خرابی
  • اس منظر کیلیے سانچہ دستیاب نہیں ہے۔ براہ کرم سائٹ کے منتظم سے رابطہ کریں۔

وضو جبیرہ

وضو جبیرہ

مسئلہ ۱۱۹: وہ چیز جس سے زخم یا ٹوٹی ہوئی ہڈی کو باندھا جاتا ہےاوروہ دواجو زخم یا ایسی چیز پر لگائی جاتی ہے جبیرہ کہلاتی ہے۔ 

مسئلہ ۱۲۰: وہ انسان کہ جس کے کسی وضو کے اعضاء میں زخم ہو یا ہڈی ٹوٹی ہو تو اگر وہ معمولی طور پر وضو کرسکتا ہے مثلاً یہ کہ اس کا زخم اوپر سے کھلا ہوا ہے اورپانی اس کو نقصان نہیں دیتا، یا یہ کہ اس کا زخم بندھا ہوا ہے لیکن اس کا کھولنا ممکن ہے اورپانی نقصان دہ بھی نہیں ہے تو وہ وضو کرے۔

مسئلہ ۱۲۱: اگر زخم منہ یا ہاتھوں کے اوپر ہو اوراوپر سے کھلا ہوا ہواوراس کے اوپر پانی ڈالنا نقصان دہ ہو پس اگر وہ پاک ہو اورتر ہاتھ اس کے اوپر پھیرنا نقصان دہ نہ ہو توواجب ہے کہ تر ہاتھ اس کے اوپر پھیرے۔ اوراگر ایسا کرنا اس کے لیے نقصان دہ ہو یا زخم نجس ہو اس پر پانی نہ ڈالا جاسکے تو ضروری ہے کہ زخم چاروں طرف سے دھویا جائے اوربنابر احتیاط واجب تیمم بھی کرے۔

مسئلہ ۱۲۲: اگر زخم یا ہڈی کا ٹوٹنا سر کے اگلے حصے یا پاؤں کے اوپر ہو (مسح کی جگہ پر ہو) اوراوپر سے کھلا ہوا ہو اور اس پر مسح نہ ہوسکے تو اس صورت میں ضروری ہے کہ اس کے اوپر ایک پاک کپڑا رکھا جائےاور اس کپڑے کے اوپر سے وضو کے پانی کی تری سے مسح کرے۔

وضو جبیرہ کے احکام

وضو جبیرہ کے احکام

مسئلہ ۱۲۳: اگر جبیرہ پورے منہ یا پورے ایک ہاتھ یا پورے دو ہاتھوں پر ہو تو بناء بر احتیاط تیمم کرے نیز جبیرہ وضو بھی کرے اگر جبیرہ سر اورپاؤں کو گھیرے ہوئے ہو تو صرف تیمم کرے۔

مسئلہ ۱۲۴: اگر کسی کے ہاتھ کی ہتھیلی اورانگلیوں پر جبیرہ ہو اوروضو کے وقت اس نے تر ہاتھ اس کے اوپر پھیرے ہیں تو ضروری ہے کہ سر اورپاؤں کا مسح اسی رطوبت سے کرے۔

مسئلہ ۱۲۵: اگر منہ یا ہاتھوں پر چند جگہوں پر جبیرہ ہے ضروری ہے کہ ان کے درمیان والی جگہ کو دھوئے اوراگر جبیرہ سر یا پاؤں کے اوپر والے حصے پر ہے تو ضروری ہے کہ ان کے درمیان مسح کرے اورجن جگہوں پر جبیرہ ہے وہاں جبیرہ کے احکام پر عمل کرے۔

مسئلہ ۱۲۶: اگر کسی شخص نے آنکھ کی بیماری کی وجہ سے پلکیں چپکا کر رکھی ہوں یا آنکھ میں درد کی وجہ سے پانی اس کے لیے مضر ہو تو ضروری ہے کہ تیمم کرے۔

مسئلہ ۱۲۷: اگر کوئی شخص یہ نہ جانتا ہو کہ اس کا وظیفہ تیمم ہے یا جبیرہ وضو تو بنابر احتیاط واجب ضروری ہے کہ ہر دو کو انجام دے۔

مسئلہ ۱۲۸:وہ چیزیں کہ جن کے لیے وضو ضروری ہے

مسئلہ ۱۲۸:وہ چیزیں کہ جن کے لیے وضو ضروری ہے

اول۔ نماز میت کے علاوہ واجبی نمازیں

دوم۔ خانہ کعبہ کا واجبی طواف

سوم۔ قرآن اوراسمائے خداوند اوراسمائے معصومین علیہم السلام کو ہاتھ لگانے کیلئے۔

۱۔ جس کا وضو نہیں ہے وہ ان درج ذیل چیزوں کو مَس نہ کرے:

(الف) قرآن کے الفاظ کو

(ب) خداوند کے اسماء کو چاہے کسی زبان میں ہی لکھے ہوں

(ج) پیغمبر ﷺ کے نام کو

(د) ائمہ علیہم السلام اورحضرت زہراسلام اللہ علیہا کے نام کو (بنا بر احتیاط واجب)

۲۔ درج ذٰل چیزوں کیلئے وضو کرنا مستحب ہے:

(الف) مسجد اورحرم ائمہ علیہم السلام میں جانے کیلئے

(ب) اہل قبور کی زیارت کیلئے

(ج) نماز میت کیلئے

(د) قرآن کی جلد کو مس کرنے کیلئے

(ھ) قرآن کو اپنے ساتھ رکھنے، تلاوت اورلکھنے کیلئے

(و) سوتے وقت۔

مسئلہ ۱۲۹:وہ چیزیں کہ جو وضو کو باطل کردیتی ہیں

مسئلہ ۱۲۹:وہ چیزیں کہ جو وضو کو باطل کردیتی ہیں

۱۔ پیشاب اورپاخانہ یا ہوا کے خارج ہونے سے

۲۔ ایسا سونا کہ کان سن نہ سکیں اورآنکھ نہ دیکھ سکے

۳۔ وہ چیزیں کہ جو عقل کو زائل کردیتی ہے مثلاً دیوانگی، مستی اوربے ہوشی

۴۔ عورتوں کا استحاضہ

۵۔ وہ چیزیں کہ جو غسل کا باعث ہوتی ہیں مثلا جنابت۔

غسل

غسل

مسئلہ ۱۳۰: بعض اوقات نماز کیلئے اورہر اس کام کیلئے کہ جس کیلئے وضوواجب ہے وضو کے ساتھ ساتھ غسل بھی واجب ہوجاتا ہے۔ 

واجبی غسل کی قسمیں

واجبی غسل کی قسمیں

وہ غسل کہ جو مرد اورعورت دونوں پرواجب ہیں:

۱۔غسل جنابت

۲۔ غسل مس میت

۳۔ غسل میت

۴۔ وہ غسل کہ جو نذراورقسم یا ان جیسی چیزوں کی وجہ سےواجب ہو جائے۔

وہ غسل کہ جو عورتوں کیلئے مخصوص ہیں:

۱۔ غسل حیض

۲۔ غسل استحاضہ

۳۔ غسل نفاس

غسل جنابت

غسل جنابت

مسئلہ ۱۳۱: انسان دو چیزوں سےجنب ہوتا ہے۔

(الف) منی کا خارج ہونا (کم ہو یا زیادہ، سوتے ہوئے ہو یا جاگتے ہوئے، شہوت کے ساتھ ہو یا بغیر شہوت کے ہو، اختیار کے ساتھ ہو یا بغیر اختیار کے)

(ب) جماع (مباشرت)، حلال کے ساتھ ہو یا حرام کے ساتھ، منی خارج ہو یا نہ ہو۔

مسئلہ ۱۳۲: اگر منی اپنی جگہ سے حرکت کرے لیکن باہرنہ آئے، یا شک ہو کہ منی باہر آئی ہے یا نہیں، تو اس صورت میں غسل واجب نہیں ہے۔ 

اوراگرکوئی یہ نہ جانتا ہو کہ جو چیز خارج ہوئی ہے وہ منی ہے یا نہیں، اگر منی کی علامتیں پائی جاتی ہوں تو وہ مجنب ہے اوراگر ایسا نہ ہو تو مجنب نہیں ہے۔ 

منی کی علامتیں

منی کی علامتیں

مسئلہ ۱۳۳: اگر منی کو پہچانتا ہو کہ منی ہی نکلی ہے تو اس کے احکام اس پر جاری ہوں گے اوراگر نہ پہچانتا ہوتو اس میں درج ذیل علامتیں ہوں تو وہ منی ہوگی:

(الف) شہوت کے ساتھ باہر آئے

(ب) اچھل کر نکلے

(ج) باہر آنے کے بعد جسم سست ہوجائے ۔

مسئلہ ۱۳۴: اگر کوئی یہ نہ جانتا ہو کہ جو رطوبت اس میں سے خارج ہوئی ہے وہ منی ہے یا نہیں تو اگرساری علامتیں پائی جاتی ہوں تو وہ مجنب کے حکم میں ہے اوراگر ان میں سے ایک بھی مفقود ہو تو وہ مجنب نہیں ہے۔ اگرچہ علامتوں میں سے ایک علامت پائی جاتی ہو۔

اگر کوئی شخص مریض ہے تو ضروری نہیں ہے کہ اس کی منی اُچھل کرباہر آئے بلکہ اگر پانی شہوت کے ساتھ باہر آئے اوربدن سست ہوجائے تو وہ منی کے حکم میں ہے۔ 

مسئلہ ۱۳۵: مستحب ہے کہ منی کے خارج ہونے کے بعدپیشاب کیا جائے اوراگر پیشاب نہ کرے اورغسل کرنے کے بعد کوئی رطوبت خارج ہو اورنہ جانتا ہو کہ منی ہے یا کوئی اورچیز تو وہ رطوبت منی کا حکم رکھتی ہے۔ 

مسئلہ ۱۳۶: وہ کام کہ جو مجنب پر حرام ہیں:

مسئلہ ۱۳۶: وہ کام کہ جو مجنب پر حرام ہیں:

۱۔ جسم کے کسی حصے کوقرآن کے حروف یا خداوند متعال، انبیاءاورائمہ معصومین علیہم السلام اورحضرت زہرا (ع) کے ناموں کو مس کرنا، جیسا کہ وضو کی بحث میں گذرچکا ہے۔

۲۔ مسجد الحرام اورمسجد نبوی میں جانا اگرچہ ایک دروازےسے داخل ہو اوردوسرے دروازےسے باہرنکل جائے۔

۳۔ دوسری مسجدوں میں ٹھہرنا اوراسی طرح بناء بر احتیاط واجب حرم ائمہ میں ٹھہرنا۔ لیکن اگر مسجد کے ایک دروازےسے داخل ہو اوردوسرے سے خارج ہوجائے توکوئی حرج نہیں ہے۔ 

۴۔ کسی چیز کو مسجد میں رکھنے کے لیے اوراسی طرح کسی چیز کو مسجد سے اٹھانے کے لیے داخل ہو۔ مسجد کے باہرسے بھی مسجد میں کوئی چیز پھینکنا جائز نہیں ہے۔ 

مسئلہ ۱۳۷: جو احکام مساجد کے بارے میں بیان کیے گئے ہیں وہ بناء براحتیاط واجب ائمہ طاہرین علیہم السلام کے حرموں پر بھی ہیں۔

