع کے احکام

رکوع کے احکام

مسئلہ ۲۸۸: رکوع میں ضروری ہےواجب ذکر کرتے ہوئے جسم حرکت نہ کرے۔

مسئلہ ۲۸۹: اگر رکوع میں مکمل جھکنے سے پہلے جان بوجھ کر رکوع کے ذکر کو پڑھے تو نماز باطل ہے۔

مسئلہ ۲۹۰: اگرواجب ذکر کے ختم ہونے سے پہلے جان بوجھ کر سر کو رکوع سے اٹھالے تو اس کی نماز باطل ہے۔

مسئلہ ۲۹۱: رکوع کے ذکر کے ختم ہوجانے کے بعد ضروری ہے کہ کھڑا ہو اورجسم کے آرام کے بعد سجدےمیں جائے اوراگر کھڑا ہونے سے پہلے یا جسم کے آرام کرنے سے پہلے سجدےمیں چلا جائے تو اس کی نماز باطل ہے۔

رکوع کے کچھ مستحبات

رکوع کے کچھ مستحبات

مسئلہ ۲۹۲:رکوع میں جانے سے پہلے جب سیدھا کھڑا ہوا ہے اس وقت تکبیر کہنا مستحب ہے۔

مسئلہ ۲۹۳: رکوع کی حالت میں اپنے قدموں کے درمیان دیکھنا مستحب ہے۔

مسئلہ ۲۹۴: رکوع کے ذکر کے بعد صلوات پڑھنا مستحب ہے۔

مسئلہ ۲۹۵: رکوع کے بعد جس وقت سیدھا کھڑا ہو اورجسم آرام کی حالت میں ہو اس وقت "سَمِعَ اللہُ لِمَنۡ حَمِدَۃَ" کہنا مستحب ہے۔

سجدےمیں

سجدے

مسئلہ ۲۹۶: نمازی کے لیے ضروری ہے کہ واجبی اورمستحبی نماز کی ہر رکعت میں رکوع کے بعد دو سجدے کرے۔

مسئلہ ۲۹۷: سجدےمیں پیشانی ،دونوں ہتھیلیاں،دونوں گھٹنے اوردونوں پاؤں کے انگوٹھے زمین پر رکھے۔

سجدے کے واجبات

سجدے کے واجبات

مسئلہ ۲۹۸:

  1. 1.جسم کے سات اعضاء کا زمین پررکھنا۔
  2. 2.ذکر کا پڑھنا۔
  3. 3.ذکر کرتے وقت سات اعضاء کا زمین پر رکھنا۔
  4. 4.سجدے کے ذکر پڑھتے وقت جسم آرام کی حالت میں ہو۔
  5. 5.دو سجدوں کے درمیان سر کا اٹھانا اوربیٹھنا اورجسم کاآرام ہونا۔
  6. 6.سجدے کی جگہ برابر ہونا (اونچا نیچا نہ ہونا)
  7. 7.جس چیز پر سجدہ کرنا صحیح ہو اس پر پیشانی رکھنا۔
  8. 8.سجدے کی جگہ کا پاک ہونا۔
  9. 9.معمول کے مطابق سجدہ کرنا

مسئلہ ۲۹۹: دو سجدے مل کر ایک رکن ہیں پس اگر کوئی واجب نماز میں جان بوجھ کر یا بھول کر ایک ہی رکعت میں ہر دو کو چھوڑ دے یا دو سجدوں کا اضافہ کردے تو اس کی نماز باطل ہے۔

سجود

مسئلہ ۳۰۰: سجدےمیں تین مرتبہ "سُبۡحَانَ اللہِ" کہے یا ایک مرتبہ "سُبۡحَانَ رَبِّیَ الۡاَعۡلی وَبِحَمۡدِہِ" کہے یا اتنی مقدار کا کوئی بھی ذکر پڑھے اورضروری یہ ہے کہ یہ مسلسل اورصحیح عربی میں پڑھے لیکن اگر وقت تنگ ہو یا مجبوری کی حالت ہو توایک مرتبہ "سُبۡحَانَ اللہِ"کہنا کافی ہے۔

سجدے میں جسم کا ساکن ہونا

سجدے میں جسم کا ساکن ہونا

مسئلہ ۳۰۱: سجدے میں ضروری ہے کہ جتنی دیرواجب ذکر کیا جائے جسم ساکن رہے۔ 

مسئلہ ۳۰۲: اگر پیشانی کے زمین پر رکھنے اورساکن ہونے سے پہلے جان بوجھ کر سجدے کا ذکر پڑھے یا ذکر کے ختم ہونے سے پہلے جان بوجھ کر سر کو سجدے سے اٹھالے تو نماز باطل ہے۔

مسئلہ ۳۰۳: اگر پیشانی کے زمین پر رکھنے اورجسم کے ساکن ہونے سے پہلے بھول کر سجدے کا ذکر پڑھے تو ضروری ہے کہ دوبارہ جسم کے سکون کی حالت میں سجدے کے ذکر کو پڑھے۔

مسئلہ ۳۰۴: اگرسجدے کے ذکر پڑھتے وقت سات اعضاء میں سے کسی ایک عضو کو جان بوجھ کر زمین سے اٹھالے تو اس کی نماز باطل ہے لیکن اگر ذکر میں مشغول نہ ہو تو پیشانی کے علاوہ دوسری جگہوں کو زمین سے اٹھالےاوردوبارہ رکھ دے تو نماز صحیح ہے۔ 

مسئلہ ۳۰۵: سجدے میں ضروری ہے کہ پاؤں کے دونوں انگوٹھے زمین پر رکھے اوراگر پاؤں کی دوسری انگلیاں یا پاؤں کا اوپر والا حصہ زمین پر رکھے یا ناخن بڑے ہونے کی وجہ سے انگوٹھوں کے سرے زمین پر نہ لگیں تو نماز باطل ہے۔

مسئلہ ۳۰۶: نماز ی کی پیشانی رکھنے کی جگہ اورپاؤں کے انگوٹھے کے سرے کی جگہ سے چار ملی ہوئی انگلیوں سے اونچی یا نیچی نہ ہو۔

وہ چیزیں کہ جن پر سجدہ کرنا صحیح ہے

وہ چیزیں کہ جن پر سجدہ کرنا صحیح ہے

۱۔ ضروری ہے کہ سجدے میں پیشانی کو زمین پر یا ایسی چیز پر رکھا جائے کہ جو زمین سے اُگی ہو لیکن کھانے والی اورپہننے والی نہ ہو۔

مسئلہ ۳۰۷: پتھر اورجپسم پر سجدہ کرنا صحیح ہے اوراحتیاط مستحب یہ ہے کہ اختیار کی حالت میں پکے ہوئے جپسم اورچونے یا اینٹ اورمٹی کے برتنوں اور ان سے ملتی جلتی چیزوں پر سجدہ نہ کیا جائے۔

مسئلہ ۳۰۸: زمین سے اُگنے والی چیزوں پر جو حیوانات کی خوراک ہیں مثلاً گھاس اوربھوسا پر سجدہ کرنا صحیح ہے۔

مسئلہ ۳۰۹: کاغذ پر سجدہ جائز ہے ہاں اگر وہ ایسی چیز سے بنا ہو جس پر سجدہ کرنا جائز نہ ہو تو احتیاط یہ ہے کہ اس پر سجدہ نہ کیاجائے۔

مسئلہ ۳۱۰: اگر پہلے سجدے میں سجدہ گاہ پیشانی سے چپک جائے تو دوسرے سجدہ کے لیے اسے پیشانی سے جداکیا جائے پھر اس پر سجدہ کیا جائے۔ 

۱۔ بہترین چیزیں جن پر سجدہ کرنا صحیح ہے۔

(الف) امام حسین علیہ السلام کی قبر اطہر کی مٹی (خاک کربلا)

(ب) مٹی                                          (ج) پتھر                                                (د) پودے

مسئلہ ۳۱۱: اگر کسی کے پاس ایسی چیز نہ ہوجس پر سجدہ کرنا صحیح ہے یا اگر ہو لیکن سخت سردی یاگرمی کی وجہ سے اس پر سجدہ نہ کرسکتا ہو تو کپڑے پر سجدہ کرے اگر وہ بھی ممکن نہ ہو تو ہاتھ کی پشت پرسجدہ کرے۔

سجدے کے احکام

سجدے کے احکام

مسئلہ ۳۱۲: معدنی چیزوں پر سجدہ باطل ہے مثلا ً سونا،چاندی وغیرہ پر۔

مسئلہ ۳۱۳: خداکے علاوہ کسی اورکو سجدہ کرنا حرام ہے۔ 

مسئلہ ۳۱۴: اگر کسی شخص کی پیشانی بے اختیار سجدے کی جگہ سے اٹھ جائے تو اسے چاہیے کہ حتی الامکان اسےدوبارہ سجدے کی جگہ پر نہ جانے دے اورقطع نظر اس کے کہ اس نے ذکر سجدہ پڑھا ہو یا نہ پڑھا ہو یہ ایک سجدہ شمار ہوگا اوراگر سر کو نہ روک سکے اوربے اختیاردوبارہ سجدے کی جگہ پہنچ جائے تو دونوں ملا کر ایک سجدہ شمار ہوں گے اوراگر پہلے ذکر نہ پڑھا ہو تو بنا بر احتیاط اسے چاہیے کہ اب پڑھے۔

سجدے کے بعض مستحبات

سجدے کے بعض مستحبات

مسئلہ ۳۱۵:

۱۔ درج ذیل موارد میں تکبیر کہنا مستحب ہے:

(الف) رکوع کے بعد اورپہلے سجدے سے پہلے

(ب) ہر سجدے کے بعد

(ج) دوسرے سجدے میں جانے کیلئے

۲۔ سجدوں کو لمبا کرنا۔

۳۔ پہلے سجدے کے بعد "اَسۡتَغۡفِرُ اللہَ رَبِّی وَ اَتُوۡبُ اِلَیۡہِ" کہنا۔

۴۔ سجدوں میں صلوات پڑھنا۔

۵۔ سجدے سے قیام کے لیے اٹھتے وقت ہاتھوں کو گھٹنوں کے بعد زمین سے اٹھائے۔

۶۔ مرد کہنیوں اورپیٹ کو زمین سے نہ لگائیں اوربازؤں کو پہلو سے جدارکھیں اورعورتیں کہنیاں اورپیٹ زمین پر رکھیں اوربدن کے اعضاء ایک دوسرے سے ملالیں۔

قرآن کے واجب سجدے

قرآن کےواجب سجدے

مسئلہ ۳۱۶: قرآن کی چار سورتوں میں سجدے کی آیت ہے اگرانسان اس آیت کو پڑھے یا سُنے تو فوراً سجدہ کرے۔ 

وہ سورتیں کہ جن میں سجدے کی آیت ہے:

(الف) سورہ سجدہ (الم تنزیل) (۳۲) آیت ۱۵

(ب) سورہ فصّلت (حم سجدہ) (۴۱) آیت ۳۷

(ج) سورہ و النجم (۵۳) آیت ۶۲

(د) سورہ علق (اقراء) (۹۶) آیت ۱۹

مسئلہ۳۱۷: سجدہ اس صورت میں واجب ہے کہ جب سجدے کی آیت کو قرآن کےارادے سے پڑھے پس اگر کوئی شخص ریڈیو یا ٹی وی سٹیشن پر سجدے کی آیت کو قرآن کے ارادے سے پڑھےاورانسان ریڈیو یا ٹی وی سے سُنے تو اس پر سجدہ واجب ہے۔

مسئلہ ۳۱۸: اگر سجدے کی آیت کو ریکارڈ کی ہوئی آواز سے سُنے تو سجدہ کرنا ضروری نہیں ہے۔