۵۔ ان آیات کا پڑھنا کہ جن میں سجدہ واجب ہے:

سورہ سجدہ کی آیت نمبر ۱۵،          

سورہ فصلت (حم سجدہ) کی آیت نمبر ۳۷،

سورہ نجم کی آیت نمبر ۶۲،

سورہ علق کی آیت نمبر ۱۹۔

غسل کی قسمیں

غسل کی قسمیں

مسئلہ ۱۳۸: غسل میں ضروری ہے کہ سارا جسم دھویا جائے اس کے دو طریقے ہیں:

۱۔ ترتیبی                      ۲۔ ارتماسی

غسل کرنے کا طریقہ

۱۔ ترتیبی:        پہلے پورے سر اورگردن کو دھونا

                               اس کے بعد دائیں طرف آدھے بدن کو

                               اور اس کے بعد بائیں طرف کے آدھے بدن کو دھونا۔

۲۔ ارتماسی:ارتماسی غسل میں پورے بدن کو ایک دفعہ پانی میں ڈبونا

                               پانی میں جاتے وقت نیت کرے۔

ترتیبی اورارتماسی غسل کے مسائل

ترتیبی اورارتماسی غسل کے مسائل

مسئلہ ۱۳۹: وہ تمام شرطیں کہ جو وضو کے صحیح ہونے کیلئے بیان کی گئی ہیں۔ وہی شرطیں غسل کے صحیح ہونے کیلئے بھی ضروری ہیں مثلاً پانی کا پاک ہونا، اورغصبی نہ ہونا۔  

لیکن غسل میں ضروری نہیں ہے کہ جسم کو اوپر سے نیچے کی طرف دھویا جائے اوراسی طرح یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ ایک حصہ دھونے کے بعد بدن کا دوسرا حصہ فوراً دھویا جائے۔

مسئلہ ۱۴۰: اگر غسل میں بال کے برابر کوئی حصہ دھونے سے رہ جائے تو غسل باطل ہے لیکن جسم کا وہ حصہ کہ جو ظاہر نہیں ہے اس کا دھونا واجب نہیں ہے مثلاً:کان اور ناک کا اندر والا حصہ۔

مسئلہ ۱۴۱: اگر ترتیبی غسل کا وقت نہ ہو اورارتماسی غسل کیلئے وقت ہو تو ارتماسی غسل کیا جائے۔

مسئلہ ۱۴۲: ارتماسی غسل میں غسل سے پہلے پورے بدن کا پاک ہونا ضروری ہے۔

لیکن غسل ترتیبی میں پورے بدن کا پاک ہونا ضروری نہیں ہے اوراگر پورا بدن نجس ہواور ہر حصہ کو غسل سے پہلے پاک کردے تو کافی ہے۔ 

مسئلہ ۱۴۳: اگر کوئی شک کرے کہ اس نے غسل کیا ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ غسل کرے اوراگر غسل کرنے کے بعد شک کرے کہ اس کا غسل صحیح ہے یا نہیں تو اس کا غسل صحیح ہے ضروری نہیں ہے کہ وہ دوبارہ غسل کرے۔

مسئلہ ۱۴۴: اگر کوئی غسل جنابت کرے تو نماز کیلئے وضو کی ضرورت نہیں ہے لیکن دوسرے غسلوں کے ساتھ وضو کرنا ضروری ہے۔

مسئلہ ۱۴۵: اگرغسل کےدوران پیشاب جیسا کوئی حدث اصغر صادر ہو تو اس کا غسل صحیح ہے لیکن ضروری ہے کہ غسل کے بعد نماز کیلئے وضو کرے۔

جبیرہ غسل

جبیرہ غسل

مسئلہ ۱۴۶: اس کا طریقہ وہی ہے کہ جو جبیرہ وضو کا ہے لیکن ضروری ہے کہ اس کو ترتیبی طریقہ سے انجام دیا جائے۔

غسل مس میت

غسل مس میت

مسئلہ ۱۴۷: اگر کسی کے جسم کا کوئی حصہ مردہ انسان کے جسم کے ساتھ مس ہوجائے اور روح نکلنے کے بعد اس مردہ کا جسم ٹھندا ہوگیا ہو اوراسے غسل نہ دیاگیا ہو تو ایسے شخص پر غسل مس میت کرنا ضروری ہے۔

۱۴۸: دو مورد ایسے ہیں کہ جن میں مردہ جسم کو مس کرنے سے غسل واجب نہیں ہوتا:

(الف) وہ مردہ جس کی روح نکلنے کے بعد ابھی اس کا جسم گرم ہو

(ب) وہ مردہ کہ جس کو غسل دے دیاگیا ہو۔

مسئلہ ۱۴۹: غسل مس میت کا طریقہ غسل جنابت کی طرح ہے فرق صرف نیت کا ہے لیکن جس شخص نے غسل مس میت کیا ہے اگر وہ نماز پڑھنا چاہتا ہے تو احتیاط لازم کی بناء پر وضو بھی کرے۔

حیض

حیض

مسئلہ ۱۵۰: حیض وہ خون ہے جو غالباً ہر مہینے چند دنوں کے لیے عورتوں کے رحم سے خارج ہوتا ہے، عورت کو جب حیض کا خون آئے تو اسے حائض کہتے ہیں۔

مسئلہ ۱۵۱: حیض کا خون عموماً گاڑھا و گرم ہوتا ہےاور اس کا رنگ سیاہ یا سرخ ہوتا ہے یہ شدت اورتھوڑی سی جلن کے ساتھ خارج ہوتا ہے۔ 

مسئلہ ۱۵۲: حیض کی مدت تین دن سے کم اور دس دن سےزیادہ نہیں ہو سکتی۔

مسئلہ ۱۵۳: جو عورتیں سیدہ نہیں ہیں بناء بر مشھور پچاس سال کے بعد یائسہ ہوجاتی ہیں اورسیدہ ساٹھ سال کے بعد یائسہ ہوجاتی ہیں۔

مسئلہ ۱۵۴: اگر کسی لڑکی کو نو سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے خون آئے تو وہ حیض نہیں ہے۔

حائضہ عورتوں کی اقسام

حائضہ عورتوں کی اقسام

مسئلہ ۱۵۸: حائضہ عورتوں کی چھ قسمیں ہیں:

۱۔ وقتیہ و عددیہ عادت والی عورت: یہ وہ عورت ہے جو مسلسل دو ماہ وقت معین پر خون دیکھےاوراس کے ایام حیض کی تعداد بھی دونوں مہینوں میں مساوی ہو مثلاً مسلسل دو ماہ، مہینے کی پہلی سے ساتویں تک خون دیکھے۔

۲۔ وقتیہ عادت والی عورت: یہ وہ عورت ہے جو مسلسل دو ماہ تک وقت معین پر خون دیکھے لیکن دونوں مہینوں میں اس کے ایام حیض کی تعدادبرابر نہ ہو مثلاً مسلسل دو ماہ پہلی سے خون دیکھے لیکن پہلے مہینے ساتویں اوردوسرے مہینے آٹھویں تاریخ کو خون سے پاک ہو۔

۳۔ عددیہ عادت والی عورت: یہ وہ عورت ہے جس کے ایام حیض کی تعداد مسلسل دو ماہ ایک دوسرے کے برابر ہو لیکن ان دونوں مہینوں میں خون دیکھنے کا وقت ایک نہ ہومثلاً پہلے مہینے پہلی سے پانچویں تک اوردوسرے مہینے بارہ سے سترہ تاریخ تک خون دیکھے۔

اوراگر ایک مہینے میں دو مرتبہ مساوی ایام میں خون دیکھے تو اقرب یہ ہے کہ اس کی عادت طے ہوجائے گی۔ مثلاً مہینے کی ابتداءے میں پانچ دن اور دس یا زیادہ دنوں بعددوبارہ پانچ دن خون دیکھے۔ 

۴۔ مضطربہ: یہ وہ عورت ہے جس نے چند ماہ خون دیکھا ہو لیکن اس کی عادت ہی معین نہ ہوئی ہو یا پرانی عادت بگڑ گئی ہو اورنئی عادت طے نہ ہوئی ہو۔

۵۔ مبتدئہ: یہ وہ عورت ہے جس نے پہلی مرتبہ خون دیکھا ہو۔

۶۔ ناسیہ: یہ وہ عورت ہے جو اپنی عادت بھول گئی ہو۔

ان میں سے ہر ایک کے مخصوص احکام ہیں۔

مسئلہ ۱۵۹: عادت وقتیہ والی عورت خواہ عادت عادیہ ہو یا نہ ہو عادت میں خون دیکھتے ہی اپنے آپ کو حائض سمجھے یا عادت سے ایک دن یا دو دن پہلے خون دیکھے اگر وہ خون زرد اورپتلا ہو تو عبادت کو ترک کر دے اورحائض کے اعمال کو انجام دے لیکن اگر بعد میں کشف ہو جائے کہ یہ خون حیض نہیں تھا مثلاً تین دن سے پہلے خون ختم ہوجائے تو اس پر نماز کی قضاء واجب ہے۔

مسئلہ ۱۶۰: وقتیہ عادت کے علاوہ والی عورت چاہے عددیہ عادت والی ہو یا اصلاً اس کی عادت نہ ہو جیسے مبتدئہ جب خون دیکھے اوروہ خون حیض کی صفات رکھتا ہو مثلاً حرارت، سرخ یا سیاہ اورجلن سے نکلے تو یہ عورت خون دیکھتے ہی اپنے کو حائض سمجھے لیکن اگر بعد میں پتہ چلے کہ یہ حیض نہیں تھا کیونکہ تین دن سے پہلے ختم ہوگیا ہے تو اس پر نماز کی قضا واجب ہے۔

اوراگر وہ خون حیض والے خون کی صفات نہیں رکھتا تھا تو وہ حیض نہیں ہوگا۔

مسئلہ ۱۶۱: اگر عادت وقتیہ سے بہت پہلے یا بعد خون آجائے اگر وہ خون حیض کی نشانیاں رکھتا ہو تو یہ اپنے کو حائض سمجھے ورنہ اس پر استحاضہ کے احکام جاری ہوں گے۔

استحاضہ

استحاضہ

عورت کو آنے والے خونوں میں سے ایک خون استحاضہ ہے اورجس عورت کو خون استحاضہ آئے اسے مستحاضہ کہتے ہیں۔

مسئلہ ۱۶۲: خون استحاضہ اکثر اوقات زرد اورسرد ہوتا ہے اورشدت اورجلن کے بغیر آنے کے علاوہ گاڑھا بھی نہیں ہوتا ہے لیکن ممکن ہے کبھی سیاہ یا سرخ و گاڑھا ہو اورشدت و جلن کے ساتھ آئے۔

مسئلہ ۱۶۳: استحاضہ کی تین قسمیں ہیں:

۱۔ استحاضہ قلیلہ،             ۲۔ استحاضہ متوسطہ،             ۳۔ استحاضۃ کثیرہ

مسئلہ ۱۶۴: استحاضہ قلیلہ یہ ہے کہ جو روئی اپنے ساتھ رکھتی ہے خون فقط اس کے اوپر والے حصے کو آلودہ کرے اوراندر تک سرایت نہ کرے استحاضہ قلیلہ والی عورت کے لیے ضروری ہے کہ ہر نماز کے لیے وضو کرے اوراحتیاط واجب کی بنا پر روئی تبدیل کرے اوراگر شرمگاہ کےظاہری حصے پر خون لگا ہو تو اسے پاک کرنا ضروری ہے۔ 

مسئلہ ۱۶۵: استحاضہ متوسطہ یہ ہے کہ خون روئی میں سرایت کر جائے چاہے کسی ایک کونے میں ہی ، لیکن عورتیں خون سے بچنے کے لیے عموماً جو کپڑا یا اس جیسی چیز باندھتی ہیں ، اس تک نہ پہنچے ، استحاضہ متوسطہ والی عورت کے لیے ضروری ہے کہ ہر نماز صبح کے لیے غسل کرے اوردوسری صبح تک سابقہ مسئلے میں مذکورہ استحاضہ قلیلہ کے وظیفے پر عمل کرےاور جب بھی نماز صبح کے علاوہ کسی دوسری نماز سے پہلے یہ صورت حال پیش آئے تو اس نماز کے لیے غسل کرے اوردوسری صبح تک اپنی نمازوں کے لیے استحاضہ قلیلہ والے کام انجام دے۔

جس نماز سے پہلے غسل ضروری تھا اگر عمداً یا بھول کر غسل نہ کرے تو بعد والی نماز سے پہلے غسل کرے، چاہے خون آرہا ہو یا رُک چکا ہو۔

استحاضہ کثیرہ: یہ ہے کہ خون روئی میں سرایت کرکے کپڑے تک پہنچ جائے۔ استحاضہ کثیرہ، والی عورت کے لیے سابقہ مسئلے میں استحاضہ متوسطہ کے مذکورہ احکام پر عمل کرنے کے علاوہ احتیاط واجب کی بنا پر ہر نماز کے لیے کپڑے کو تبدیل یا پاک کرنا بھی ضروری ہے اورضروری ہے کہ ایک غسل نماز ظہر و عصر کے لیےاور ایک نماز مغرب و عشاء کے لیے انجام دے اورنماز ظہر و عصر اوراسی طرح مغرب و عشاء کے درمیان وقفہ نہ کرے اوراگر وقفہ کردے تو دوسری نماز چاہے عصر ہو یا عشاء اس کے لیے غسل کرے اوراستحاضہ کثیرہ میں غسل، وضو کی جگہ کافی نہیں ہے بلکہ ہر فریضہ یا نافلہ نماز کے لیے وضو کرنا ضروری ہے۔ 

مسئلہ ۱۶۶:استحاضہ کے غسل کا وہی طریقہ ہے جو کہ دوسرے غسلوں کا ہے فرق صرف نیت کا ہے۔

نفاس

نفاس

بچے کی پیدائش کے بعد ولادت کی وجہ سے ماں جو خون دیکھتی ہے اگر دس دن سے پہلے یا دسویں دن بند ہوجائے تو نفاس ہے ، عورت کو نفاس کی حالت میں "نفساء" کہتے ہیں۔

مسئلہ ۱۶۷: بچے کا پہلا حصہ باہر آنے سے پہلے جو خون دیکھے وہ نفاس نہیں ہے۔

مسئلہ ۱۶۸: ضروری نہیں ہے کہ بچے کی خلقت مکمل ہوئی ہو بلکہ اگر ناقص ہو تب بھی دس دن تک جو خون دیکھے نفاس ہے بشرطیکہ عرفاً کہا جائے کہ اس نے بچے کو جنم دیاہے ہاں، جب عرفی اعتبار سے شک ہو کہ اسے بچہ جنناکہا جاسکتا ہے یا نہیں، تو اس خون پر نفاس کے احکام نہیں ہیں۔

مسئلہ ۱۶۹: ممکن ہے خون نفاس ایک لمحہ سےزیادہ نہ آئے لیکن دس دن سےزیادہ نہیں ہوسکتا۔

مسئلہ ۱۷۰: بنا بر احتیاط، نفاس والی عورت پر مسجد میں ٹھہرنااوروہ کام جو حائض والی عورت پر حرام ہیں، اس پر بھی حرام ہیں۔

اور وہ چیزیں جو حائض پرواجب ہیں، نفاس والی عورت پربھی واجب ہیں ۔

۳۔ غسل میّت

۳۔ غسل میّت

مسئلہ ۱۷۱: اگر کوئی مسلمان فوت ہوجائے تو ہر بالغ مسلمان پرواجب ہے کہ وہ اسے غسل اورکفن دے اور اس پر نماز پڑھےاور اس کو دفن کرے اوراگر بعض مسلمان اس کو انجام دے دیں تو دوسروں سے یہ وظیفہ ساقط ہوجائے گا اوراگر کوئی بھی انجام نہ دے تو سارے گناہ گار ہوں گے۔

مسئلہ ۱۷۲: میت کو تین غسل دیناواجب ہیں:

اول۔ اس پانی سے کہ جس میں تھوڑی سی سِدر ملی ہوئی ہو۔

دوم۔ اس پانی سے کہ جس میں تھوڑا سا کافورا ملا ہوا ہو۔

(حج یا عمرہ کے احرام میں فوت ہونے والے کے غسل میں کافور نہیں ملایا جاتا مگر یہ کہ اس کی موت حج میں سعی کے بعد ہو۔ نیز محرم کو کافور سے حنوط بھی نہیں دیاجائے گا)

سوم۔ خالص پانی کے ساتھ۔

مسئلہ ۱۷۳: غسل میت کا طریقہ غسل جنابت کی طرح ہی ہے اوراحتیاط واجب یہ ہے کی جہاں تک ترتیبی غسل دینا ممکن ہو ارتماسی غسل نہ دیاجائے۔

مسئلہ ۱۷۴: جو شخص مردہ کو غسل دیتا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ بارہ اماموں کا ماننے والا ہو (یعنی شیعہ ہو) اورعاقل ہو اورغسل کے مسائل بھی جانتا ہو۔

مسئلہ ۱۷۵: جو شخص مردے کو غسل دیتا ہے ضروری ہے کہ قصد قربت کرے۔

مسئلہ ۱۷۶: مرد کا عورت کو اورعورت کا مرد کو غسل دینا حرام ہے لیکن بیوی اپنے خاوند کو اورخاوند اپنی بیوی کو غسل دے سکتا ہے۔

مسئلہ ۱۷۷: تین سال کے بچے کو عورت غسل دے سکتی ہے اورتین سالہ بچی کو مرد بھی غسل دے سکتا ہے۔

مسئلہ ۱۷۸: غسل کےدوران یا غسل دینے کے بعد میت سے کوئی نجاست خارج ہو یا کسی خارجی نجاست سے میت کا بدن نجس ہوجائے تو اس جگہ کا پاک کرنا ضروری ہے لیکن غسل کا اعادہ واجب نہیں ہے۔ 

میت کا کفن

میت کا کفن 

مسئلہ ۱۷۹:

۱۔ مسلمان میت کے کفن کیلئے تین کپڑے ضروری ہیں: لُنگ، قمیض (کفنی) اوربڑی چادر جو سر سےپاؤں تک پہنچ جائے۔

۲۔ ضروری ہے کہ لُنگ ناف سے گھٹنوں تک ڈھانپے، قمیض (کفنی) کندھوں سے لیکر پنڈلیوں کے نصف تک پورے بدن کو ڈھانپے۔ بڑی چادر کی لمبائی اتنی ہونی چاہیے کہ سر سے لے کرپاؤں تک دونوں طرف سے آسانی سے گرہ لگائی جاسکے۔ اورچوڑائی اتنی ہونی چاہیے کہ میت کے ایک طرف پہلو سے دوسرے پہلو کی طرف الٹایا جاسکے۔ 

مرد کے لیے مستحبی پارچوں میں ایک ران پیچ ہے ، دوسرا عمامہ، عمامہ کا تحت الحنک بنانا مستحب ہے۔ مستحبی پارچوں میں عورت کے لیے ایک ران پیچ دوسرے مقنعہ (اوڑھنی)، تیسرے سینہ بند اورمرد عورت دونوں کے لیے دوسری بڑی چادر کا دینا مستحب ہے جو سب کے اوپر لپیٹی جائے۔

مسئلہ ۱۸۰: میت کے ساتھ جریدتین کا رکھنا مستحب ہے۔

میت کا حنوط

میت کا حنوط

مسئلہ ۱۸۱: میت کو غسل یا تیمم دینے کے بعدواجب ہے کہ مردہ کو "حنوط" کیا جائے یعنی پیشانی، دونوں ہاتھوں پر، گھٹنوں کے اوپر، پاؤں کے انگوٹھوں پر کافور ملا جائے اوراحتیاط واجب یہ ہے کہ سب سے پہلے کافور کو مردہ کی پیشانی پر ملیں اس کے بعد دوسری جگہوں میں ترتیب ضروری نہیں ہے۔ 

مسئلہ ۱۸۲: کافور کا پاک اورمباح ہونا ضروری ہے۔

نماز میت

نماز میت

مسئلہ ۱۸۳:مسلمان کے میت پر نماز پڑھناواجب ہے ہر مسلمان اورایسے بچے کی میت جو ا سلام کے حکم میں ہو اورپورے چھ سال کا ہوچکا ہو نماز پڑھناواجب ہے۔ 

مسئلہ ۱۸۴: ایسے بچے کی میت پر جو چھ سال کا نہ ہو رجاء کی نیت سے نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں لیکن مردہ پیدا ہونے والے بچے پر نماز پڑھنا مشروع نہیں ہے۔

مسئلہ ۱۸۵: نماز میت میں پانچ تکبیریں ہیں اوراگر نماز پڑھنے والا اس ترتیب کے ساتھ پانچ تکبیریں کہے تو کافی ہے نیت کرنے اورپہلی تکبیر کے بعد کہے: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَ اَنَّ مُحَمَّداً رَّسُوۡلُ اللہِ ۔

دوسری تکبیر کے بعد کہے: اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ۔

تیسری تکبیر کے بعد کہے: اَللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُؤْمِنِينَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ۔

چوتھی تکبیر کے بعد اگر میت مرد ہے تو کہے: اَللَّهُمَّ اغْفِرْ لِہَذَا المَیِتِّ۔

اوراگر میت عورت ہے تو کہے: اَللَّهُمَّ اغْفِرْ لِہَذِہِ المَیِّتِ۔

اوربہتر یہ ہے کہ پہلی تکبیر کے بعد کہے: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ أَرْسَلَهُ بِالْحَقِّ بَشِيراً وَ نَذِيراً بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ ۔

دوسری تکبیر کے بعد کہے: اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ بَارِکۡ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ وَ ارْحَمْ مُحَمَّداً وَ آلَ مُحَمَّدٍ كَأَفْضَلِ مَا صَلَّيْتَ وَ بَارَكْتَ وَ تَرَحَّمْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَ آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ وَ صَلِّ عَلیٰ جَمِیۡعِ الۡاَنۡبِیَاءِ وَ الۡمُرۡسَلِیۡنَ وَ الشُّہَدَاءِ و َ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ جَمِیۡعِ عِبَادِ اللہِ الصَّالِحِیۡنَ۔

تیسری تکبیر کے بعد کہے: اَللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُؤْمِنِينَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ وَ الْمُسْلِمِينَ وَ الْمُسْلِمَاتِ الْأَحْيَاءِ مِنْهُمْ وَ الْأَمْوَاتِ تَابِعۡ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَہُمۡ بِالۡخَیۡرَاتِ اِنََّ عَلیٰ کُلِّ شَیءٍ قَدِیۡر ٌ۔