مسئلہ ۳۱۹: قرآن کے واجب سجدے میں ضروری ہے کہ انسان کی جگہ غصبی نہ ہو اورپیشانی، گھٹنوں کی جگہ اور پاؤں کی انگلیوں کے سِروں سے چار ملی ہوئی انگلیوں سے زیادہ اونچی نہ ہو لیکن یہ ضروری نہیں کہ اس نے وضو یا غسل کر رکھا ہو یا قبلہ رُخ ہو یا اپنی شرمگاہ کو چھپائے یا اس کا بدن اور پیشانی رکھنے کی جگہ پاک ہو اس کے علاوہ بھی جو شرائط نماز پڑھنے والے کے لباس کے لیے ضروری ہیں وہ شرائط قرآن مجید کے واجب سجدہ اداکرنے والے کے لباس کے لیے ضروری نہیں۔

مسئلہ ۳۲۰: احتیاط واجب یہ ہے کہ قرآن کےواجب سجدے میں پیشانی سجدہ گاہ یا کوئی اورچیز کہ جس پر سجدہ کرنا صحیح ہے پر رکھی جائے ، جسم کے دوسرے حصے جس طرح نماز کے سجدے کا حکم ہے اس طرح زمین پر رکھے جائیں۔

مسئلہ ۳۲۱: جب انسان قرآن مجید کا سجدہ کرنے کے لیے پیشانی زمین پر رکھ دے تو خواہ کوئی ذکر نہ بھی پڑھے تب بھی کافی ہے ہاں سجدہ کی نیت کرنا ضروری ہے، اورسجدہ میں ذکر پڑھنا مستحب ہے (واجب نہیں ہے)۔

تشہد

تشہد

مسئلہ ۳۲۲: تمام واجب اورمستحب نمازوں کی دوسری رکعت، نماز مغرب کی تیسری رکعت اورنماز ظہر و عصر اورعشاء کی چوتھی رکعت میں انسان کے لیے ضروری ہے کہ دوسرے سجدے کے بعد تشہد پڑھے۔ یعنی کہے:

"أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَ رَسُولُه ٗ اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ"

یہ مختصر ترین تشہد ہے جو کہ اذکار واجبہ پر مشتمل ہے اورفقہ کی قدیمی کتب میں مستحبات پر مشتمل مفصّل تشہد بھی منقول ہے۔

مسئلہ ۳۲۳: نماز میں دو طرح کے اذکار پائے جاتے ہیں بعض ذکر واجب ہیں اوربعض ذکر مستحب ہیں۔

تشہد میں واجبی اذکار کے علاوہ مستحبی اذکار بھی ہیں تشہد میں جنت، دوزخ، موت، بعث و نشور (قیامت) کی گواہی بھی دی جاسکتی ہے ان مستحبی اذکار میں سب سے افضل ذکر، امیر المومنین علی علیہ السلام کی ولایت کی گواہی کا ہے۔

سوال: کیا ولایت کا مانناواجب ہے یا مستحب ہے؟

جواب: امیر المومنین علی علیہ السلام اور ان کی ذریت طاہرہ سے ائمہ معصومین علیہم السلام کی امامت ولایت کا عقیدہ رکھنا ہر حال میں واجب ہے اوریہ اصول دین کا مسئلہ ہے، بلکہ اس واجب کی جتنی تاکید کی گئی ہے اتنی کسی اورچیز کی نہیں کی گئی لیکن اس عقیدہ کا اظہار کرنا ہر جگہ پرواجب نہیں ہے، تشہد میں ولایت کا اظہار کرنا مستحب ہے (اوریہ فقہ کا مسئلہ ہے) اس سے ہرگز نماز باطل نہیں ہوتی۔ مقام میں ولایت کی گواہی کا، ذکر میں شامل ہونے کے علاوہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے نصّ خاص بھی منقول ہے چنانچہ علامہ مجلسی ؒ کے والد گرامی علامہ تقی مجلسیؒ اپنی کتاب میں تحریر فرماتے ہیں تشہد میں واجبی ذکر کے علاوہ سنت یہ ہے کہ اس پر اضافہ کرے چنانچہ ابو بصیر نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے۔

" بِسْمِ اللَّهِ وَ بِاللَّهِ وَ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَ خَيْرُ الْأَسْمَاءِ کُلُّہَا لِلَّهِ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ أَرْسَلَهُ بِالْحَقِّ بَشِيراً وَ نَذِيراً بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ أَشْهَدُ أَنَّ رَبِّیۡ نِعْمَ الرَّبُّ وَ أَنَّ مُحَمَّداً نِعْمَ الرَّسُولُ وَ اَنَّ عَلِیّاً نِعۡمَ الۡوَصِیُّ و نِعۡمَ الۡاِمَامُ اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ تَقَبَّلْ شَفَاعَتَهُ فِي أُمَّتِهِ وَ ارْفَعْ دَرَجَتَہُ اَلۡحَمۡدُ لِلہِ رَبِّ الۡعٰالَمِیۡنَ"([1])

دوسری دلیل یہ کہ سب عبادات (نماز ، روزہ، حج، زکوۃ وغیرہ) کی قبولیت کی شرط ولایت ہے پھر یہ کیسے ممکن ہے جو چیز عبادت و اعمال کی قبولیت کی شرط ہے وہی چیز منافی عبادت ہو۔ بعبارت دیگر ولایت کے ذریعے سے سب اعمال قبول ہوتے ہیں، پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اسی ولایت سے اعمال باطل ہوجائیں؟ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ اچھی طرح سمجھو۔

خلاصہ یہ کہ تحقیقی نظریہ کے مطابق تشہد میں شہادت ثالثہ پڑھنے سے نماز ہرگز باطل نہیں ہوتی۔

مسئلہ ۳۲۴:اگر کوئی شخص تشہد پڑھنا بھول جائے اوررکوع سے پہلے یاد آئے کہ اس نے تشہد نہیں پڑھا تو ضروری ہے کہ بیٹھ جائے، تشہد پڑھے اورپھردوبارہ کھڑا ہوکر جوکچھ اس رکعت میں پڑھنا ضروری ہے پڑھے اورنماز تمام کرے اوراحتیاط واجب کی بناء پر نماز کے بعد بے جا قیام کے لیے دو سجدہ سہو بجا لائے۔

اوراگر اسے رکوع میں یا اس کے بعدیاد آئے تو ضروری ہے کہ نماز تمام کرے اورنماز کے سلام کے بعد احتیاط واجب کی بناء پر تشہد کی قضااوردو سجدہ سہو بھی بجا لائے۔



[1] ۔ فقہ کامل، ص ۳۱۔

سلام

سلام

مسئلہ ۳۲۵: ہر نماز کی آخری رکعت میں تشہد کے بعد سلام پڑھنا ضروری ہے۔

مسئلہ ۳۲۶: واجبی سلام ان دونوں میں سے ایک ہے:

السَّلامُ عَلَینا وَ عَلیٰ عِبادِ اللہِ الصّٰالِحِینَ

ترجمہ: ہم پراورخدا کے نیک بندوں پر سلام ہو۔

السَّلامُ عَلَیکُمۡ اس کے ساتھ وَ رَحۡمَۃُ اللہِ وَ بَرَکٰاتُہُ ، کا اضافہ کرنا مستحب ہے۔

تم پر سلام ہو اوراللہ کی رحمت اوراس کی برکتیں ہوں۔

مسئلہ ۳۲۷:ان دو سلاموں سے پہلے مستحب ہے کہ یہ پڑھے:

السَّلامُ عَلَیکَ أَیُّہَا النَبِیُّ وَ رَحۡمَۃُ اللہ وَ بَرَکَاتُہُ

اے پیغمبر ؐ تم پر سلام اورخداکی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں۔

پہلے السَّلامُ عَلَینا وَ عَلیٰ عِبادِ اللہِ الصّٰالِحِینَ کہے تو مستحب ہے اس کے بعد " السَّلامُ عَلَیکُمۡ وَ رَحۡمَۃُ اللہِ وَ بَرَکٰاتُہُ "بھی کہے۔

مسئلہ ۳۲۸: سلام میں پیغمبر ﷺ پر سلام کہنے کے بعد مستحب ہے کہ ائمہ طاہرین علیہم السلام، انبیاء اورملائکہ پر بھی سلام کہے، یوں کہے:

اَلسَّلاَمُ عَلَی الۡاَئِمَّۃِ الرَّاشِدِیۡنَ الۡمَہۡدِیِیۡنَ ([1])، اَلسَّلَامُ عَلَی جَمِیۡعِ اَنۡبِیَاءِ اللہِ وَ رُسُلِہِ وَ مَلَائِکَتِہِ، اَلسَّلَامُ عَلَیۡنَا وَ عَلَی عِبَادِ اللہِ الصَّالِحِیۡنَ، اَلسَّلَامُ عَلَیۡکُمۡ وَ رَحۡمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ۔



[1] ۔ المقنع، تالیف شیخ صدوق ؒ، ص ۹۶۔ مقام میں حوالہ جات کی تفصیل کے لیے ہمارے رسالہ الشھادہ الثالثہ (طبع ثانیہ) ص ۳۲ کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔

نماز کی ترتیب

نماز کی ترتیب

مسئلہ ۳۲۹:ضروری ہے کہ نمازدرج ذیل ترتیب کے ساتھ پڑھی جائے۔

اوّل ۔ نیت                                                      دوم۔ قیام

سوم۔ تکبیرۃ الاحرام                   چہارم۔ قرائت

پنجم ۔ رکوع                                        ششم۔ سجدے

ہفتم۔ تشہد                                                      ہشتم۔ سلام

اگر جان بوجھ کر نماز کی ترتیب کا لحاظ نہ کرے تو نماز باطل ہو جائے گی۔

موالات

موالات

مسئلہ ۳۳۰:موالات: یعنی نماز کے اجزا کو مسلسل (بغیر فاصلے) کے انجام دینا۔

مسئلہ ۳۳۱: اگر نماز کے اجزاء میں اتنا فاصلہ ڈالا جائے کہ دیکھنے والا یہ نہ کہے کہ نماز پڑھ رہا ہے تو اس کی نماز باطل ہے۔

مسئلہ ۳۳۲: رکوع سجود کو طول دینے سےاوربڑی سورتیں پڑھنے سے موالات نہیں ٹوٹتی۔

قنوت اور اس کا ترجمہ

قنوت اور اس کا ترجمہ

مسئلہ ۳۳۳: نماز کی دوسری رکعت میں حمد اورسورہ کے بعد اوررکوع سے پہلے قنوت پڑھنا مستحب ہے۔ یعنی ہاتھوں کو اوپر اٹھائے اورمنہ کے سامنے لے آئے اوردعا پڑھے۔

مسئلہ ۳۳۴: قنوت میں کوئی ذکر بھی پڑھا جا سکتا ہے اگرچہ ایک دفعہ "سبحان اللہ" بھی پڑھ لیں تو کافی ہے اوربہتر ہے کہ درج ذیل ذکر کو پڑھے:

"لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ

کوئی خدا نہیں سوائے اللہ کے جو صاحب حلم و کرم ہے،

لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ

کوئی خدا نہیں سوائے اللہ کے جو بلند مرتبہ و بزرگ ہے،

لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ رَبِّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَ رَبِّ الْأَرَضِينَ السَّبْعِ

پاک و منزہ ہے وہ خداجو سات آسمانوں اور سات زمینوں کا پروردگار ہے،

وَ مَا فِيهِنَّ وَ مَا بَيْنَهُنَّ وَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ

وہ ہر اس چیز کا پروردگار ہے جو آسمانوں اورزمینوں میں اوران کے مابین موجود ہے، وہ عظیم عرش کا پرور دگار ہے،

وَ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ‏"

حمد و ثناء اس اللہ کے لیے مخصوص ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔

نماز کی تعقیبات

نماز کی تعقیبات

مسئلہ ۳۳۵: تعقیبات یعنی نماز کے سلام کے بعد ذکر، دعا اورقرآن پڑھنے میں مصروف ہونا

۱۔ بہتر یہ ہے کہ تعقیبات کے وقت قبلہ کی طرف منہ ہو۔

۲۔ ضروری نہیں ہے کہ تعقیبات عربی زبان میں ہوں لیکن بہتر یہ ہے کہ جو چیزیں دعا کی کتب میں ذکر ہوئی ہیں وہ پڑھیں اورجن تعقیبات کے بارے میں زیادہ تاکید کی گئی ہے وہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی تسبیح ہے یعنی ۳۴ مرتبہ اللہ اکبر، ۳۳ مرتبہ الحمد للہ اور۳۳ مرتبہ سبحان اللہ پڑھنا۔

سجدہ شکر

سجدہ شکر

مسئلہ ۳۳۶: انسان کے لیے مستحب ہے کہ نماز کے بعد سجدہ شکر بجا لائے اوراتنا کافی ہے کہ شکر کی نیت سے پیشانی زمین پر رکھے لیکن بہتر ہے کہ سو مرتبہ، تین مرتبہ یا ایک مرتبہ شکراً للہ یا عَفواً کہے۔

مسئلہ ۳۳۷: مستحب ہے کہ جب بھی انسان کو کوئی نعمت ملے یا مصیبت ٹل جائے تو سجدہ شکر بجالائے۔

مسئلہ ۳۳۸: جب بھی انسان پیغمبر ﷺ کا نام مبارک مثلاً محمد ﷺ اوراحمد ﷺ یا آپؐ کا لقب و کنیت مثلاً مصطفی ﷺ اورابو القاسم ﷺ زبان سے اداکرے یا سنے تو خواہ وہ نماز میں ہی کیوں نہ ہو مستحب ہے کہ صلوات بھیجے۔

مسئلہ ۳۳۹: سجدہ شکر میں امام موسی کاظم علیہ السلام سے ایک نسبۃً طویل دعا میں ہر ایک ائمہ طاہرین علیہم السلام کی امامت و ولایت کااقرار کرنے کا ذکر آیاہے جس میں امام علیہ السلام فرماتے ہیں کہ سجدہ شکر میں تو کہے:

"اَللَّہُمَّ إِنِّي أُشْهِدُكَ وَ أُشْهِدُ مَلَائِكَتَكَ وَ أَنْبِيَاءَكَ وَ رُسُلَكَ وَ جَمِيعَ خَلْقِكَ أَنَّكَ اَنۡتَ اللَّهُ رَبِّي وَ الْإِسْلَامَ دِينِي وَ مُحَمَّداً نَبِيِّي وَ عَلِيّاً وَ الۡحسَنَ وَ الۡحُسَیۡنَ وَ عَلِیَّ بۡنَ الۡحُسَیۡنِ وَ مُحَمَّدَ بۡنَ عَلِیٍّ وَ جَعۡفَرَ بۡنَ مُحَمَّدٍ وَ مُوسَی بۡنَ جَعۡفَرٍ وَ عَلِیَّ بۡنَ مُوسَی وَ مُحَمَّدَ بۡنَ عَلِیٍّ وَ عَلِیَّ بۡنَ مُحَمَّدٍ وَ الۡحَسَنَ بۡنَ عَلِیٍّ وَ الۡحُجَّۃَ بۡنَ الۡحَسَنِ بۡنِ عَلِیٍّ أَئِمَّتِی، بِهِمْ أَتَوَلَّى وَ مِنْ اَعدَائِهِمْ أَتَبَرَّأُ، اللَّهُمَّ إِنِّي أُنْشُدُكَ دَمَ الْمَظْلُومِ"

اس کو تین مرتبہ کہے، تا آخر دعا۔

پوری دعا کو وسائل الشیعہ کتاب الصلوۃ، ابواب سجدتی الشکرباب ۶، باب استحباب الدعا فی سجدتی الشکر و بینھما بالماثور ، حدیث نمبر ۱ میں ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔

مبطلات نماز

مبطلات نماز

مسئلہ ۳۴۰: بارہ چیزیں نماز کو باطل کر دیتی ہیں:

۱۔ نماز کےدوران نماز کے شرائط میں سے کوئی شرط ختم ہو جائے مثلاً نماز پڑھتے وقت اسے معلوم ہوجائے کہ جس کپڑے سے اس نے شرمگاہ کو چھپا رکھا ہے وہ غصبی ہے،

۲۔ حدث کا صادر ہونا،

۳۔ کھانا پینا،

۴۔ بلا تقیہ ہاتھ باندھنا،

۵۔ سورہ حمد کے بعد آمین کہنا،

۶۔ قبلہ کی جانب سے منحرف ہونا،

۷۔ عمداً بات کرنا،

۸۔ قہقہہ لگانا،

۹۔ دنیوی امور کے لیے گریہ کرنا،

۱۰۔ شکیات مُبطل نماز کا پیدا ہوجانا،

۱۱۔ کوئی ایسا کام کرنا جس سے نماز کی شکل تبدیل ہوجائے کہ پھر عرفاً اسے نماز پڑھنا نہ کہا جاسکے مثلاً اچھلنا، کودنا وغیرہ۔

۱۲۔ کسی واجب کو جان بوجھ کر کم کرنا، اوراگر وہ واجب رکن ہو تو سہواً کمی یا زیادتی بھی مبطل نماز ہے۔

مسئلہ ۳۴۱: انسان کے لیے ضروری ہے کہ نماز کی حالت میں کسی کو سلام نہ کرے اوراگر کوئی دوسرا شخص اسے سلام کرے تو ضروری ہے کہ اسے اسی طریقے سے جواب دے مثلاً اگر وہ سلام علیکم کہے تو جواب میں یہ شخص بھی سلام علیکم کہے لیکن اگر سلام دینے والا علیکم السلام کہے تو نمازی جو صیغہ کہنا چاہے کہہ سکتا ہے۔

مسئلہ ۳۴۲: بنابر احتیاط واجب اختیاری حالت میں نماز کو توڑنا حرام ہے لیکن مال کی حفاظت اورمالی یا جسمانی ضرر سے بچنے کے یے نماز توڑنے میں کوئی حرج نہیں۔

مسئلہ ۳۴۳: اگرانسان کی اپنی جان کی حفاظت یا جس کی جان کی حفاظت واجب ہے یا ایسے مال کی حفاظت جس کی نگہداشت واجب ہے، نماز توڑے بغیر ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ نماز توڑ دے۔

مسئلہ ۳۴۴: اگر کوئی شخص وسیع وقت میں نماز پڑھنے لگےاورقرض خواہ اس سے اپنے قرض کا مطالبہ کرےاوروہ اس کا قرضہ نماز کےدوران اداکر سکتا ہو تو ضروری ہے کہ اسی حالت میں اس کا قرضہ اداکردے اوراگر بغیر نماز توڑے ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ نماز کو توڑ کر اس کا قرضہ اداکرے اوربعد میں نماز پڑھے۔

مسئلہ ۳۴۵: جس شخص کے لیے نماز کا توڑنا ضروری ہو اگر وہ نماز مکمل کرے تو گنہگار ہونے کے باوجود اس کی نماز صحیح ہے۔

شکیات نماز

شکیات نماز

وہ شک جو نماز کو باطل کردیتے ہیں۔

مسئلہ ۳۴۶: نماز کو باطل کرنے والے شک یہ ہیں:

۱۔ دو رکعتی واجب نماز مثلاً صبح اورمسافر کی نماز کی رکعتوں کی تعداد کے بارے میں شک۔ البتہ مستحب نماز اورنماز احتیاط کی رکعتوں کی تعداد میں شک نماز کو باطل نہیں کرتا۔

۲۔ تین رکعتی نماز کی رکعت کی تعداد کے بارے میں شک۔

۳۔ چار رکعتی نماز میں یہ شک کہ آیا ایک رکعت پڑھی ہے یا زیادہ۔

۴۔ چار رکعتی نماز میں دوسرے سجدے کا ذکر مکمل ہونے سے پہلے یہ شک کہ دو رکعتیں پڑھی ہیں یا زیادہ۔

۵۔ نماز کی رکعتوں میں یہ شک کہ معلوم ہی نہ ہو کہ کتنی رکعتیں پڑھی ہیں۔

۶۔ دو اورپانچ یا دو اورپانچ سے زیادہ رکعتوں کے درمیان شک۔

۷۔ تین اورچھ یا تین اورچھ سے زیادہ رکعتوں کے درمیان شک۔

۸۔ چار اورچھ یا چار اورچھ سے زیادہ رکعتوں کے درمیان شک۔

مسئلہ ۳۴۷: اگر انسان کو نماز باطل کرنے والے شکوک میں کوئی شک پیش آئے تو ضروری ہے کہ جب تک اس کا شک پکا نہ ہوجائے غور و فکر کرے اوراس کے بعد اس کو اختیار ہے کہ نماز کو توڑ دے مگر بہتر ہے کہ جب تک نماز کی صورت ختم نہ ہوجائے غور و فکر کرتا رہے۔

جن شکوک کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے

جن شکوک کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے

مسئلہ ۳۴۸: جن شکوک کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے وہ یہ ہیں:

۱۔ اس چیز میں شک جس کے بجا لانے کا وقت گزر گیا ہو مثلاًانسان رکوع میں شک کرے کہ اس نے الحمد پڑھی ہے یا نہیں۔

۲۔ سلام نماز کے بعد شک۔

۳۔ نماز کا وقت گزر جانے کے بعد کا شک۔

۴۔ کثیر الشک کا شک، یعنی اس شخص کا شک جو بہت زیادہ شک کرتا ہو۔

۵۔ رکعتوں کی تعداد کے بارے میں امام جماعت کا شک جب کہ ماموم ان کی تعداد جانتا ہو اوراسی طرح ماموم کا شک جبکہ امام جماعت نماز کی رکعتوں کی تعداد جانتا ہو۔

۶۔ مستحب نمازوں اورنماز احتیاط میں شک۔

صحیح شکوک

صحیح شکوک

مسئلہ ۳۴۹: اگر کسی کو چاررکعتی نماز کی تعداد کے بارے میں شک ہو تو نو صورتوں میں ضروری ہے غور و فکر کرے پس اگر اسے شک کی کسی ایک طرف کے بارے میں یقین یا گمان ہوجائے تو ضروری ہے کہ اسی کو اختیار کرے اورنماز کو تمام کرے ورنہ آنے والے احکام کے مطابق عمل کرے۔ اور وہ نو صورتیں یہ ہیں:

۱۔ دوسرے سجدے کاواجب ذکر ختم ہونے کے بعد شک کرے کہ دو رکعتیں پڑھیں ہیں یا تین، اس صورت میں ضروری ہے کہ تین رکعت پر بنا رکھتے ہوئے ایک اوررکعت پڑھ کر نماز کو مکمل کرے نیز نماز کے بعد احتیاط واجب کی بنا پر ایک رکعت نماز کھڑے ہو کر بجا لائے۔

۲۔ دوسرے سجدے کاواجب ذکر ختم ہونے کے بعد شک کرے کہ دو رکعتیں پڑھی ہیں یا چار تو چار پر بنا رکھتے ہوئے نماز کو مکمل کرے اورنماز کے بعد دو رکعت کھڑے ہوکر نماز احتیاط بجا لائے۔

۳۔ دوسرے سجدے کاواجب ذکر ختم ہونے کے بعد شک کرے کہ دو رکعتیں پڑھی ہیں یا تین یا چار کہ اس صورت میں ضروری ہے کہ چار رکعت پر بنا رکھ کر نماز مکمل کرے اوربعد میں دو رکعت نماز کھڑے ہوکر اورپھر دو رکعت بیٹھ کر بجا لائے۔ 

۴۔ دوسرے سجدے کاواجب ذکر ختم ہونے کے بعد شک کرے کہ چار رکعتیں پڑھی ہیں یا پانچ، کہ اس صورت میں ضروری ہے کہ چار رکعت پر بنا رکھ کر نماز کو مکمل کرے اوربعد میں دو سجدہ سہو بجا لائے۔

لیکن اگر نمازی کو پہلے سجدے کے بعد یا دوسرے سجدے کاواجب ذکر ختم ہونے سے پہلے مذکورہ چار شکوک میں سے کوئی ایک شک پیش آجائے تو اس کی نماز باطل ہے۔ 