اگر میت مرد ہو تو چوتھی تکبیر کے بعد کہے: اللَّهُمَّ اِنَّ ہَذَا عَبْدُكَ وَ ابْنُ عَبْدِكَ وَ ابْنُ أَمَتِكَ نزَلَ بِکَ وَ أَنْتَ خَيْرُ مَنْزُولٍ بِهِ اللَّهُمَّ إِنَّا لَا نَعْلَمُ مِنْهُ إِلَّا خَيْراً وَ أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنَّا اَللَّهُمَّ إِنْ كَانَ مُحْسِناً فَزِدْ فِي إِحْسَانِهِ وَ إِنْ كَانَ مُسِيئاً فَتَجَاوَزْ عَنْهُ وَ اغْفِرْ لَهُ اَللَّهُمَّ اجْعَلْهُ عِنْدَكَ فِي أَعْلَى عِلِّيِّينَ وَ اخْلُفْ عَلَى أَهْلِهِ فِي الْغَابِرِينَ وَ ارْحَمْهُ بِرَحْمَتِكَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ ۔

لیکن اگر میت عورت ہو تو چوتھی تکبیر کے بعد کہے:

اللَّهُمَّ اِنَّ ہَذِہِ اَمَتُکَ وَ ابْنَۃُ عَبْدِكَ وَ ابْنَۃُ أَمَتِكَ نَزَلَتۡ بِکَ وَ أَنْتَ خَيْرُ مَنْزُولٍ بِهِ اللَّهُمَّ إِنَّا لَا نَعْلَمُ مِنْهَا إِلَّا خَيْراً وَ أَنْتَ أَعْلَمُ بِهَا مِنَّا اَللَّهُمَّ إِنْ كَانَتۡ مُحْسِنَۃً فَزِدْ فِي إِحْسَانِهَا وَ إِنْ كَانَتۡ مُسِيئۃً فَتَجَاوَزْ عَنْهَا وَ اغْفِرْ لَهَا اَللَّهُمَّ اجْعَلْهَا عِنْدَكَ فِي أَعْلَى عِلِّيِّينَ وَ اخْلُفْ عَلَى أَهْلِها فِي الْغَابِرِينَ وَ ارْحَمْهَا بِرَحْمَتِكَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ۔

مسئلہ ۱۸۶: نماز جنازہ میں رسالت کی شہادت دینے کے بعد شہادت ثالثہ یعنی:أشۡہَدُ أَنّ علیا وّلی اللہ وَ اَوۡلَادَہُ الۡمَعۡصُوۡمِیۡنَ حُجَجُ اللہِ عَلی خَلۡقِہٖ ، کو پڑھ سکتے ہیں چنانچہ اپنے وقت کے مرجع آیت اللہ سید محمد رضا گلپائیگانی ؒنےآیت اللہ آقای خمینی ؒ کی نماز جنازہ میں شہادت ثالثہ کو پڑھا تھا اورجنازہ میں لاکھوں کی تعداد تھی جن میں بڑے بڑےعلماء بھی شریک تھے۔ 

۱۸۷: میت کو قبرمیں رکھنے کے بعد تلقین پڑھنا بھی مستحب ہے ۔

میت کو دفن کرنا

میت کو دفن کرنا

مسئلہ ۱۸۸: واجب ہے کہ میت کو اس طریقے سے دفن کیا جائے کہ اس کی بدبوباہر نہ آئے اوردرندے بھی اس کے بدن کو باہر نہ نکال سکیں۔

مسئلہ ۱۸۹: میت کو قبر میں دائیں کروٹ اس طرح لٹایا جائے کہ اس کے بدن کا سامنے والا حصہ قبلہ کی طرف ہو۔

نبش قبر

نبش قبر

مسئلہ ۱۹۰: مسلمان کی قبر کو کھولنا جائز نہیں ہے لیکن کچھ موارد میں کھولنا جائز ہے جو کہ درج ذیل ہیں:

۱۔ مردہ غضبی زمین میں دفن کیا گیا ہو۔

۲۔ مردے کا کفن غضبی ہواوراس کا مالک راضی نہ ہو۔

۳۔ مردہ غسل کے بغیر یا کفن کے بغیر دفن ہوا ہو۔

۴۔ جب کوئی اہم امر عارض ہوجائے مثلاً کسی حق کوثابت کرنے کیلئے مردے کے جسم کو دیکھنا ضروری ہو۔

تیمم

تیمم

رب العزت ارشاد فرماتا ہے:

{ وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ أَوْ لَمَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ مِنْهُ }

(سورہ مائدہ، آیت ۶)

مسئلہ ۱۹۱:

درج ذیل موارد میں ضروری ہے کہ وضو اورغسل کی جگہ تیمم کیا جائے۔

۱۔ پانی نہ ہو یا پانی کو حاصل کرنا ممکن نہ ہو۔

۲۔ پانی اس کے لئے ضرر رکھتا ہو (نقصان دہ ہو)

۳۔ پانی کو حاصل کرنا یا استعمال کرنا اس کے لیے اتنا سخت و دشوار ہو کہ عام لوگ اس کوبرداشت نہ کرسکتے ہوں۔

۴۔ اگر پانی کو وضو یا غسل میں استعمال کرے تو اسے خوف ہو کہ خود یا اس کی بیوی یا بچے یا دوست یا وہ لوگ کہ جو اس کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں یا وہ کہ جن کی جان کی حفاظت ضروری ہے پیاس کی وجہ سے مر جائیں گے یا مریض ہوجائیں گے۔ اورحیوان کے بارے میں بھی یہی حکم جاری ہوگا البتہ جبکہ اس حیوان کی ہلاکت سے اسے خاطر خواہ نقصان ہو۔

۵۔ اس کا بدن یا لباس نجس ہےاور ان کو پاک کرنے کے علاوہ پانی نہیں ہےاور اس کے علاوہ لباس بھی نہیں ہے۔ 

۶۔ وضو اورغسل کرنے کے لیے وقت نہ ہو۔

۷۔ وضو اورغسل کے لیے مباح پانی موجود نہ ہو۔

تیمم کا طریقہ

تیمم کا طریقہ

مسئلہ ۱۹۲: وضو یا غسل کے بدلے تیمم میں چار چیزیں واجب ہیں:

۱۔ نیت

۲۔ دونوں ہاتھوں کے تلوے کو ایسی چیز پر مارے کہ جس پر تیمم کرنا صحیح ہو اورواجب یہ ہے کہ دونوں ہتھیلیوں کو ایک ساتھ مارے۔

۳۔ دونوں ہاتھوں کے تلووں کو پوری پیشانی اوراس کی دونوں طرف کھینچنا۔ بالوں کے اگنے کی جگہ سے لیکرابرو اور ناک کے اوپر تک اوراحتیاطاً دونوں ہاتھوں کوابرو کے اوپر کھینچا جائے۔ 

۴۔ بائیں ہاتھ کے تلوے کو دائیں ہاتھ کی پشت پر کھینچنا (کلائی سے لیکر انگلیوں کے سرے تک) اوردائیں ہاتھ کے تلوے کو بائیں ہاتھ کی پشت پر کھینچنا۔ (کلائی سے انگلیوں کے سرے تک)

جبیرہ تیمم

جبیرہ تیمم

مسئلہ ۱۹۳: جس شخص پر تیمم واجب ہو اگر اس کے تیمم کے بعض اعضاء پر زخم ہو یا ہڈی ٹوٹی ہو تو ضروری ہے کہ وہ جبیرہ وضو کی طرح جبیرہ تیمم انجام دے۔

مسئلہ ۱۹۴: جن چیزوں پر تیمم کرنا صحیح ہے:

۱۔ مٹی                       ۲۔ ریت             ۳۔ مٹی کے ڈھیلے               ۴۔ پتھر

تیمم کے احکام

تیمم کے احکام

مسئلہ ۱۹۵: احتیاط مستحب یہ ہے کہ مٹی کے ہوتے ہوئے کسی دوسری چیز پر تیمم نہ کیا جائے۔ اوراگر مٹی نہ ہو تو ریت یا ڈھیلے کے ساتھ اوراگر ریت یا ڈھیلا بھی نہ وہ پھر پتھر پر تیمم کیا جائے۔

مسئلہ ۱۹۶: وہ تیمم کہ جو وضو کے بدلے میں ہے اورجو غسل کے بدلے میں ہے ان میں کوئی فرق نہیں ہے فقط نیت میں فرق ہے۔

مسئلہ ۱۹۷: اگر کسی نے غسل کے بدلے تیمم کیا ہے کوئی ایسا کام کرے کہ جو غسل کا موجب بنے تو اس کا تیمم باطل ہوجائے گا۔

مسئلہ ۱۹۸: اگر غسل جنابت کے بدلے میں تیمم کرتا ہے تو ضروری نہیں ہے کہ نماز کیلئے وضو کرے۔ لیکن اگر کسی دوسرے غسل کے بدلے میں تیمم کرتا ہے تو وضو کرنا ضروری ہے اوراگر وضو نہ کرسکے تو ضروری ہے کہ ایک اورتیمم وضو کے بدلے انجام دے۔

مسئلہ ۱۹۹: اگر پانی موجود نہ ہونے کی وجہ سے یا کسی اوروجہ سے تیمم کرے اوربعد میں اس کا عذر برطرف ہوجائے تو اس کا تیمم باطل ہوجائے گا۔

تیمم کے صحیح ہونے کی شرطیں

تیمم کے صحیح ہونے کی شرطیں

مسئلہ ۲۰۰:

۱۔ تیمم کے اعضاء یعنی پیشانی اوردونوں ہاتھ پاک ہوں۔

۲۔ پیشانی اورہاتھوں کی پشت کو اوپر سے نیچے کھینچے۔

۳۔ جس چیز پر تیمم کیا جائے وہ پاک اورمباح ہو۔

۴۔ ترتیب کا خیال رکھا جائے۔

۵۔ موالات کا خیال رکھا جائے (تیمم کے اعمال پے در پے انجام دے)

۶۔ اگرپیشانی یا ہاتھوں کی پشت یا ہاتھوں کے تلووں پر کوئی رکاوٹ ہو تو اس کو ختم کرے۔

نماز کے احکام

نماز کے احکام

ارشاد ربّ العزت ہے:

{وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَلا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ}

(سورہ روم، آیت ۳۱)


شریعت کے احکام میں سے مہم ترین اورزیبا ترین حکم نماز کا ہے نماز ایک خدا کی پرستش اوراس کے ساتھ عشق و محبت کا نام ہے۔ جو نعمتیں خداوند متعال نے ہمیں عطا کی ہیں نماز ان کے شکریے کا اظہار ہے۔ نماز دین کا ستون ہے اورمؤمن کی معراج ہے۔ قیامت کے دن فروع دین سے سب سے پہلے نماز کے بارے میں سوال کیا جائے گا ۔ حدیث میں ہے جس شخص کی نماز قبول ہوگئی اس کے سارے اعمال قبول ہوں گے اورجس کی نماز ردّ کردی گئی اس کے سارے اعمال ردّ کردیئے جائیں گے۔ امیر المومنین علی علیہ السلام نے نماز کو اوّل وقت میں ادا کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: جو شخص نماز کو سبک سمجھے وہ قیامت کے دن ہماری شفاعت کو نہیں پاسکے گا۔