۵۔ نماز کےدوران کسی وقت بھی تین اورچار رکعت کے درمیان شک ہو تو اس صورت میں ضروری ہے کہ چار رکعت پر بنا رکھ کر نماز کو مکمل کرے اوربعد میں ایک رکعت نماز احتیاط کھڑے ہوکر یا دو رکعت بیٹھ کر بجا لائے اوراحتیاط یہ ہے دو رکعت بیٹھ کر نماز پڑھنے کو اختیار کرے اس احتیاط کوترک نہیں کرنا چاہیے۔

۶۔ قیام کےدوران چار اورپانچ رکعت کے درمیان شک کرے، کہ اس صورت میں ضروری ہے کہ بیٹھ جائے اورتشہد اورسلام بجا لائے بعد میں ایک رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر یا دو رکعت بیٹھ کر بجالائے اوراحتیاط یہ ہے کہ بیٹھ کر پڑھنے کو اختیار کرے۔

۷۔ قیام کےدوران تین اورپانچ رکعت کے درمیان شک ، کہ اس صورت میں ضروری ہے کہ بیٹھ جائے اورتشہد و سلام بجا لائے اوربعد میں دو رکعت نماز احتیاط کھڑے ہوکر بجا لائے۔

۸۔ قیام کےدوران تین ، چار اورپانچ رکعت کے درمیان شک ہو کہ اس صورت میں ضروری ہے کہ بیٹھ جائے اورتشہد و سلام بجا لائےاوردو رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر اوربعد میں دو رکعت بیٹھ کر بجا لائے۔

۹۔ قیام کےدوران پانچ اورچھ رکعت کے درمیان شک کرے کہ اس صورت میں ضروری ہے کہ بیٹھ جائے اورتشہد و سلام بجا لائے اورسجدہ سہو بھی بجا لائے۔ 

نیز احتیاط واجب کی بنا پر ، ان آخری چار صورتوں میں بے جا قیام کے لیے دو سجدہ سہو اوربجا لائے۔

نماز احتیاط

نماز احتیاط

مسئلہ ۳۵۰: جس شخص پر نماز احتیاط پڑھناواجب ہو ضروری ہے کہ وہ نماز کے سلام کے بعد فوراً نماز احتیاط کی نیت کرے اورتکبیر کہے، پھر الحمد پڑھے، رکوع میں جائےاوردو سجدے بجا لائے پس اگر اس پر ایک رکعت نماز احتیاط واجب ہو تو دو سجدوں کے بعد تشہد اورسلام پڑھے اوراگر اس پر دو رکعت نماز احتیاط واجب ہو تو دو سجدوں کے بعد پہلی رکعت کی طرح ایک اوررکعت بجالائے اورتشہد کے بعد سلام پڑھے۔

مسئلہ ۳۵۱: نماز احتیاط میں سورہ اورقنوت نہیں ہے ضروری ہے کہ یہ نماز آہستہ پڑھےاوراس کی نیت زبان پر نہ لائے اوراحتیاط واجب یہ ہے کہ اس کی بسم اللہ بھی آہستہ پرھے۔

مسئلہ ۳۵۲: اگر کسی شخص کو نماز احتیاط پڑھنے سے پہلے یہ معلوم ہوجائے کہ جو نماز پڑھی تھی وہ صحیح تھی تو نماز احتیاط پڑھنا ضروری نہیں اوراگر نماز احتیاط کے دوران اس بات کا علم ہوجائے تو اس نماز کو مکمل کرنا ضروری نہیں، البتہ اسے دو رکعت نماز نافلہ کی نیت سے مکمل کرسکتا ہے۔

سجدہ سہو

سجدہ سہو

مسئلہ ۳۵۳: ان موارد میں سجدہ سہو کیا جائے:

۱۔ نماز کےدوران سہواً کلام کرنا،

۲۔ جہاں سلام نہیں پڑھنا چاہیے وہاں بھول کر سلام پڑھنا، مثلاً پہلی رکعت میں سلام پڑھے،

۳۔ تشہد بھول جانا،

۴۔ چار رکعتی نماز میں دوسرے سجدے کاواجب ذکر ختم ہونے کے بعد شک کرنا کہ چار رکعت پڑھی ہے یا پانچ،

۵۔ ایک سجدہ کرنا بھول جائے یا جہاں کھڑے ہونے کا حکم ہے وہاں غلطی سے بیٹھ جائے مثلاً سورہ الحمد پڑھتے وقت غلطی کی وجہ سے بیٹھ جائے یا جہاں بیٹھنے کا حکم ہے جیسے تشہد میں وہاں غلطی کی وجہ سے کھڑا ہوجائے۔ ان تین صورتوں میں احتیاط واجب کی بنا پر دو سجدہ سہو بجا لائے۔

بلکہ نماز میں غلطی کی وجہ سے جہاں کمی یا زیادتی کرے احتیاط واجب کی بنا پر دو سجدہ سہو بجا لائے۔

سجدہ سہو کا طریقہ

سجدہ سہو کا طریقہ

مسئلہ ۳۵۴: سجدہ سہو کا طریقہ یہ ہے کہ سلام کے بعد سجدہ سہو کی نیت کرےاورپیشانی کسی ایسی چیز پر رکھ دے جس پر سجدہ کرنا صحیح ہو نیز پیشانی کے علاوہ دوسرے اعضاء کو بھی زمین پر رکھے اوریہ ذکر پڑھے:بِسۡمِ اللہِ وَ بِاللہِ السَّلامُ عَلَیکَ أیُّہَا النَّبِیُّ وَ رَحۡمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ۔ اس کے بعد ضروری ہے کہ بیٹھ جائےاوردوبارہ سجدہ میں جاکر مذکورہ بالا ذکر پڑھےاوربیٹھ جائے اورتشہد پڑھنے کے بعد سلام پھیرے اوراحتیاط واجب یہ ہے کہ تشہد عام طریقے کے مطابق بجا لائے اورسلام میں اَلسَّلامُ عَلَیۡکُمۡ کہے۔

بھولے ہوئے سجدے اورتشہد کی قضا

بھولے ہوئے سجدے اورتشہد کی قضا

مسئلہ ۳۵۵: بھولے ہوئے سجدے اورتشہد کی قضا کے وقت جسے نماز کے بعد انجام دیاجاتا ہے اوراسی طرح بھولے ہوئے تشہد کے لیے دو سجدے سہو انجام دیتے وقت نماز کے تمام شرائط مثلاً بدن اورلباس کا پاک ہونےاوررو بہ قبلہ ہونے کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ 

قضا نماز

قضا نماز

مسئلہ ۳۵۶: قضا نماز وہ نماز ہے کہ جو نماز کے مخصوص وقت کے بعد پڑھی جاتی ہے ضروری ہے کہ انسان اپنی واجب نمازوں کو معین وقت کے اندرادا کرے اوراگر کسی عذر کے بغیر اس کی نماز قضا ہوجائے تو وہ گناہ گار ہے ضروری ہے کہ وہ توبہ کرےاوراس کی قضاء بھی انجام دے۔ 

۱۔ دو جگہوں پر نماز کی قضا کرناواجب ہے:

(الف) واجب نماز کو اس کے معین وقت میں ادا نہ کیا ہو اورنماز کے سارے وقت کے اندر سویا رہا ہو۔

(ب) نماز کے وقت کے بعد متوجہ ہو جائے کہ جو نماز پڑھی ہے وہ باطل تھی۔

مسئلہ ۳۵۷: جس پر نماز کی قضاءواجب ہے وہ اس کے پڑھنے میں کوتاہی نہ کرے لیکن اس پرواجب نہیں ہے کہ وہ فوراً اداکرے۔

مسئلہ ۳۵۸: اگر جانتا ہو کہ اس کی کوئی نماز قضا نہیں ہے یا یہ کہ وہ شک کرے کہ اس کی کوئی نماز قضا ہے یا نہیں ایسی صورت میں اس پر کوئی چیزواجب نہیں ہے۔ 

مسئلہ ۳۵۹: اگر نماز کے قضا ہونے کا احتمال رکھتا ہو تو مستحب یہ ہے کہ وہ احتیاطاً اس کی قضا انجام دے۔

مسئلہ ۳۶۰: اگر جانتا ہو کہ اس پر نماز کی قضا ہے لیکن یہ نہیں جانتا کہ کتنی نمازیں ہیں مثلاً نہ جانتا ہو کہ اس کی چار نمازیں قضا ہیں یا پانچ پس اگر وہ کم تعداد چار نمازیں ہی پڑھ لے تو وہ بھی کافی ہے اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ نمازوں کا اتنا تکرار کرے کہ اسے اپنے ذمہ کے فراغ کا یقین ہوجائے۔

مسئلہ ۳۶۱: روزانہ کی قضا نمازوں میں ضروری نہیں ہے کہ ان کو ترتیب سے پڑھا جائے مثلاً ایک دن عصر کی نماز اوردوسرے دن ظہر کی نماز نہیں پڑھی تو ضروری نہیں ہے کہ وہ پہلے عصر کی نمازاوراس کے بعد ظہر کی نماز کو قضا کرے۔

مسئلہ ۳۶۲: قضا نماز کو جماعت کے ساتھ بھی پڑھ سکتے ہیں خواہ پیش نماز کی نمازادا ہو یا قضا اورضروری نہیں ہے کہ دونوں ایک جیسی نماز کو پڑھیں مثلاً اگر صبح کی قضا نماز کو پیش نماز کی ظہر یا عصر کی نماز کے ساتھ پڑھے تو کوئی اشکال نہیں ہے۔

مسئلہ ۳۶۳: جب تک انسان زندہ ہے اگرچہ اپنی قضا نماز کے پڑھنے کی طاقت بھی نہ رکھتا ہو پھر بھی کوئی دوسرا شخص اس کی نمازوں کی قضا نہیں پڑھ سکتا۔

مسئلہ ۳۶۴: جس شخص پر قضاء نمازیں ہیں وہ مستحبی نمازیں پڑھ سکتا ہے لیکن جس شخص پر ماہ رمضان کےروزوں کی قضاء ہو وہ مستحبی روزہ نہیں رکھ سکتا بلکہ جس کے ذمہ کوئی بھی واجب روزہ ہو وہ بنا بر احتیاط، مستحبی روزہ نہیں رکھ سکتا۔ 

مسئلہ ۳۶۵: اگرکسی مسافر کی ظہر یا عصر یا عشاء کی نماز قضا ہو جائے تو ضروری ہے کہ وہ اس کو دو رکعتی پڑھے۔ اگرچہ ان کی قضا اپنے وطن میں پڑھے۔

مسئلہ ۳۶۶: اگر سفر میں اپنے وطن پر قضا ہونے والی نمازوں کو پڑھنا چاہے تو ضروری ہے کہ وہ ظہر ، عصر اورعشاء کی چار رکعت پڑھے۔

مسئلہ ۳۶۷: اگر کوئی سُنی شخص شیعہ ہوجائے تو جو نمازیں اس کی پہلے سے قضا ہوئی تھیں ان قضا نمازوں کو شیعہ مذہب کے مطابق پڑھے۔

والد کی قضا نمازیں

والد کی قضا نمازیں

مسئلہ ۳۶۸: اگر والد نے اپنی واجب نمازوں کوادا نہ کیا ہو توبڑے بیٹے پرواجب ہے کہ اس کے مرنے کے بعد ان کوادا کرے۔ نیز بنا براحتیاط خواہ اس کے والد نے نافرمانی خداکرتے ہوئے نمازوں کو انجام نہ دیاہو پھر بھی بڑےبیٹے پرواجب ہے کہ اس کے مرنے کے بعد خود ان نمازوں کو انجام دے یا کسی شخص سے اجرت سے پڑھوائے لیکن ماں کی قضا نمازیں بڑےبیٹے پرواجب نہیں ہیں اگرچہ احوط ہے۔

مسئلہ ۳۶۹: اگر بڑابیٹا شک کرے کہ اس کے والد کی قضا نماز تھی یا نہیں تو اس پر کوئی چیزواجب نہیں ہے۔ اوراگر مقدار میں شک کرے تو کم مقدار پر اکتفاء کر سکتا ہے۔ 

مسئلہ ۳۷۰: اگرباپ پر کسی کی اجارہ کی وجہ سے نمازواجب ہو تو اس کی قضا بڑےبیٹے پرواجب نہیں ہے۔ 

مسئلہ ۳۷۱: اگر سب سے بڑابیٹا یہ جانتا ہو کہ اس کے والد کی قضا نمازیں تھیں اورشک کرے کہ انھوں نے پڑھی تھیں یا نہیں بنابر احتیاط واجب ضروری ہے کہ قضا کرے۔

مسئلہ ۳۷۲: اگربڑا بیٹا والدین کی نماز پڑھنا چاہے تو ضروری ہے کہ وہ اپنی تکلیف کے مطابق عمل کرے مثلاً اپنی والدہ کی صبح، مغرب اورعشاء کی قضا نماز بلندآواز سے میں پڑھے۔

مسئلہ ۳۷۳: جس شخص کے ذمے قضا نماز ہو اگر وہ اپنے ماں باپ کی قضا نمازیں بھی پڑھنا چاہے تو جسے بھی پہلے بجا لائے صحیح ہے۔

مسئلہ ۳۷۴: اگربڑا بیٹا والد کی قضا نماز و روزہ اداکرنے سے پہلے فوت ہوجائے تو دوسرے بیٹے پر کوئی چیز واجب نہیں ہے۔ 

مسئلہ ۳۷۵: اگربڑا بیٹاباپ کی موت کے وقت نا بالغ یا دیوانہ ہو تو ضروری ہے کہ بالغ یا عاقل ہونے کے بعدباپ کی قضا نمازیں پڑھے۔

نماز جماعت

نماز جماعت

اسلام مسلمانوں کے اجتماع کو خاص اہمیت دیتا ہے۔

مسئلہ ۳۷۶: نماز جماعت فرادی نماز سے چوبیس درجہ افضل ہے اورپچیس نمازوں کےبرابر ہے۔ بعض روایات میں اس طرح آیاہے کہ رسول خداﷺ نے فرمایا: جو شخص نماز جماعت پڑھنے کے لیے کسی مسجد میں جائے تو ہر قدم کے بدلے اس کو ستر ہزارنیکیاں ملیں گی اورا س طرح ستر ہزار درجات بھی ملیں گے اوراگر وہ ایسی حالت میں مرجائے تو خداوند عالم اس کے اوپر ستر ہزار فرشتے مقرر کرتا ہے کہ اس کی قبر پر جائیں اوراس کو جنت کی خوشخبری دیں اورقبر کی تنہائی میں اس کے مونس و یاورہوں اوراس کے لیے اس دن تک استغفار کریں جس دن اس کو قبر سے اٹھایا جائے گا۔

نماز جماعت میں تمام نمازیوں میں سے ایک شخص جو خاص صفات کا حامل ہو وہ بعنوان پیش نماز اوردوسرے نمازی منظم صفوں میں اس کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔

وہ شخص کہ جو اس با جماعت نماز میں سب سے آگے کھڑا ہوتا ہے اسے "پیش نماز" اورجو اس کے پیچھے کھڑے ہو کر اس کی اقتداء کرے اسے "مأموم" کہتے ہیں۔

اہمیت نماز

اہمیت نماز

مسئلہ ۳۷۷: جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا سب کیلئے مستحب ہے بالخصوص مسجد کے ہمسایہ کیلئے۔

مسئلہ ۳۷۸: مستحب ہے کہ انسان صبر کرے اورنماز کو جماعت کے ساتھ پڑھے۔

مسئلہ ۳۷۹: جماعت کی نماز اگرچہ اوّل وقت نہ پڑھی جائے پھر بھی اول وقت میں اکیلے نماز پڑھنے سے بہتر ہے لیکن فضیلت کے وقت میں فرادیٰ نماز پڑھنا، جماعت کے غیر فضیلت وقت میں پڑھنے سے افضل ہے۔

مسئلہ ۳۸۰: جماعت کی نماز جو مختصر پڑھی جائے اس اکیلے نماز پڑھنے سے بہتر ہے کہ جو طول دے کر پڑھی جائے۔

مسئلہ ۳۸۱: بے توجّہی کی وجہ سے نماز جماعت میں شامل نہ ہونا جائز نہیں ہے۔

مسئلہ ۳۸۲: بغیر کسی وجہ سے جماعت کی نماز کو نہ چھوڑا جائے۔

پیش نماز کی شرطیں

مسئلہ ۳۸۳: ضروری ہے کہ پیش نماز بالغ، عاقل، شیعہ اثنا عشری، عادل اورحلال زادہ ہو۔ اورنماز کو صحیح طریقے سے پڑھے اوراسی طرح اگر ماموم مرد ہو تو پیش نماز کا بھی مرد ہونا ضروری ہے ۔

نماز جماعت کی شرطیں

نماز جماعت کی شرطیں

مسئلہ ۳۸۴: درج ذیل شرطوں کا جماعت کی نماز میں خیال رکھنا ضروری ہے:

۱۔ پیش نماز اورمأموم کے درمیان اوراسی طرح صفوں کے درمیان کوئی چیز مثلاً دیوار یا پردہ رکاوٹ نہیں ہونا چاہیے لیکن مردوں اورعورتوں کی صفوں کے درمیان پردہ لگانا جائز ہے۔

۲۔ ماموم، پیش نماز سے آگے یا اس کےبرابر کھڑا نہ ہو بلکہ پیچھے کھڑا ہو۔ 

۳۔ پیش نماز کی کھڑے ہونے کی جگہ مأمومین کی جگہ سے اونچی نہیں ہونی چاہیے لیکن اگر معمولی سی مثلاً ایک بالشت سے کم اونچی ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔

۴۔ پیش نماز اورماموم اورصفوں کے درمیان زیادہ فاصلہ نہیں ہونا چاہیے۔

نماز جماعت میں شامل ہونا

نماز جماعت میں شامل ہونا

مسئلہ ۳۸۵: ہر رکعت میں فقط قرائت کےدوران اوررکوع میں پیش نماز کی اقتدا کرکے نماز میں شامل ہوسکتے ہیں۔ 

نماز جماعت میں شامل ہونے کے مختلف طریقے ہیں:

پہلی رکعت:

۱۔ قرائت کےدوران ماموم سورہ حمد اورسورہ کو نہ پڑھے لیکن باقی تمام اعمال کو پیش نماز کے ساتھ اداکرے۔

۲۔ رکوع میں رکوع اورباقی اعمال کو پیش نماز کے ساتھ اداکرے۔

دوسری رکعت:

۱۔ قرائت کےدوران ماموم حمد اورسورہ کو نہیں پڑھے گا اورپیش نماز کے ساتھ قنوت اوررکوع اورسجدہ اداکرے گا جس وقت پیش نماز تشہد پڑھے بنا براحتیاط واجب ضروری ہے کہ پیش نماز کے تشہد کے وقت اپنی ہاتھ کی انگلیوں اورپاؤں کے تلوے کے اگلے حصے کو زمین پر رکھے اوراپنے گھٹنوں کو اٹھالے اوراگر نماز دو رکعتی ہے تو ایک رکعت اوراکیلے پڑھے اورنماز کو پورا کرے اوراگر نماز تین یا چار رکعتی ہے تو اپنی دوسری رکعت میں کہ جس وقت پیش نماز کی تیسری رکعت ہے حمد اورسورہ پڑھے اورجس وقت پیش نماز تیسری رکعت کو پورا کرے اورچوتھی رکعت کے لیے کھڑا ہو تو ماموم کو چاہیے کہ دو سجدوں کے بعد تشہد پڑھے اورکھڑا ہوجائے اورتیسری رکعت کو اداکرے اورنماز کی آخری رکعت میں جب پیش نماز تشہد اورسلام پڑھنے کے ساتھ اپنی نماز ختم کرے تو یہ شخص کھڑا ہو کر ایک رکعت اورپڑھے۔

۲۔ رکوع میں رکوع اورباقی اعمال کو پیش نماز کے ساتھ جس طرح بیان ہوچکا ہے پڑھے۔

تیسری رکعت:

۱۔ قرائت کےدوران اگر یہ جانتا ہے کہ اگر پیش نماز کی اقتداء کرے تو حمد اورسورہ یا فقط حمد پڑھنے کا وقت ہے تو اقتداء کرسکتا ہے اورضروری ہے کہ حمد اورسورہ یا حمد کو پڑھے۔ اوراگر یہ جانتا ہو کہ وقت تنگ ہے تو بنا بر احتیاط واجب صبر کرے تاکہ پیش نماز رکوع میں جائے پھر اس کی اقتداء کرے۔

۲۔ رکوع میں     اگر رکوع میں اقتدا کرے تو رکوع کو پیش نماز کے ساتھ اداکرے اورحمد اورسورہ اس رکعت کے لیے ساقط ہے اورباقی نماز کو جس طرح پہلے بیان ہوچکا ہے اداکرے۔

چوتھی رکعت:

۱۔ قرائت کے دوران تیسری رکعت کی اقتداء کی طرح ہے جس وقت پیش نماز ، نماز کی آخری رکعت میں تشہد اورسلام کے لیے بیٹھتا ہے تو ماموم کھڑا ہوسکتا ہے اوراپنی نماز کو اکیلا پڑھ سکتا ہے نیز نیمہ خیز بیٹھ سکتا ہے جس وقت پیش نماز تشہد اورسلام پورا کرے پھر کھڑا ہوجائے۔

۲۔ رکوع میں  رکوع اورسجدوں کو پیش نماز کے ساتھ اداکرے اورباقی نماز کو خود پڑھے۔

نماز جماعت کے احکام

نماز جماعت کے احکام

مسئلہ ۳۸۶:اگر پیش نماز روزانہ کی نمازوں میں سے ایک نماز پڑھ رہا ہو تو نماز پنجگانہ میں سے کسی ایک نماز کی اقتداء کی جاسکتی ہے اس بناء پر اگر پیش نماز عصر کی نماز پڑھ رہا ہو تو ماموم نماز ظہر کو اس کے پیچھے پڑھ سکتا ہے۔

مسئلہ ۳۸۷: اگر پیش نماز اپنی ادا نماز پڑھ رہا ہو تو ماموم اپنی پنجگانہ نمازوں میں سے کسی کی قضاء نماز پیش نماز کے پیچھے پڑھ سکتا ہے مثلاً پیش نماز ظہر کی نماز پڑھ رہا ہو تو وہ صبح کی نماز کی قضاء، اس کے ساتھ پڑھ سکتا ہے۔

مسئلہ ۳۸۸: مستحبی نمازوں کو جماعت کے ساتھ نہیں پڑھا جاسکتا۔ لیکن بارش کی طلب کیلئے نماز با جماعت پڑھ سکتے ہیں غیبت کے زمانہ میں نماز عیدین کا پڑھنا مستحب ہے اوران کو با جماعت پڑھا جاسکتا ہے۔

نماز جماعت میں ماموم کی ذمہ داری

مسئلہ ۳۸۹: ماموم تکبیرۃ الاحرام کو پیش نماز سے پہلے نہ کہے بلکہ احتیاط واجب یہ ہے کہ جب تک پیش نماز کی تکبیر ختم نہ ہو ماموم تکبیرۃ الاحرام نہ کہے۔

مسئلہ ۳۹۰: ماموم حمد اورسورہ کے علاوہ نماز کی دوسری چیزیں خود پڑھے لیکن اگر اس کی پہلی یا دوسری رکعت ہو اورپیش نماز کی تیسری یا چوتھی رکعت ہو تو حمد اورسورہ کو پڑھے۔

مسئلہ ۳۹۱: اگر ماموم تکبیرۃ الاحرام اورسلام کے علاوہ نماز کے دوسرے اذکار کو پیش نماز سے پہلے پڑھ دے تو کوئی حرج نہیں ہے۔

مسئلہ ۳۹۲: ماموم کو چاہیے کہ وہ رکوع اورسجدوں کو پیش نماز سے تھوڑی دیر بعد انجام دے۔