مؤمنین کا چاہیے کہ اپنی اولادوں کو بچپن سے ہی نماز پڑھنے کی عادت ڈالیں۔

نماز یا واجب ہے یا مستحب ہے، واجب نمازیں بھی دو طرح کی ہیں۔ انمیں سے بعض وہ ہیں کہ جن کا دن رات میں ایک خاص اورمعین وقت میں ادا کرنا ضروری ہے اوربعض وہ ہیں کہ جو بعض اوقات کسی خاص وجہ سے واجب ہوتی ہیں۔

نماز کی قسمیں

نماز کی قسمیں

مسئلہ ۲۰۱:

۱۔ واجب نمازیں

۱۔ روزانہ کی نمازیں (یومیہ نمازیں)

۱۔ صبح، دو رکعت                                   ۲۔ ظہر، چار رکعت

۳۔ عصر ، چار رکعت                  ۴، مغرب ،تین رکعت

۵۔ عشاء، چار رکعت۔

۲۔ غیر روزانہ (غیر یومیہ) کی واجبی نمازیں

۱۔ نماز آیات                            ۲۔ نماز طواف واجب                       ۳۔ نماز میت

۴۔ والد کی قضا نمازیں جو بڑے بیٹے پر واجب ہوتی ہیں

۵۔ وہ نمازیں کہ جو نذر، عہد اورقسم کی وجہ سے واجب ہوجاتی ہیں۔

مستحب نمازیں

مستحب نمازیں

۱۔ روزانہ کی نمازوں کے نوافل:

۱۔ فجر کے نوافل                        نماز فجر سے پہلے ۔               دو رکعت

۲۔ ظہر کے نوافل                      نماز ظہر سے پہلے۔              آٹھ رکعت

۳۔ عصر کے نوافل                    نماز عصر سے پہلے۔             آٹھ رکعت

۴۔ مغرب کے نوافل     نماز مغرب کے بعد۔           چار رکعت

۵۔ عشاء کے نوافل        نماز عشاء کے بعد۔              دو رکعت بیٹھ کر

۲۔ رات کے نوافل

۱۔ نماز تہجد (نماز شب)    ۔          آٹھ رکعت

۲۔ نماز شفع                             ۔          دو رکعت

۳۔ نماز وتر                                          ۔           ۱ رکعت

مسئلہ ۲۰۲: نماز شب کا وقت مشہور قول کی بنا پر آدھی رات سے اذان صبح تک ہے لیکن بعیدنہیں ہے کہ اس کا وقت رات کی ابتداء سے اذان صبح تک ہو اورآدھی رات سے اذان صبح تک اس کی فضیلت کا وقت ہو اورافضل یہ ہے کہ رات کے آخری تیسرے حصے میں پڑھی جائے۔

۳۔ اس کے علاوہ نوافل

پنجگانہ نمازوں کے اوقات

پنجگانہ نمازوں کے اوقات

صبح کی نماز کا وقت: طلوع فجر دوم سے سورج کے طلوع ہونے تک۔ صبح کی اذان کے قریب مشرق کی طرف سے ایک سفیدی اوپر اٹھتی ہے جسے فجر اوّل کہا جاتا ہے اورجس وقت وہ سفیدی پھیل جائے اس کو فجر دوم کہتے ہیں یہ صبح کی نماز کا اوّل وقت ہے اورصبح کی نماز کا آخری وقت سورج نکلنے تک ہے۔

ظہر اورعصر کی نماز کا وقت: ظہر شرعی سے لیکر مغرب تک اگر لکڑی یا اس کی طرح کی کوئی اورچیز ہموار زمین میں سیدھا گاڑا جائے۔ جس وقت اس کا سایہ تھوڑا سا ظاہر ہو اورپھرزیادہ ہوتا جائے۔ یہ وقت ظہر شرعی ہے اورظہر کی نماز کا اوّل وقت ہے۔ اوراسی طرح وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ جتنی دیر میں چار رکعت پڑھی جاسکتی ہیں اس شخص کیلئے کہ جو مسافر نہ ہو۔ یا دو رکعت نماز اس شخص کیلئے کہ جو مسافر ہے اس کے بعد ظہر اورعصر کا مشترکہ وقت شروع ہوجاتا ہے۔ سورج کے غروب ہونے سے پہلے چار رکعت یا دو رکعت مسافر کے لیے نماز کا وقت باقی رہ جائے تو یہ وقت عصر کی نماز کیلئے مخصوص ہے۔

مسئلہ ۲۰۳: غیبت کے زمانہ میں نماز جمعہ بقصد رجاء پڑھی جاسکتی ہے لیکن اس کے بعد نماز ظہر کا پڑھناواجب ہے۔ 

مغرب اورعشاء کی نماز کا وقت: مغرب سے لیکر آدھی رات تک احتیاط واجب یہ کہ نماز مغرب کی ادائیگی میں سورج کے غروب کے بعد اتنی تاخیر کریں کہ مشرق سےظاہر ہونے والی سرخی انسان کے سر سے گزر جائے۔ 

نماز مغرب کا وقت داخل ہونے کے بعد تین رکعت کی مقدار کا وقت مخصوص نماز مغرب کے لیے ہے ور آدھی رات سے پہلے چار رکعت نماز کا وقت مخصوس عشاء کے لیے ہے۔ 

آدھی رات (نیمہ شب)

آدھی رات (نیمہ شب)

احتیاط واجب کی بناء پر سورج کے غروب ہونے سے لیکراذان صبح تک جتنا وقت ہو اس کو نصف کریں تو وہ آدھی رات اورعشاء کی نماز کا صاحب اختیار شخص کے لیے آخری وقت ہے۔

نماز کے اوقات کے احکام

نماز کے اوقات کے احکام

مسئلہ ۲۰۴:انسان کو اس وقت نماز شروع کرنی چاہیے کہ جب اس کو یقین ہوجائے کہ نماز کا وقت ہوگیا ہے یا دو عادل مرد یا ایک قابل اعتماد شخص جس کی بات کے برخلاف کا گمان نہ ہو خبر دیں کہ وقت داخل ہوگیا ہے یا وقت شناس شخص جو قابل اطمینان ہو، وقت داخل ہونے کا اعلان کرنے کے لیےاذان دے۔

مسئلہ ۲۰۵:اگر یقین ہوجائے کہ وقت داخل ہوگیا ہے اورنماز شروع کردے اورنماز کےدوران متوجہ ہو کہ وقت داخل نہیں ہوا ، یا شک کرے کہ وقت ہوگیا ہے یا نہیں، ایسی صورت میں نماز باطل ہے اوراسی طرح اگر نماز کے بعد پتہ چلے کہ اس نے ساری نماز وقت سے پہلے پڑھی ہے تو بھی نماز باطل ہے۔ ہاں اگر نماز کےدوران معلوم ہوجائے کہ وقت داخل ہوگیا ہے تو اس کی نماز صحیح ہے۔ 

مسئلہ ۲۰۶: مستحب ہے کہ انسان نماز کو اوّل وقت میں اداکرے اورجتنا اوّل وقت کے نزدیک ہو اتنا بہتر ہے مگر یہ کہ اس کی تاخیر کرنا کسی وجہ سے بہتر ہو مثلاً نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھنے کیلئے صبر کرے۔

مسئلہ ۲۰۷: اگر نماز کا وقت اتنا تنگ ہو کہ نماز کے بعض مستحبات اداکرنے سے نماز کی کچھ مقدار وقت کے بعد پڑھی جائے گی تو ضروری ہے کہ ان مستحبات کو چھوڑ دے مثلاً اگر قنوت پڑھنے کی وجہ سے نماز کا کچھ حصہ وقت کے بعد پڑھنا پڑھے تو ضروری ہے کہ قنوت نہ پڑھے۔ 

مسئلہ ۲۰۸: ضروری ہے کہ انسان عصر کی نماز کو ظہر کی نماز کے بعد اورعشاء کی نماز کو مغرب کی نماز کے بعد پڑھے۔

مسئلہ ۲۰۹: اگر کوئی عمدا نماز مغرب یا عشاء کو آدھی رات تک نہ پڑھے۔ بنابر احتیاط واجب ضروری ہے کہ صبح کی اذان سے پہلے اس کو ادا اورقضا کی نیت کیے بغیر پڑھے۔

مسئلہ ۲۱۰: اگر ظہر کی نماز کی نیت سے نماز شروع کرے اورنماز کے دوران اسے یادآجائے کہ ظہر کی نماز پہلے پڑھ چکا ہے وہ نیت کو عصر کی نماز کی طرف نہیں پھیر سکتا بلکہ اس نماز کو وہیں چھوڑ دے اورعصر کی نماز پڑھے اورمغرب اورعشاء کی نماز میں بھی اسی طرح ہے۔ 

مسئلہ ۲۱۱: قضاء نماز سے ادانماز کی طرف اورمستحب نماز سے واجب نماز کی طرف نیت کو پھیرنا جائز نہیں ہے۔ 

قبلہ

قبلہ

مسئلہ ۲۱۲: خانہ کعبہ کہ جو مکہ مکرّمہ میں واقع ہے اس کو قبلہ کہتے ہیں اورنماز پڑھنے والے پر ضروری ہے کہ وہ اس کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھے۔ لیکن جو شخص اس سے دورہے اگر اس طرح کھرا ہو کہ لوگ کہیں قبلہ رُخ نماز پڑھ رہا ہے تو کافی ہے یہی حکم قبلہ رُخ ہوکر انجام دیئے جانے والے دوسرے کاموں مثلاً حیوانات کو ذبح کرنے کا ہے۔ 

مسئلہ ۲۱۳: جو نماز پڑھنا چاہتا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ یقین حاصل کرنے کیلئے وہ کوشش کرے کہ قبلہ کس طرح ہے اوراگر یقین حاصل نہ کرسکے تو اپنے گمان کے مطابق عمل کرے۔

مسئلہ ۲۱۴: اگر کسی کے پاس قبلے کا رخ متعین کرنے کا کوئی ذریعہ نہ ہو یا کوشش کے باوجود اس کا گمان کسی ایک طرف نہ جائے تو اس کا کسی بھی سمت منہ کرکے نماز پڑھنا کافی ہے اوراحتیاط مستحب یہ ہے کہ اگر نماز کا وقت وسیع ہو تو چار نمازیں چاروں سمت منہ کرکے پڑھے۔

نماز میں جسم کاڈھانپنا

نماز میں جسم کاڈھانپنا

مسئلہ ۲۱۵:مردوں کے لیے ضروری ہے کہ اپنی شرمگاہ کو ڈھانپیں خواہ اسے کوئی بھی نہ دیکھ رہا ہو اوربہتر یہ ہے کہ ناف سے لیکر گھٹنے تک بدن بھی ڈھانپے۔

مسئلہ ۲۱۵: ضروری ہے کہ عورت نماز کے وقت اپنا پورا بدن حتی سراور بال بھی ڈھانپے اوراحتیاط مستحب یہ ہے کہ پاؤں کے تلوے کو بھی ڈھانپے لیکن وضو میں دھویا جانے والا چہرے کا حصہ ، کلائیوں تک ہاتھ اورٹخنوں تک پاؤں کاظاہری حصہ ڈھانپناضروری نہیں ہے ہاں یہ اطمینان حاصل کرنے کے لیے کہ اس نےواجب مقدار ڈھانپ لی ہے ضروری ہے کہ چہرے کے اطراف اورکلائیوں سے نیچے کا کچھ حصہ بھی ڈھانپے۔ 