مسئلہ ۳۹۳: اگراس وقت اقتدا کرے کہ جس وقت پیش نماز رکوع میں ہو

(الف) اگر پیش نماز کے رکوع کے ذکر کے ختم ہونے سے پہلے رکوع میں پہنچ جائے تو اس کی نماز جماعت صحیح ہے۔

(ب) اگر اس وقت رکوع کی حد تک پہنچے کہ جس وقت پیش نماز کا رکوع کا ذکر ختم ہوجائے لیکن پیش نماز ابھی رکوع کی حالت میں ہو تو اس کی نماز جماعت صحیح ہے۔

(ج) اگر ماموم رکوع میں جائے لیکن پیش نماز کے رکوع میں نہ پہنچ سکے تو اس کی نماز فرادیٰ طریقے سے صحیح ہے اورضروری ہے کہ وہ اپنی نماز کو پورا کرے۔

اگر ماموم، بھولے سے (سہواً) پیش نماز سے پہلے :

۱۔ رکوع میں چلا جائے واجب ہے کہ اٹھے اورپیش نماز کے ساتھ رکوع میں جائے۔

۲۔ رکوع سے اٹھ جائے ضروری ہے کہ رکوع میں واپس چلا جائے اورپیش نماز کے ساتھ سر کو رکوع سے اٹھائے۔ اس صورت میں رکوع کا زیادہ ہونا نماز کو باطل نہیں کرتا ۔لیکن اگر رکوع میں واپس چلا جائے اورقبل از آنکہ رکوع میں جائے پیش نماز اپنے سر کو رکوع سے اٹھا لے تو اس کی نماز باطل ہے۔

۳۔ سجدے میں چلا جائے اگر اس ارادے سے کہ پیش نماز کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہے سر کو اٹھا لے اورپیش نماز کے ساتھ سجدے میں جائے تو اس کی نماز صحیح ہے اوراگر جان بوجھ کر واپس نہ اٹھے تو اس کی نماز فرادیٰ صحیح ہے۔

۴۔ سر کو سجدے سے اٹھالے: ضروری ہے کہ سجدے میں واپس چلا جائے۔

نماز جماعت کے بعض مستحبات اورمکروہات

نماز جماعت کے بعض مستحبات اورمکروہات

مسئلہ ۳۹۴: مستحب ہے کہ پیش نماز صف کے درمیان میں کھڑا ہو اوراہل علم و کمال اورباتقویٰ لوگ پہلی صف میں کھڑے ہوں۔

مسئلہ ۳۹۵: مستحب ہے کہ نماز جماعت کی صفیں منظم ہوں اورجو لوگ ایک صف میں کھڑے ہیں ان کے درمیان فاصلہ نہ ہو۔

مسئلہ ۳۹۶: اگر جماعت کی صفوں کے درمیان جگہ ہو تو ایسی صورت میں اکیلا کھڑا ہونا مکروہ ہے۔

مسئلہ ۳۹۷: ماموم کا اذکار نماز کو اس طرح پڑھنا کہ پیش نماز سن لے مکروہ ہے۔

مسئلہ ۳۹۸: جس مسافر کو نماز ظہر، عصر اورعشا دو رکعت پڑھنا ہیں اس کے یے ایسے شخص کی اقتدا کرنا جو مسافر نہیں ہے مکروہ ہے اورجو شخص مسافر نہیں اس کے لیے کسی ایسے شخص کی اقتدا کرنا جو مسافر ہو مکروہ ہے۔

مسافر کی نماز

مسافر کی نماز

مسئلہ ۳۹۹: مسافر کے لیے ضروری ہے کہ وہ ظہر و عصر اورعشاء کی نماز کودرج ذیل آٹھ شرطوں کی بنا بر قصر دا کرے۔

۱۔ اس کا سفر آٹھ فرسخ شرعی سے کم نہ ہو (۴۴ کلو میٹر)

۲۔ سفر کرنے سے پہلے آٹھ فرسخ کاارادہ رکھتا ہو۔

۳۔ راستے میں اپنے ارادےسے نہ پھرے۔

۴۔ آٹھ ٖفرسخ کے پہنچنے سے پہلے وطن سے نہ گزرے یا دس دن یا اس سےزیادہ کا قیام کا ا رادہ نہ ہو۔

۵۔ حرام کام کے لیے سفر نہ کرے۔

۶۔ صحرا میں رہنے والا نہ ہو کہ جن کی جگہ معین نہیں ہوتی۔

۷۔ اس کا پیشہ سفر کرنا نہ ہو یا کثیر السفر نہ ہو۔

۸۔ حدّ ترخص تک پہنچ جائے۔

مسافر کی نماز کے بعض احکام

مسافر کی نماز کے بعض احکام

 

مسئلہ ۴۰۰:جس کاآنا اورجانا ملا کر آٹھ فرسخ ہو وہ نماز قصر پڑھے۔

مسئلہ ۴۰۱: جو سفر پر جا رہا ہے اس وقت نماز قصر پڑھے گا کہ جب وہ حدّ ترخص تک پہنچ جائے یعنی کم از کم اتنا دورہوجائے  کہ شہر کی دیواریں نظر نہ آئیں اوراذان کی آواز نہ سنے۔

مسئلہ ۴۰۲: اگر ایسی جگہ سے سفر کرے کہ جس جگہ گھر اوردیوار نہ ہوں تو جس وقت ایسی جگہ پہنچ جائے کہ اگر وہاں پر گھر اوردیوار ہوتے تو اس جگہ سے نظر نہ آتے تو وہاں سے نماز کو قصر پڑھے۔

مسئلہ ۴۰۳: اگر کوئی شخص پہلے سے ہی آٹھ فرسخ کے سفر کاارادہ نہیں رکھتا تھا اوربغیر قصد کے اتنا سفر طے کرے مثلاً کسی گمشدہ چیز کی تلاش میں ہو تو اس کی نماز پوری ہے۔

مسئلہ ۴۰۴: کوئی حرام سفر کرے مثلاً وہ سفر کہ جو ماں باپ کو تکلیف دینے کا موجب بنے اس کی نماز پوری ہے۔

مسئلہ ۴۰۵: کسی کا کاروبار دوسری جگہ ہےاوروہ ہر روز یا ہر دو دن میں ایک مرتبہ اس جگہ سفر کرتا ہے اورواپس آجاتا ہے مثلاً بعض استاد اورڈاکٹر یا تاجر ، ان کی نماز پوری ہے۔

مسئلہ ۴۰۶: کسی کا پیشہ سفر کرنا ہو یا اس کا پیشہ سفر نہ ہو اگر وہ دس دن یا اس سے زیادہ کسی جگہ رہے دس دن قیام کے بعد جو پہلا سفر کرے تو اس میں نمازقصر ہوگی۔ اگرچہ سودا گر (مکاری) کے علاوہ  لوگوں کے لیے احتیاط مستحب یہ ہے کہ قصر اورپوری نماز دونوں پڑھیں۔

مسئلہ ۴۰۷: کسی کا پیشہ سفر کرنا نہیں ہے مثلاً اگر کسی شہر میں یا گاؤں میں کوئی سامان ہے یا جنس ہے کہ اس کو اٹھانے کی خاطر ضروری ہے کہ زیادہ سفر کرے تو وہ نماز کو قصر پڑھے۔ لیکن اگر اس کا سفر اتنا زیادہ ہوجائے کہ لوگ اس کو "کثیر السفر" کہیں تو اس کی نماز پوری ہے۔

مسئلہ ۴۰۸: وہ مسافر کہ جو اپنی نماز پوری پڑھتا رہا ہو:

(الف) اگر نہ جانتا ہوکہ مسافر کی نماز قصر ہوتی ہے وہ نماز کہ جو پڑھ چکا ہے صحیح ہے۔

(ب) سفر کے حکم کو جانتا تھا لیکن اس کی بعض خصوصیات کو نہیں جانتا  تھا مثلاً کسی جگہ دس دن قیام سے سفر کا حکم ٹوٹ جاتا ہے یا گنا گار اپنے سفر میں توبہ کرے تو قصر پڑھنے کا حکم ہے کو نہیں جانتا تھا اورنماز پوری پڑھتا رہا اگر وقت میں پتہ چل جائے تو اعادہ کرے اوراگر اعادہ نہ کرے تو اس کی قضا کرے یا سفر کے حکم کو جانتا تھا لیکن بھول کر پوری نماز پڑھی ہو اگر وقت کے اندر ملتفت ہو جائے  تو اس کی نماز باطل ہے نماز کو قصر پڑھے۔ اوراگر وقت کے ختم ہونے کے بعد متوجہ ہو تو اس پر قضاواجب نہیں ہے۔

مسئلہ ۴۰۹: اگر بھول جائے کہ مسافر ہے اورنماز کو پورا پڑھے پس اگر اس کو وقت کے اندریاد آجائے تو نماز کو قصر پڑھے اوراگر وقت کے بعدیاد آجائے تو اس پر اس نماز کی قضاواجب نہیں ہے۔ 

مسئلہ ۴۱۰: جس کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ پوری نماز پڑھے اگر قصر پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے۔

 

 

مسئلہ ۴۰۰:جس کا آنا اورجانا ملا کر آٹھ فرسخ ہو وہ نماز قصر پڑھے۔

مسئلہ ۴۰۱: جو سفر پر جا رہا ہے اس وقت نماز قصر پڑھے گا کہ جب وہ حدّ ترخص تک پہنچ جائے یعنی کم از کم اتنا دور ہوجائے  کہ شہر کی دیواریں نظر نہ آئیں اوراذان کی آواز نہ سنے۔

مسئلہ ۴۰۲: اگر ایسی جگہ سے سفر کرے کہ جس جگہ گھر اوردیوار نہ ہوں تو جس وقت ایسی جگہ پہنچ جائے کہ اگر وہاں پر گھر اوردیوار ہوتے تو اس جگہ سے نظر نہ آتے تو وہاں سے نماز کو قصر پڑھے۔

مسئلہ ۴۰۳: اگر کوئی شخص پہلے سے ہی آٹھ فرسخ کے سفر کا ارادہ نہیں رکھتا تھا اوربغیر قصد کے اتنا سفر طے کرے مثلاً کسی گمشدہ چیز کی تلاش میں ہو تو اس کی نماز پوری ہے۔

مسئلہ ۴۰۴: کوئی حرام سفر کرے مثلاً وہ سفر کہ جو ماں باپ کو تکلیف دینے کا موجب بنے اس کی نماز پوری ہے۔

مسئلہ ۴۰۵: کسی کا کاروبار دوسری جگہ ہے اوروہ ہر روز یا ہر دو دن میں ایک مرتبہ اس جگہ سفر کرتا ہے اورواپس آجاتا ہے مثلاً بعض استاد اورڈاکٹر یا تاجر ، ان کی نماز پوری ہے۔

مسئلہ ۴۰۶: کسی کا پیشہ سفر کرنا ہو یا اس کا پیشہ سفر نہ ہو اگر وہ دس دن یا اس سے زیادہ کسی جگہ رہے دس دن قیام کے بعد جو پہلا سفر کرے تو اس میں نمازقصر ہوگی۔ اگرچہ سودا گر (مکاری) کے علاوہ  لوگوں کے لیے احتیاط مستحب یہ ہے کہ قصر اورپوری نماز دونوں پڑھیں۔

مسئلہ ۴۰۷: کسی کا پیشہ سفر کرنا نہیں ہے مثلاً اگر کسی شہر میں یا گاؤں میں کوئی سامان ہے یا جنس ہے کہ اس کو اٹھانے کی خاطر ضروری ہے کہ زیادہ سفر کرے تو وہ نماز کو قصر پڑھے۔ لیکن اگر اس کا سفر اتنا زیادہ ہوجائے کہ لوگ اس کو "کثیر السفر" کہیں تو اس کی نماز پوری ہے۔

مسئلہ ۴۰۸: وہ مسافر کہ جو اپنی نماز پوری پڑھتا رہا ہو:

(الف) اگر نہ جانتا ہوکہ مسافر کی نماز قصر ہوتی ہے وہ نماز کہ جو پڑھ چکا ہے صحیح ہے۔

(ب) سفر کے حکم کو جانتا تھا لیکن اس کی بعض خصوصیات کو نہیں جانتا  تھا مثلاً کسی جگہ دس دن قیام سے سفر کا حکم ٹوٹ جاتا ہے یا گنا گار اپنے سفر میں توبہ کرے تو قصر پڑھنے کا حکم ہے کو نہیں جانتا تھا اورنماز پوری پڑھتا رہا اگر وقت میں پتہ چل جائے تو اعادہ کرے اوراگر اعادہ نہ کرے تو اس کی قضا کرے یا سفر کے حکم کو جانتا تھا لیکن بھول کر پوری نماز پڑھی ہو اگر وقت کے اندر ملتفت ہو جائے  تو اس کی نماز باطل ہے نماز کو قصر پڑھے۔ اوراگر وقت کے ختم ہونے کے بعد متوجہ ہو تو اس پر قضا واجب نہیں ہے۔

مسئلہ ۴۰۹: اگر بھول جائے کہ مسافر ہے اورنماز کو پورا پڑھے پس اگر اس کو وقت کے اندر یاد آجائے تو نماز کو قصر پڑھے اوراگر وقت کے بعد یاد آجائے تو اس پر اس نماز کی قضا واجب نہیں ہے۔

مسئلہ ۴۱۰: جس کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ پوری نماز پڑھے اگر قصر پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے۔

ان جگہوں پر نماز پوری ہے

ان جگہوں پر نماز پوری ہے

مسئلہ ۴۱۱:

۱۔ وطن

۲۔ وہ جگہ کہ جہاں جانتا ہے کہ وہاں دس دن قیام ہے یا ہوگا۔

۳۔ وہ جگہ کہ جہاں تیس دن تردید میں رہا ہو (یعنی) یہ نہیں جانتا تھا کہ رہے گا یا جائے گا اورتیس دن مسلسل مردّد رہا ہو۔ کسی اورجگہ بھی نہ گیا ہو۔ ایسی صورت میں تیس دن کے بعد پوری نماز پڑھے۔

وطن

وطن

مسئلہ ۴۱۲: وطن وہ جگہ ہے کہ جہاں انسان ہمیشہ رہنے کے لیے خود اختیار کرے خواہ وہ اس جگہ پیدا ہوا ہو اوراس کے والدین کا وطن ہو یا اس نے خود وہ جگہ زندگی گزارنے کے لیے انتخاب کی ہو۔

مسئلہ ۴۱۳: اگرارادہ رکھتا ہو کہ ایسی جگہ کہ جو اس کا اصلی وطن نہ ہو کچھ مدت رہے اوربعد میں دوسری جگہ چلا جائے تو وہ جگہ اس کا وطن شمار نہیں ہوگی۔ جہاں انسان اپنی سکونت اختیار کرے یہ اس شخص کی طرح ہے جس کا وطن ہے وروہ وہاں زندگی بسر کر رہا ہے جیسے اکثر طالب علم جو کہ حوزات علمیہ میں ساکن ہیں اگر ان کو کوئی سفر پیش آجائے تودوبارہ اسی جگہ پلٹتے ہوں چاہے وہاں رہنے کا ہمیشہ کے لیےارادہ نہ بھی ہو یہ وطن کے حکم میں ہے۔

مسئلہ ۴۱۴: اگر ا س جگہ پہنچے کہ جو پہلے اس کا وطن تھا لیکن اب اس جگہ کو ترک کر چکا ہے وہاں پوری نماز نہ پڑھے اگرچہ کسی دوسری جگہ کو اپنے لیے وطن قرار نہ بھی دیاہو۔

مسئلہ ۴۱۵: وہ مسافر کہ جو اپنے وطن میں واپس آئے جس وقت اپنے وطن کی دیوار یا گھروں کو دیکھے یا اذان کی آواز سُنے تو اس وقت ضروری ہے کہ نماز پوری پڑھے۔

دس دن کاارادہ

دس دن کاارادہ

مسئلہ ۴۱۶: وہ مسافر کہ جس نےارادہ کیا ہے کہ کسی جگہ دس دن رہے گا۔ اگر دس دن سےزیادہ اس جگہ رہے پس جس وقت تک سفر نہ کرے نماز کو پورا پڑھے ضروری نہیں ہے کہ وہ دوبارہ دس دن رہنے کاارادہ کرے۔

مسئلہ ۴۱۷: اگر مسافر دس دن کے ارادےسے پھر جائے یا مردّد ہوجائے کہ وہاں رہے یا کسی اورجگہ پر چلا جائے۔

اگر چار رکعتی نماز نماز پڑھنے سے پہلے اپنے ارادےسے پھر جائے یا مردّد ہوجائے تو نماز کو قصر پڑھے۔

اگر چار رکعتی نماز پڑھنے کے بعد اپنے ارادےسے پھرے یا مردّد ہو تو جس وقت تک اس جگہ ہے نماز کو پورا پڑھے۔

نمازآیات

نمازآیات

 

مسئلہ ۴۱۸: واجبی نمازوں میں سے ایک نماز، نمازآیات ہے کہ جو زمین یا آسمانی حادثات، آفات کی وجہ سےواجب ہوجاتی ہے:

v   زلزلہ

v   خسوف (چاند گرہن)

v   کسوف (سورج گرہن)

v   بجلی کی چمک سرخ اورزردطوفان وغیرہ اس صورت میں کہ اکثر لوگ خوف زدہ ہوجائیں۔

 

 

مسئلہ ۴۱۸: واجبی نمازوں میں سے ایک نماز، نماز آیات ہے کہ جو زمین یا آسمانی حادثات، آفات کی وجہ سے واجب ہوجاتی ہے:

v   زلزلہ

v   خسوف (چاند گرہن)

v   کسوف (سورج گرہن)

v   بجلی کی چمک سرخ اورزرد طوفان وغیرہ اس صورت میں کہ اکثر لوگ خوف زدہ ہوجائیں۔

نماز آیات کا طریقہ

نماز آیات کا طریقہ

مسئلہ ۴۱۹: نماز آیات دو رکعت ہے اور ہر رکعت میں پانچ رکوع ہیں اور وہ دو طرح سے پڑھی جاسکتی ہے:

(الف) نیت کے بعد تکبیرکہے اور ایک حمد اور ایک سورہ پڑھے اور رکوع میں جائے اور سر کو رکوع سے اٹھائے اور دوبارہ ایک حمد اور ایک سورہ پڑھے اور رکوع میں جائے اور اسی عمل کو پانچ مرتبہ انجام دے اور پانچویں رکوع کے بعد دو سجدے کرے اور دوسری رکعت کو بھی پہلی رکعت کی طرح انجام دے اور تشہد پڑھے اور سلام کرے۔

(ب) نیت اور تکبیر اور حمد پڑھنے کے بعد ایک سورہ کو پانچ حصوں میں تقسیم کرے، درج ذیل شکل کی طرح:

1.    بسم اللہ الرحمن الرحیم            رکوع

2.    قل ھُو اللہ اَحَد                                        رکوع

3.    اللہ الصَّمَدُ                                               رکوع

4.    لَم یَلِد وَلَم یُولَد                                         رکوع

5.    وَ لَم یَکُن لَہ کُفُواً اَحد                             رکوع

پھر دوسری رکعت کو بھی اِسی طرح انجام دے۔

مسئلہ۴۲۰: پہلی رکعت میں پہلے طریقے اور دوسری رکعت میں دوسرے طریقے سے بھی پڑھ سکتا ہے اور بالعکس بھی جائز ہے۔

مسئلہ ۴۱۹: نماز آیات دو رکعت ہے اور ہر رکعت میں پانچ رکوع ہیں اور وہ دو طرح سے پڑھی جاسکتی ہے:

(الف) نیت کے بعد تکبیرکہے اور ایک حمد اور ایک سورہ پڑھے اور رکوع میں جائے اور سر کو رکوع سے اٹھائے اور دوبارہ ایک حمد اور ایک سورہ پڑھے اور رکوع میں جائے اور اسی عمل کو پانچ مرتبہ انجام دے اور پانچویں رکوع کے بعد دو سجدے کرے اور دوسری رکعت کو بھی پہلی رکعت کی طرح انجام دے اور تشہد پڑھے اور سلام کرے۔

(ب) نیت اور تکبیر اور حمد پڑھنے کے بعد ایک سورہ کو پانچ حصوں میں تقسیم کرے، درج ذیل شکل کی طرح:

1.    بسم اللہ الرحمن الرحیم            رکوع

2.    قل ھُو اللہ اَحَد                                        رکوع

3.    اللہ الصَّمَدُ                                               رکوع

4.    لَم یَلِد وَلَم یُولَد                                         رکوع

5.    وَ لَم یَکُن لَہ کُفُواً اَحد                             رکوع

پھر دوسری رکعت کو بھی اِسی طرح انجام دے۔

مسئلہ۴۲۰: پہلی رکعت میں پہلے طریقے اور دوسری رکعت میں دوسرے طریقے سے بھی پڑھ سکتا ہے اور بالعکس بھی جائز ہے۔

نماز آیات کے احکام

نماز آیات کے احکام

مسئلہ ۴۲۱: اگر نماز آیات کے اسباب میں سے کوئی ایک سبب کسی شہر میں واقع ہوجائے۔ تو فقط ا سی شہر کے لوگ نماز آیات پڑھیں اور دوسری جگہ کے لوگوں پر واجب نہیں۔

مسئلہ ۴۲۲: نماز آیات کا ہر رکوع رکن ہے۔ اگر عمداً یا سہواً کم یا زیادہ ہو جائے تو نماز باطل ہے۔

مسئلہ ۴۲۳: اگر سمجھ جائے کہ نماز آیات کہ جو چاند گرہن یا سورج گرہن کےلیے پڑھی ہے باطل تھی ۔ تو دوبارہ پڑھنا ضروری ہے اور اگر اس کا وقت گزر چکا ہے تو قضا کرے۔

مسئلہ ۴۲۴: جس وقت زلزلہ آئے یا بجلی چمکے یا اس طرح کے واقعات پیش آئیں تو انسان کو چاہیے کہ فوراً نماز آیات پڑھے اور اگر نہ پڑھے تو گنہگار ہے اور آخر عمر تک اس پر واجب ہے اور جس وقت پڑھے احتیاط کی بنا پر ادا یا قضا کی نیت نہ کرے۔

مسئلہ ۴۲۵: نماز آیات میں قرائت کو بلند آواز سے پڑھنا مستحب ہے۔

نماز جمعہ

نماز جمعہ 

نماز جمعہ مسلمانوں کے بڑے اجتماع کے اسباب میں سے ایک ہے اور مسلمانوں کے اتحاد کا راز ہے، جمعہ کے دن مسلمان اکٹھے ہوتے ہیں اور اسلامی مسائل کو خطیب جمعہ سے سنتے ہیں۔

مسئلہ ۴۲۶:نماز جمعہ دو رکعت ہے اور اس میں دو خطبے ہیں کہ جن کو پیش نماز، نماز سے پہلے پڑھتا ہے۔

غیبت کبریٰ میں شرائط کی موجودگی میں نماز جمعہ کو رجاء کی نیت سے پڑھ سکتے ہیں لیکن یہ نماز ظہر سے مجزی نہیں ہے بلکہ نماز ظہر کا پڑھنا ضروری ہے۔

عید کی نماز

عید کی نماز

مسئلہ ۴۲۷: عید فطر اور عید قربان کی نماز زمان غیبت میں مستحب ہے جو کہ عید فطر اور عید قربان کے دن پڑھی جاتی ہیں۔