مسئلہ ۲۱۷: نمازی کے لباس میں چند شرطوں کا ہونا ضروری ہے:

۱۔ پاک ہو (نجس نہ ہو)

۲۔ مباح ہو (غصبی نہ ہو)

۳۔ مردار کے اجزاء سے نہ ہو

۴۔ حرام گوشت حیوان کے اجزاء سے نہ بنا ہو

۵۔ اگر نمازی مرد ہو تو اس کا لباس خالص ریشم اورزرد دوزی (سونے کی کڑھائی) کا بنا ہوا نہ ہو۔

لباس کے احکام

لباس کے احکام

مسئلہ ۲۱۸: اگر یہ نہ جانتا ہو کہ اس کا لباس یا جسم نجس ہے اورنماز کے بعد پتہ چل جائے کہ نجس تھا اس کی نماز صحیح ہے۔

مسئلہ ۲۱۹: اگر بھول جائے کہ جسم یا لباس نجس ہے اورنماز کےدوران یا اس کے بعد اس کویاد آجائے تو ضروری ہے کہ دوبارہ نماز کا اعادہ کرے اوراگر وقت گزر گیا ہو تو اس کی قضا کرے۔

مسئلہ ۲۲۰: اگر کوئی عین اس رقم سے کہ جس کا خمس ادانہیں کیا لباس خریدے تو اس لباس میں نماز پڑھنے کا وہی حکم ہے جو غصبی لباس کے ساتھ نماز پڑھنے کا ہے۔ 

مسئلہ ۲۲۱: درج ذیل موارد میں اگر نجس جسم یا لباس سے نماز پڑھی جائے تو صحیح ہے:

(الف) جسم میں زخم کی وجہ سے جسم یا لباس نجس ہوگیا ہو اورجسم کا دھونا یا لباس کا تبدیل کرنا مشکل ہو۔

(ب) نمازی کا لباس یا جسم خون سے نجس ہوگیا ہو لیکن خون کی مقدار ایک درہم سے کم ہو۔ (درہم کی مقدار تقریباً شہادت والی انگلی کے اوپر والی پور کے برابرہے)

(ج) نجس لباس یا جسم میں نماز پڑھنے پر مجبور ہو۔

مسئلہ ۲۲۲: نمازی کا چھوٹا لباس مثلاً: ٹوپی، دستانے، جوراب اگر نجس ہوں یا نجس رومال جیب میں ہو تو اگر وہ مردار یا حرام گوشت جانور کے اجزاء سے نہ بنا ہو تو اس کے ساتھ نماز صحیح ہے نیز نجس انگوٹھی کے ساتھ نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔

مسئلہ ۲۲۳: عبا کا پہننا، سفید لباس، پاکیزہ ترین لباس، خوشبو کا استعمال اورعقیقی کی انگوٹھی نماز میں پہننا مستحب ہے۔

مسئلہ ۲۲۴: سیاہ لباس، میلا یا تنگ لباس پہننا اورنجاست سے پرہیز نہ کرنے والے لباس کا پہننا اورلباس کے بٹن کا کھلا ہونا مکروہ ہے۔

مسئلہ ۲۲۵: عزاداری امام حسین علیہ السلام میں سیاہ لباس پہننا مکروہ نہیں ہےاور اس کے ساتھ نماز پڑھنا بھی مکروہ نہیں ہے۔ 

نماز پڑھنے کی جگہ

نماز پڑھنے کی جگہ

مسئلہ ۲۲۶: وہ جگہ کہ جہاں نمازی نماز پڑھتا ہے اس کی کچھ شرطیں ہیں:

(الف) مباح ہو،

(ب) نمازی کی جگہ متحرک نہ ہو (مثلاً گاڑی چلتے ہوئے نہ ہو)،

(ج) نماز پڑھنے کی جگہ چھت نیچی ہونے کی وجہ سے اتنی چھوٹی نہ ہو کہ سیدھا کھڑا نہ ہوسکے اوراسی طرح مکان کے تنگ ہونے کی وجہ سے جگہ اتنی تنگ نہ ہو کہ رکوع اورسجود انجام نہ دے سکے،

(د) جس جگہ سجدے کے لیے پیشانی رکھتا ہے وہ پاک ہو،

(ھ) اگر نمازی کی جگہ نجس ہو وہ اتنی تَر نہ ہو کہ نمازی کے لباس یا بدن تک پہنچ جائے۔

(و) نمازی کی پیشانی کی جگہ اس کےپاؤں کی انگلیوں کے سرے کی جگہ سے چار ملی ہوئی انگلیوں کی مقدار سےزیادہ نیچی یا اونچی نہ ہو۔

نمازی کی جگہ کے احکام

نمازی کی جگہ کے احکام

مسئلہ ۲۲۷: غصبی جگہ پر نماز پڑھنا باطل ہے۔

مسئلہ ۲۲۸: اگر ایسی رقم سے کہ جس کا خمس نہیں دیاگیا کوئی زمین خریدے تو اس زمین کا استعمال کرنا حرام ہے اوراس جگہ نماز پڑھنا باطل ہے۔ 

مسئلہ ۲۲۹: اگر کوئی شخص مسجد میں بیٹھے ہوئے کسی شخص کی جگہ غصب کرکے وہاں نماز پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے۔

مسئلہ ۲۳۰: نہ جانتا ہو کہ جگہ غصبی ہے اورنماز پڑھنے کے بعد معلوم ہو جائے کہ سجدہ کی جگہ غصبی تھی تو اس کی نماز باطل ہے۔

مسئلہ ۲۳۱: اگر نمازی بھول گیا ہو کہ یہ جگہ غصبی ہے اورنماز کے بعدیاد آئے تو اس کی نماز صحیح ہے ہاں اگر خود نمازی نے اس جگہ کو غصب کیا ہو اوربھول کر وہاں نماز پڑھے ،نماز کے بعدیاد آئے تو اس کی نماز باطل ہے۔ 

مسئلہ ۲۳۲: مجبوری کی حالت میں (مثلاً وقت تنگ ہے) ایسی چیز پر نماز پڑھنا جائز ہے کہ جو حرکت کر رہی ہو مثلاً ریل گاڑی، ہوائی جہازاور وہ جگہ جس کی چھت چھوٹی ہو مثلاً مورچہ اورناہموار جگہ۔

مسئلہ ۲۳۳: پیغمبر ﷺ اورائمہ علیہم السلام کی قبور ے آگے بڑھ کر نماز پڑھنا اگر بے حرمتی کا سبب ہو تو حرام اورباطل ہے۔

مسجد کے احکام

مسجد کے احکام

مسئلہ ۲۳۴: مسجد کی زمین، چھت کا اندرونی اوراوپری حصہ اورمسجد کی دیوار کا اندر والا حصہ نجس کرنا حرام ہے اورجس شخص کو بھی اس کے نجس ہونے کا علم ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کو فوراً پاک کرے اوراحتیاط واجب یہ ہے کہ مسجد کی دیوار کاباہر والا حصہ بھی نجس نہ کرے۔ 

مسئلہ ۲۳۵: معصومین علیہم السلام کے روضوں کو نجس کرنا حرام ہے اورنجس ہونے کے بعد اگر نجس چھوڑنے سے بے احترامی ہوتی ہو تو انہیں پاک کرنا واجب ہے، بلکہ اگر بے احترامی نہ ہو تو بھی احتیاط مستحب یہ ہے کہ اسے پاک کرے۔

مسئلہ ۲۳۶: مستحب ہے کہ انسان نماز کو مسجد میں اداکرے اوراسلام میں اس مسئلے پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ 

مسئلہ ۲۳۷: مستحب ہے کہ جو شخص مسجد میں نہیں آتا اس کے ساتھ کھانا نہ کھایا جائے، اپنے کاموں میں اس کے ساتھ مشورہ نہ کرے اس کے ساتھ ہمسائیگی نہ کرے۔ اس کو رشتہ نہ دے اورنہ ہی اس سے رشتہ کرے۔

مسئلہ ۲۳۸: عورت کا گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے۔

مسئلہ ۲۳۹: جس مسجد میں آل محمد علیہم السلام سے بُغض رکھنے کی تعلیم دی جاتی ہواور آل رسولؐ کی آشکارا مخالفت کی جاتی ہو تو ایسی مسجد کی مدد کرنا حرام ہے۔

اذان و اقامت

اذان و اقامت

مسئلہ ۲۴۰: مستحب ہے کہ نمازی روزانہ کی نمازوں سے پہلےاذان پھر اس کے بعد اقامت اورپھر نماز کوشروع کرے۔

اذان

اذان

مسئلہ ۲۴۱: اذان کی بیس فصلیں ہیں اور وہ یہ ہیں:

اَللہُ اَکۡبَر ُ(۴ مرتبہ):                                        اللہ توصیف کیے جانے سے بالا تر ہے۔

اَشۡہَدُ اَن لَا اِلہَ اِلّا اللہ (۲) مرتبہ: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔

اَشۡہَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَّسُوۡلُ اللہ ِ(۲ مرتبہ): میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔

اَشۡہَدُ اَنَّ عَلِیّاً وَلِیُّ اللہِ (۲ مرتبہ): میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت علی علیہ السلام اللہ کے ولی ہیں۔

حَیَّ عَلی الصَّلوٰۃِ (۲ مرتبہ):  نماز کی طرف آؤ۔

حَیَّ عَلی الفَلاحِ (۲ مرتبہ):    کامیابی کی طرف آؤ۔

حَیَّ عَلیٰ خَیۡرِ الۡعَمَلِ (۲ مرتبہ):        بہترین کام کی طرف آؤ۔

اَللہُ اَکۡبَرُ (۲ مرتبہ):                 اللہ توصیف کیے جانے سے بالاتر ہے۔

لَا اِلٰہَ الّا للہُ(۲ مرتبہ):             اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔

مسئلہ ۲۴۲: جملہ: اَشۡہَدُ اَنَّ عَلِیّاً وَّلیُّ اللہ ،اذان اوراقامت کا جزء ہے اور اس چیز کی طرف بعض روایات میں اشارہ ملتا ہے۔ ([1])

مسئلہ ۲۴۳: اذان کے بعد اس دعا کا پڑھنا مستحب ہے: اللَّهُمَّ اجْعَلْ قَلْبِي بَارّاً وَ عَمَلِي سَارّاً وَ عَيْشِي قَآرّاً وَ رِزْقِي دَآرّاً وَ اَوۡلَادِی اَبۡرَاراً وَ اجْعَلْ لِي عِنْدَ قَبْرِ نَبِيِّكَ مُحَمَّدٍ صَلَی اللہ عَلَیۡہِ وَ آلِہٖ مُسْتَقَرّاً وَ قَرَاراً بِرَحۡمَتِکَ یَا اَرۡحَمَ الرَّاحِمِیۡنَ۔



[1] ۔ مسئلہ شہادت ثالثہ کے بارے میں ہماری تحقیقی کتاب البیان کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔

اقامت

اقامت

مسئلہ ۲۴۴: اقامت کی انیس فصلیں ہیں:

اَللہُ اَکۡبَر ُ(۲ مرتبہ):                                        اللہ توصیف کیے جانے سے بالا تر ہے۔

اَشۡہَدُ اَن لَا اِلہَ اِلّا اللہ (۲) مرتبہ: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔

اَشۡہَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَّسُوۡلُ اللہ ِ(۲ مرتبہ): میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔

اَشۡہَدُ اَنَّ عَلِیّاً وَلِیُّ اللہِ (۲ مرتبہ): میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت علی علیہ السلام اللہ کے ولی ہیں۔

حَیَّ عَلی الصَّلوٰۃِ (۲ مرتبہ):  نماز کی طرف آؤ۔

حَیَّ عَلی الفَلاحِ (۲ مرتبہ):    کامیابی کی طرف آؤ۔

حَیَّ عَلیٰ خَیۡرِ الۡعَمَلِ (۲ مرتبہ):        بہترین کام کی طرف آؤ۔

قَدۡ قَامَتِ الصّلوٰۃ (۲ مرتبہ):              یقیناً نماز قائم ہوگئی۔

اَللہُ اَکۡبَرُ (۲ مرتبہ):                 اللہ توصیف کیے جانے سے بالاتر ہے۔

لَا اِلٰہَ الّا للہُ(ایک مرتبہ):          اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔

اذان اوراقامت کے احکام

اذان اوراقامت کے احکام

مسئلہ ۲۴۵: اذان اوراقامت کے جملوں کے درمیان زیادہ فاصلہ نہیں ہونا چاہیے اوراگر ان کے درمیان فاصلہ زیادہ ہوجائے تو ضروری ہے کہ ان کودوبارہ کہاجائے۔ 

مسئلہ ۲۴۶: اگر ایک شخص نماز جماعت کیلئے اذان اوراقامت کہہ دے تو سب کےلیے کافی ہے باقی لوگ اپنے لیے اذان و اقامت نہ کہیں۔

مسئلہ ۲۴۷: اگر کوئی جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں جائے اوردیکھے کہ جماعت ختم ہوگئی ہے لیکن جماعت کی صفیں نہیں ٹوٹیں تو اس کے لیے ضروری نہیں ہے کہ اذان اوراقامت کہے۔

مسئلہ ۲۴۸: جس دن بچہ پیدا ہوتا ہے اس کے دائیں کان میں اذان اوربائیں کان میں اقامت کہنا مستحب ہے۔

مسئلہ ۲۴۹: اقامت کے لیے ضروری ہے کہ اذان کے بعد کہی جائے اوراگر اذان سے پہلے کہی جائے تو صحیح نہیں ہے۔ اقامت کہنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ کھڑا ہو اورطہارت (وضو یا غسل یا تیمم) کے ساتھ اقامت کہے۔

مسئلہ ۲۵۰: اذان اوراقامت کے لیے ضروری ہے کہ نماز کا وقت داخل ہوجانے کے بعد کہی جائے اگر جان بوجھ کر یا بھول کر وقت سے پہلے کہہ دی جائے تو باطل ہے۔ ہاں صبح کی نماز کے لیے فجر سے پہلے اعلان کی خاطر اذان دی جاسکتی ہے لیکن وقت داخل ہونے کے بعد پھراذان کہی جائے۔

نماز کے واجبات

نماز کے واجبات  

مسئلہ ۲۵۱:

۱۔ "اللہ اکبر " کہنے سے نماز شروع ہوتی ہے اور"سلام" کہنے کے ساتھ ختم ہوجاتی ہے۔

۲۔ جو کچھ نماز میں پڑھا جاتا ہے یا واجب ہے یا مستحب ہے۔

۳۔ واجبات نماز گیارہ ہیں ان میں سے بعض رکن ہیں اوربعض نماز کے رکن نہیں ہیں۔

۱۔ نیت                                                                                   ۲۔ قیام

۳۔ تکبیرۃ الاحرام                                              ۴۔ رکوع

۵۔ سجدے                                                                  ۶۔ قرائت

۷۔ ذکر                                                                      ۸۔ تشہد

۹۔ سلام                                                                     ۱۰۔ ترتیب

۱۱۔ موالات

رُکن اورغیر رکن میں فرق

رُکن اورغیر رکن میں فرق

نماز کے ارکان، نماز کے بنیادی اجزاء میں سے ہیں یعنی اگر انسان انہیں بجا نہ لائے تو خواہ ایسا کرنا جان بوجھ کر ہو یا غلطی سے نماز باطل ہوجاتی ہے۔

اورغیر رکن اگر غلطی کی بناء پر چھوٹ جائیں تو نماز باطل نہیں ہوتی۔

قیام کے ارکان

قیام کے ارکان

۱۔ نیت

۲۔ تکبیرۃ الاحرام

۳۔ قیام، تکبیرۃ الاحرام کہتے وقت اورقیام متصل بہ رکوع (یعنی رکوع میں جانے سے پہلے کا قیام)

۴۔ رکوع

۵۔ ہر رکعت کے دوسجدے۔

نماز کے واجبات کے احکام

نماز کے واجبات کے احکام

مسئلہ ۲۵۲:نیت ۔ نمازی کے لیے ضروری ہے کہ وہ نماز کو قربت کے ارادے سے اد ا کرے اورضروری نہیں ہے کہ نیت کو زبان پر لے آئے اوریہ بھی لازمی نہیں ہے کہ نیت کو دل میں دھرائے۔

مسئلہ ۲۵۳: نمازی کیلئے ضروری ہے کہ نماز کے شروع سے لیکر آخر تک اپنی نیت پر قائم رہے۔ پس اگر نماز کے دوران اتنا غافل ہو جائے کہ اگر اس سے پوچھا جائے کہ کیا کر رہے ہو؟ تو وہ جواب نہ دے سکے کہ کیا کر رہا ہے ایسی صورت میں نماز باطل ہے۔

مسئلہ ۲۵۴: نماز میں ریاکاری اورخود نمائی نہ کی جائے یعنی نماز کو فقط خدا کے حکم کو انجام دینے کیلئے پڑھا جائے۔ پس اگر پوری نماز یا نماز کا کچھ حصہ غیر خدا کیلئے ہو تو باطل ہے۔

تکبیرۃ الاحرام

تکبیرۃ الاحرام

تکبیرۃ الاحرام سے مراد نماز سے پہلے "اللہ اکبر" کہنا ہےاور اس تکبیر سے نماز شروع ہوجاتی ہے۔ 

مسئلہ ۲۵۵: تکبیرۃ الاحرام سے پہلے چھ تکبیروں کا کہنا مستحب ہے۔

تکبیرۃ الاحرام کے بعد توجہ کا پڑھنا مستحب ہے۔

ہمارے مذہب کے بہت بڑےفقیہ ابن زہرہ متوفی ۵۸۵ فرماتے ہیں کہ تکبیرۃ الاحرام کے بعد کہے:وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَ الْأَرْضَ حَنِيفاً مُسۡلِماً عَلیٰ مِلَّۃِ اِبۡرَاہِیۡمَ وَ دِیۡنِ مُحَمَّدٍ وَ وِلَایَۃِ أمِیۡرِ الۡمُؤمِنِیۡنَ عَلِیٍّ وَ الاَئِمَّۃِ مِنۡ ذُرِیّتِہما وَ مَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ إِنَّ صَلوٰتِي وَ نُسُكِي وَ مَحْيَايَ وَ مَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُ وَ بِذَلِكَ أُمِرْتُ وَ أَنَا مِنَ الْمُسْلِمِيۡنَ۔([1])

میں اپنا رُو (رخ) کرتا ہوں اس ہستی کی طرف جس نے آسمانوں اورزمین کو خلق کیا در حالانکہ باطل سے دین حق کی طرف جھکنے والا مسلمان (ہوں) (میں) ملت ابراہیم اوردین محمد ﷺ اورامیر المومنین علی اورائمہ علیہم السلام جو کہ ان دونوں کی ذریت سے ہیں کی ولایت پر ہوں اورمیں مشرکین سے نہیں ہوں بے شک میری نماز، اعمال اورمیرا مرنا جینا عالمین کے رب خداکے لیے ہے اس کا کوئی شریک نہیں اوراسی چیز کا مجھے حکم دیاگیا ہے اورمیں مسلمانوں میں سے ہوں۔

شیخ مفید جو کہ سید مرتضی علم الہدی اورسید رضی جامع نہج البلاغہ کے استاداور۴۱۳ کے متوفی ہیں وہ اپنی کتاب مقنعہ اورسلار دیلمی جو کہ ۴۴۸ یا ۴۶۳ کے متوفی ہیں اورمذہب شیعہ کےبزرگ فقہاء سے ہیں وہ اپنی کتاب، مراسم میں لکھتے ہیں تکبیرۃ الافتتاح (تکبیرۃ الاحرام کو تکبیرۃ الافتتاح بھی کہتے ہیں) کے بعد نمازی کہے : "وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضَ حَنِیۡفاً مُسۡلِماً عَلیٰ مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ وَ دِينِ مُحَمَّدٍ (ص) وَ وِلَایَۃِ أَمِیۡرِ الۡمُؤمِنِیۡنَ عَلِیِ بۡنِ أبِی طَالِبٍ (ع) وَ مَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ إِنَّ صَلَوٰ تِي وَ نُسُكِي وَ مَحْيَايَ وَ مَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُ وَ بِذَلِكَ أُمِرْتُ وَ أَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيۡمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ، بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيۡمِ‏"([2]) (اس کے بعد سورہ حمد پڑھے)

اوریہی چیز مختصر تفاوت کے ساتھ دیگر کئی ایک کتب میں موجود ہے۔

شیخ صدوق کی کتاب من لا یحضرہ الفقیہ جو کہ کتب اربعہ سے ہے اس میں بھی توجہ میں، علی علیہ السلام کا نام موجود ہے نیز شیخ الطائفہ شیخ طوسی کی کتاب مصباح المتھجد ص ۴۵ میں بھی من لایحضرۃ الفقیہ والی عبارت نقل ہوئی ہے۔ 

قاضی عبد العزیز بن براج جو کہ ۴۸۱ ھ کے متوفی ہیں انہوں نے بھی توجہ میں منہاج علی بن أبی طالب کے الفاظ کو ذکر کیا ہے۔ ([3])

حدیث کی معتبر کتاب وسائل الشیعہ([4]) میں منہاج علی بن أبی طالب و ہدی أمیر المومنین (ع) کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔

سوال: جس توجہ کا ذکر، کتب حدیث و کتب فتاویٰ میں آیاہے یہ دعا ہے یا ذکر؟

اگر جواب میں کہیں کہ یہ دعا ہے تو پھر سوال یہ ہے اس دعا میں تو نمازی صرف اپنے عقیدہ اوربندگی کا اظہار کر رہا ہے خداسے کوئی چیز نہیں مانگ رہا۔ اوراگر کہیں کہ یہ ذکر ہے تو پھر اس ذکر میں ولایت علی علیہ السلام کااقرار بھی کیا جا رہا ہے۔ جب پہلی رکعت میں ولایت کا اقرارکرنا مستحب اور باعث ثواب ہے تو پھر دوسری رکعت میں دلیل کےباوجود ذکر ولایت مبطل نماز کیسے ہوگیا؟

مخفی نہ رہے کہ توجہ جس کے پڑھنے کا حکم دیاگیا ہے ہمارےنزدیک یہ دعا کا مصداق بھی ہے اورذکر میں بھی شامل ہے۔ 