مسئلہ ۴۲۸: عید فطر اور قربان کی نماز کا وقت سورج کے نکلنے سے ظہر تک ہے۔

مسئلہ ۴۲۹: مستحب ہے کہ عید قربان کی نماز کو سورج چڑھ آنے کے بعد پڑھا جائے۔

مسئلہ ۴۳۰: نماز عیدین دو رکعت ہیں جماعت اور فرادیٰ دونوں طرح پڑھی جاسکتی ہیں جس کی پہلی رکعت میں الحمد اور سورہ پڑھنے کے بعد ضروری ہے کہ پانچ تکبیریں کہے اور ہر تکبیر کے بعد ایک قنوت پڑھے۔ پانچویں قنوت کے بعد ایک اور تکبیر کہہ کر رکوع میں چلا جائے اور دو سجدوں کے بعد اٹھ کھڑا ہو۔ دوسری رکعت میں حمد و سورہ پڑھنے کے بعد چار تکبیریں کہے اور ہر تکبیر کے بعد ایک قنوت پڑھے پانچویں تکبیر کہہ کر رکوع میں چلا جائے، رکوع کے بعد دو سجدے بجا لائے اور تشہد و سلام پڑھے۔

مسئلہ ۴۳۱: مستحب ہے کہ عید کی نمازمیں زمین پر سجدہ کیا جائے، تکبیریں کہتے وقت ہاتھوں کو بلند کیا جائے اور پیش نماز بلند آواز سے قرائت کرے۔ لیکن اگر نماز عید فرادیٰ پڑھے تو بلند آواز سے قرائت کے پڑھتے کے استحباب میں تامل پایا جاتا ہے۔

مسئلہ ۴۳۲: غیبت کے زمانے میں نماز عید فطر اور قربان کے بعد دو خطبوں کا پڑھنا مستحب ہے۔ بہتر یہ ہے کہ عید فطر کے خطبے میں فطرے کے احکام بیان ہوں اور عید قربان میں قربانی کے احکام بیان ہوں۔

مسئلہ ۴۳۳: نماز عید میں دوسری نمازوں کی طرح مقتدی کے لیے ضروری ہے کہ الحمد اور سورہ کے علاوہ نماز کے باقی اذکار خود پڑھے۔

روزے کے احکام

روزے کے احکام

ارشاد رب العزت ہے:

{ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ}

(سورہ بقرہ، آیت ۱۸۳)

 اسلام کے مہم واجبات میں سے ایک واجب روزہ ہے جو انسان کو خود سازی ، کمال اور معنویت کو حاصل کرنے میں مدد کرتا ہے۔ اس کی عظمت کیلئے خداوند متعال کا یہ فرمان ہی کافی ہے کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔

روزے کی تعریف یہ ہے کہ انسان "طلوع فجر صادق " سے لیکر "مغرب" (رات) تک اطاعت خداوندی کے لیے بعض کاموں سے پرہیز کرے کہ جن کی تفصیل بعد میں آئے گی۔

روزے کے اہداف یہ ہیں کہ روزہ روح اور جسم کو سلامت رکھتا ہے، تقویٰ اور پرہیز گاری تزکیہ نفس ، پاکیزگی اخلاق کا موجب اور بری عادات سے بچنے کی طرف دعوت کرتا ہے اسی بارے میں پیغمبر اکرم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ:

ماہ رمضان، وہ مہینہ ہے کہ اس میں انسان کو خدا کی مہمانی کی طرف دعوت کی جاتی ہے۔ اس بناء پر خدا سے یہ دعا مانگو کہ

  1. 1.خدا تمہاری نیتوں اور دلوں کو گناہوں اور بری صفات سے پاک کرے۔
  2. 2.روزہ رکھنے اور تلاوت قرآن کی توفیق عطا کرے۔
  3. 3.جس وقت بھوک اور پیاس لگے تو قیامت کی بھوک اور پیاس کو یاد کرو۔
  4. 4.اسی طرح غریب ، مسکین اور بے سہارا لوگوں کی مدد کرو۔
  5. 5.بچوں اور رشتے داروں سے پیار اور محبت سے پیش آؤ۔
  6. 6.اپنی زبان کو بیہودہ اور بری باتوں سے بچاؤ۔
  7. 7.اپنی آنکھوں کو حرام چیزیں دیکھنے سے بچاؤ۔
  8. 8.اپنے کانوں کو حرام کے سننے سے روکو۔
  9. 9.یتیموں سے مہربانی سے پیش آؤ۔

روزے کی اقسام

روزے کی اقسام

مسئلہ ۴۳۴:روزے کی چار قسمیں ہیں:

۱۔ واجب                     ۲۔ حرام              ۳۔ مستحب                      ۴۔ مکروہ

واجب روزے

واجب روزے

مسئلہ ۴۳۵:

  1. 1.ماہ مبارک رمضان کے روزے
  2. 2.کفارے کے روزے
  3. 3.وہ روزہ کہ جو نذر، عہد اور قسم کی وجہ سے واجب ہو جاتا ہے
  4. 4.والد کے قضا روزے جو بڑے بیٹے پر واجب ہیں۔

حرام روزے

حرام روزے

مسئلہ ۴۳۶:شریعت میں کچھ روزے رکھنا حرام ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں:

  1. 1.عید الفطر کا روزہ
  2. 2.عید قربان کا روزہ
  3. 3.جو شخص منی میں ہے اس کے لیےایام تشریق ۱۱۔ ۱۲۔ ۱۳ ذی الحجہ کا روزہ رکھنا
  4. 4.یوم الشک کو ماہ رمضان کی نیت سے روزہ رکھنا
  5. 5.اولاد کا وہ مستحبی روزہ جو والد کو تکلیف دینے کا باعث بنے۔

مستحب روزے

مستحب روزے

مسئلہ ۴۳۷:حرام اور مکروہ روزوں کے علاوہ پورے سال کے روزے رکھنا مستحب ہے لیکن بعض دنوں کے روزوں کے بارے میں زیادہ تاکید ہوئی ہے ان میں سے بعض روزے درج ذیل ہیں:

  1. 1.ہر مہینے کی پہلی اور آخری جمعرات
  2. 2.ہر مہینے کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ
  3. 3.رجب اور شعبان کا پورا مہینہ
  4. 4.عید نوروز کے دن
  5. 5.۲۵ اور ۲۹ ذی القعدہ کے دن کا روزہ
  6. 6.عید غدیر کے دن (۱۸ ذی الحجہ)
  7. 7.عید مباہلہ کے دن (۲۴ ذی الحجہ) کا روز
  8. 8.عید مبعث رسول خدا ﷺ (۲۷ رجب)
  9. 9.روز میلاد رسول خدا ﷺ (۱۷ ربیع الاوّل)

مکروہ روزے

مکروہ روزے

مسئلہ ۴۳۸:

  1. 1.عاشور کے دن([1])
  2. 2.اس دن کا روزہ کہ جس میں شک ہو کہ روزہ عرفہ ہے یا عید قربان


[1] ۔ عاشور کے دن روزہ نہ رکھا جائے بلکہ روزے کی نیت کے بغیر فاقہ کرنا چاہیے کوئی چیز نہ کھائے پیئے عصر کے بعد فاقہ کوتوڑ دے۔

روزے کی نیت

روزے کی نیت

مسئلہ ۴۳۹:انسان ماہ رمضان کی ہر رات کو اگلے دن کے روزے کی نیت کرسکتا ہے اور بہتر یہ ہے کہ ماہ رمضان کی پہلی رات کو پورے مہینے کے روزوں کی نیت کرلے۔

مسئلہ ۴۴۰: ماہ رمضان کے روزوں کی نیت کا وقت رات کے پہلے حصے سے لیکر اذان صبح تک ہے۔

مسئلہ ۴۴۱: اگر کوئی شخص اذان صبح سے پہلے نیت کرنا بھول جائے اور روزے کی نیت کے بغیر سو جائے لیکن زوال سے پہلے جاگ جائے مشہور یہ ہے کہ روزے کی نیت کرسکتا ہے اور اس کا روزہ صحیح ہے۔

مبطلات روزہ

مبطلات روزہ

مسئلہ ۴۴۲: مبطلات روزہ درج ذیل ہیں:

  1. 1.کھانا اور پینا
  2. 2.غلیظ غبارکا حلق تک پہنچانا
  3. 3.پورے سر کو پانی میں ڈبونا
  4. 4.عمداً (جان بوجھ کر) قے کرنا۔ اگر بغیر اختیار کے قے آجائے تو کوئی حرج نہیں ہے
  5. 5.جماع کرنا
  6. 6.استمناء
  7. 7.صبح کی اذان تک حالت جنابت پر باقی رہنا۔ یہ حکم ماہ رمضان اور اس کی قضا روزوں کے بارے میں ہے اس کے علاوہ دوسرے واجب روزوں میں احتیاط مستحب یہ ہے کہ عمداً جنابت پر باقی نہ رہے۔
  8. 8.کسی بہنے والی چیز سے اینما لینا۔
  9. 9.خدا، پیغمبر ﷺ یا ائمہ معصومین علیہم السلام سے کوئی جھوٹی بات منسوب کرنا بلکہ احوط یہ ہے کہ دوسرے انبیاء ، اوصیاء اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا سے بھی کوئی جھوٹی بات منسوب نہ کرے۔

More Articles ...

  1. احکام مبطلات روزہ
  2. غلیظ غبار کا حلق تک پہنچانا
  3. تمام سر کا پانی میں ڈبونا
  4. قے کرنا
  5. جماع
  6. صبح کی اذان تک جنابت پر باقی رہنا
  7. روزے کی قضا اور کفارہ
  8. روزے کا کفارہ
  9. روزے کی قضا اور کفارے کے احکام
  10. مسافر کا روزہ
  11. مسافر کے روزے کا حکم
  12. زکات فطرہ
  13. زکات فطرہ کی مقدار
  14. زکات
  15. نصاب کی حد
  16. غلّے کا نصاب
  17. حیوان کا نصاب
  18. گائے کا نصاب
  19. اونٹ کا نصاب
  20. سونے اور چاندی کا نصاب
  21. زکات کے احکام
  22. زکات کا استعمال
  23. خمس
  24. کمائی سے حاصل ہونے والے منافع
  25. سال کا خرچہ
  26. خمس کا سال
  27. احکام خمس
  28. خمس کا استعمال
  29. جس سید کو خمس دیا جاسکتا ہے اس کی شر ائط
  30. حج
  31. حج تمتّع
  32. عمرہ تمتّع کے اجمالاً اعمال
  33. اجمالاً حج کے اعمال
  34. جہاد
  35. امر بالمعروف و نہی عن المنکر کےاحکام
  36. تولّی (تولّا) و تبرّی (تبرّا)
  37. خرید و فروخت کے احکام
  38. بیچنے والے اور خریدار کے شرائط
  39. وہ چیزیں جو خرید اور فروش میں مستحب ہیں
  40. ربا (سود)
  41. بیچی جانے والی چیز اور اس کے عوض کے شرائط
  42. نقد اور ادھار
  43. معاملہ سلف (پیش خرید)
  44. سونے چاندی کو سونے چاندی کے عوض بیچنا
  45. وہ مقامات جہاں انسان معاملہ فسخ (ختم) کرسکتا ہے
  46. اجارہ (کرایہ) کے احکام
  47. کرائے پر دیئے جانے والے مال کی شرائط
  48. اجارہ پر دیئے جانے والے مال سے استفادہ کی شرائط
  49. اجارہ کے مسائل
  50. شراکت کے احکام
  51. جعالہ کے احکام
  52. مضاربہ کے احکام
  53. امانت کے احکام
  54. عاریہ کے احکام
  55. نکاح
  56. نکاح کے احکام
  57. وہ عیوب جن کی وجہ سے عقد فسخ کیا جاسکتا ہے
  58. دودھ پلانے کے احکام
  59. دودھ پلانے کی وہ شرائط جو محرم بننے کا سبب بنتی ہیں
  60. دودھ پلانے کے آداب
  61. طلاق
  62. طلاق کی عدت
  63. طلاق بائن اور طلاق رجعی
  64. طلاق خلع
  65. طلاق مبارات
  66. گرا پڑا مال پانے کے احکام
  67. کھانے کے احکام
  68. وصیت کے احکام
  69. وراثت کے احکام
  70. میاں بیوی کی میراث
  71. میرا ث کے متفرق مسائل
  72. آیۃ اللہ علّامہ شیرازی صاحب کے مطبوعہ و غیر مطبوعہ قلمی آثار