دعا کا اطلاق دو طرح پر ہوسکتا ہے ۔ دعا بمعنی خاص اور وہ یہ ہے کہ اَللَّہُمَّ کہہ کر خداسے کوئی چیز مانگی جائے عام طور پر لوگ اسی کو دعا سمجھتے ہیں۔

اوردعا بمعنی عام بھی ہوتی ہے اس میں ضروری نہیں ہے کہ کوئی چیز مانگی جائے جیسا کہ بعض روایات میں کلمہ، اَلۡحَمۡدُ لِلہِ سب حمدیں خداکے لیے ہیں، کو بھی دعا کہا گیا ہے۔ ([5])

حالانکہ یہ جملہ حمدیہ ہے اس میں کوئی چیز خداسے نہیں مانگی گئی لیکن اس کے باوجود اسے دعا کہا گیا ہے اس بناء پر توجہ جس کے پڑھنے کا حکم دیاگیا ہے یہ دعا بھی ہے اورذکر بھی ہے۔ اس دعا اورذکر میں نصّاً و فتویًٰ، ولایت علی علیہ السلام کےاقرار کرنے کا حکم آیاہے۔ اگر اس نکتے کو سمجھ لیا جائے تو تشہد کا مسئلہ خود بخود حلّ ہوجائے گا۔ 



[1] ۔غنیہ لابن زہرۃ، نقل از جوامع فقھیہ ص ۴۹۷۔

[2] ۔المقنعہ ص ۱۰۴، المراسم فی الفقہ الاسلامی ص ۷۰۔

[3] ۔المہذب، ج۱، ص ۹۲۔

[4] ۔باب ۸ من ابواب تکبیرۃ الاحرام، ح۳، الحدائق الناضرۃ، ج۸، ص ۴۲ و کتب دیگر۔

[5] ۔تفسیرالبصائر، ج۱/ ۲۴۹ (افضل الدعاء الحمدللہ)۔

تکبیرۃ الاحرام کے واجبات

تکبیرۃ الاحرام کے واجبات

مسئلہ ۲۵۶:

۱۔ صحیح عربی میں کہا جائے

۲۔ "اللہ اکبر" کہتے ہوئے جسم حرکت نہ کرے

۳۔ تکبیرۃ الاحرام کو ایسے کہے کہ اگر کوئی رکاوٹ نہ ہو تو خود سن سکے (یعنی بالکل آہستہ نہ کہے)

۴۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ انسان نماز کی تکبیرۃ الاحرام کو اس سے پہلے پڑھی جانے والی چیز مثلاً اقامت یا تکبیر سے پہلے پڑھی جانے والی دعا سے نہ ملائے۔

۵۔ تکبیرۃ الاحرام اورنماز میں جتنی بھی تکبیریں ہیں ان سب میں کانوں تک ہاتھوں کا اٹھانا مستحب ہے۔

قیام

قیام

مسئلہ ۲۵۷:قیام یعنی کھڑا ہونا اوربعض اوقات یہ کھڑا ہونا نماز کے ارکان میں سے ہےاوراس کا چھوڑنا نماز کو باطل کر دیتا ہے۔ لیکن وہ لوگ کہ جو کھڑے ہوکر نماز نہیں پڑھ سکتے ان کا وظیفہ اگلے مسائل میں بیان ہوگا۔

 

قیام کی قسمیں

قیام کے احکام

رکن:                        ۱۔ تکبیرۃ الاحرام کے وقت قیام

                               ۲۔ رکوع کرنے سے پہلے قیام (قیام متصل بہ رکوع)

غیر رکن:       ۱۔ قرائت کے وقت قیام

                               ۲۔ رکوع کے بعد قیام (اگر کوئی شخص بھولے سے اسے ترک کردے تو اس کی نماز صحیح ہے)

قیام کے احکام

قیام کے احکام

مسئلہ ۲۵۸: تکبیر کہنے سے پہلے اوربعد میں تھوڑی دیر کھڑا رہنا چاہیے تاکہ یقین ہوجائے کہ کھڑے ہونے کی حالت میں تکبیر کہی ہے۔

مسئلہ ۲۵۹: اگر رکوع کرنا بھول جائےاورقرائت کے بعد بیٹھ جائےاور اس کویاد آجائے تو ضروری ہے کہ پہلے سیدھا کھڑا ہو اورپھر رکوع میں جائے اوراگر سیدھا کھڑا نہ ہو اورجھکے ہوئے رکوع میں چلا جائے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ۲۶۰: قیام کی حالت میں چند چیزوں سے پرہیز کیا جائے:

(الف) جسم کو حرکت دینا

(ب) کسی ایک طرف جھکنا

(ج) کسی چیز کے ساتھ ٹیک لگانا

(د) پاؤں کوزیادہ کھولنا

(ھ) پاؤں کو زمین سے اوپر اٹھانا۔

مسئلہ ۲۶۱: اگر کوئی شخص کھڑے ہوکر نماز نہیں پڑھ سکتا تو وہ بیٹھ کر قبلہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھے اوراگر بیٹھ کر نماز نہیں پڑھ سکتا تو لیٹ کر نماز پڑھے۔

مسئلہ ۲۶۲: انسان کے لیے مستحب ہے کہ قیام کی حالت میں ریڑھ اورگردن کی ہڈی کو سیدھا رکھے، کندھوں کو نیچے کی طرف ڈھیلا چھوڑ دے، ہاتھوں کو رانوں پر رکھے، انگلیاں ملا کر رکھے، اپنی نگاہ سجدہ گاہ پر رکھے، بدن کا بوجھ دونوںپاؤں پر یکساں ڈالے، خضوع و خشوع کی حالت میں کھڑا ہو، پاؤں آگے پیچھے نہ رکھے اورمرد ہو توپاؤں کے درمیان تین پھیلی ہوئی انگلیوں سے لے کر ایک بالشت تک کا فاصلہ رکھےاور اگر عورت ہو تو دونوں پاؤں ملا کر رکھے۔ 

قرائت

قرائت

مسئلہ ۲۶۲: نماز میں سورہ حمد اوردوسرہ سورہ کے پڑھنے کو "قرائت" کہتےہیں۔

روزانہ کی واجب نماز کی پہلی اوردوسری رکعت میں ضروری ہے کہ انسان پہلے سورہ حمداور اس کے بعد ایک پوری سورہ پڑھے۔

سورہ حمد

سورہ حمد

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ (١)

اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (٢)الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ (٣)مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ (٤)إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (٥)اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (٦)صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ (٧)

ترجمہ: شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑامہربان اورنہایت رحم والا ہے۔

سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو سارے جہاں کا پالنے والا (۲) بڑامہربان رحم والا (اور) (۳) روزجزا کا مالک ہے (۴) یا اللہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اورتجھی سے مدد چاہتے ہیں (۵) تو ہم کو سیدھی راہ پرثابت قدم رکھ (۶) ان کی راہ جنہیں تو نے (اپنی) نعمت عطا کی ہے نہ ان کی راہ جن پر تیرا غضب ڈھایا گیا اورگمراہوں کی راہ (۷)

سورہ توحید

سورہ توحید

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ (١)اَللَّهُ الصَّمَدُ (٢)لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ (٣)

وَلَمْ يَكُنْ لُّهُ كُفُوًا أَحَدٌ (٤)

ترجمہ: شروع خداکے نام سے جو مہربان اوررحم کرنے والا ہے

(اے رسولؐ) کہہ دو کہ اللہ ایک ہے (۱) اللہ بے نیاز ہے(۲) نہ اس نے کسی کو جنا نہ اُس کو کسی نے جنا (۳) اور اس کا کوئی ہمسر نہیں (۴)

More Articles ...

  1. تسبیحات اربعہ
  2. قرائت کے احکام
  3. قرائت کے کچھ مستحبات
  4. رکوع
  5. رکوع کے واجبات
  6. رکوع کا ذکر
  7. رکوع کے احکام
  8. رکوع کے کچھ مستحبات
  9. سجدےمیں
  10. سجدے کے واجبات
  11. سجدے میں جسم کا ساکن ہونا
  12. وہ چیزیں کہ جن پر سجدہ کرنا صحیح ہے
  13. سجدے کے احکام
  14. سجدے کے بعض مستحبات
  15. قرآن کے واجب سجدے
  16. تشہد
  17. سلام
  18. نماز کی ترتیب
  19. موالات
  20. قنوت اور اس کا ترجمہ
  21. نماز کی تعقیبات
  22. سجدہ شکر
  23. مبطلات نماز
  24. شکیات نماز
  25. جن شکوک کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے
  26. صحیح شکوک
  27. نماز احتیاط
  28. سجدہ سہو
  29. سجدہ سہو کا طریقہ
  30. بھولے ہوئے سجدے اورتشہد کی قضا
  31. قضا نماز
  32. والد کی قضا نمازیں
  33. نماز جماعت
  34. اہمیت نماز
  35. نماز جماعت کی شرطیں
  36. نماز جماعت میں شامل ہونا
  37. نماز جماعت کے احکام
  38. نماز جماعت کے بعض مستحبات اورمکروہات
  39. مسافر کی نماز
  40. مسافر کی نماز کے بعض احکام
  41. ان جگہوں پر نماز پوری ہے
  42. وطن
  43. دس دن کاارادہ
  44. نمازآیات
  45. نماز آیات کا طریقہ
  46. نماز آیات کے احکام
  47. نماز جمعہ
  48. عید کی نماز
  49. روزے کے احکام
  50. روزے کی اقسام
  51. واجب روزے
  52. حرام روزے
  53. مستحب روزے
  54. مکروہ روزے
  55. روزے کی نیت
  56. مبطلات روزہ
  57. احکام مبطلات روزہ
  58. غلیظ غبار کا حلق تک پہنچانا
  59. تمام سر کا پانی میں ڈبونا
  60. قے کرنا
  61. جماع
  62. صبح کی اذان تک جنابت پر باقی رہنا
  63. روزے کی قضا اور کفارہ
  64. روزے کا کفارہ
  65. روزے کی قضا اور کفارے کے احکام
  66. مسافر کا روزہ
  67. مسافر کے روزے کا حکم
  68. زکات فطرہ
  69. زکات فطرہ کی مقدار
  70. زکات
  71. نصاب کی حد
  72. غلّے کا نصاب
  73. حیوان کا نصاب
  74. گائے کا نصاب
  75. اونٹ کا نصاب
  76. سونے اور چاندی کا نصاب
  77. زکات کے احکام
  78. زکات کا استعمال
  79. خمس
  80. کمائی سے حاصل ہونے والے منافع
  81. سال کا خرچہ
  82. خمس کا سال
  83. احکام خمس
  84. خمس کا استعمال
  85. جس سید کو خمس دیا جاسکتا ہے اس کی شر ائط
  86. حج
  87. حج تمتّع
  88. عمرہ تمتّع کے اجمالاً اعمال
  89. اجمالاً حج کے اعمال
  90. جہاد
  91. امر بالمعروف و نہی عن المنکر کےاحکام
  92. تولّی (تولّا) و تبرّی (تبرّا)
  93. خرید و فروخت کے احکام
  94. بیچنے والے اور خریدار کے شرائط
  95. وہ چیزیں جو خرید اور فروش میں مستحب ہیں
  96. ربا (سود)
  97. بیچی جانے والی چیز اور اس کے عوض کے شرائط
  98. نقد اور ادھار
  99. معاملہ سلف (پیش خرید)
  100. سونے چاندی کو سونے چاندی کے عوض بیچنا